عاصم ایک بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ اسے ہر وہ چیز اچھی لگتی تھی جس سے روشنیاں پھوٹ رہی ہوں۔ چاہے وہ اس کا کوئی کھلونا ہو یا پھر کوئی بھی ڈیوائس، بس اس کی دنیا روشنی کے اردگرد ہی گھومتی تھی۔
سردیوں کی چھٹیوں میں عاصم اپنے دادا جان کے پاس اُن کے گاؤں رہنے چلا گیا۔ وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اسے بےحد پریشان کیا۔ یہ صورتحال اس کے لیے نئی تھی۔ اس نے تو بس خود کو ہمیشہ روشنی سے گھرا پایا تھا۔
اس دن بھی وہ اپنے کمرے میں بیزار سا بیٹھا ہوا تھا۔ داداجان اسے ڈھونڈتے ہوئے کمرے تک چلے آئے۔
’’ارے عاصم بیٹا! آپ یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘ دادا جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’دادا جان میں گھر جانا چاہتا ہوں۔‘‘ عاصم نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ دادا جان وجہ جانتے ہوئے بھی انجان بن گئے۔
’’یہاں تو لائٹ ہی نہیں ہے۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ میں اپنی وڈیو گیم بھی چارج نہیں کر سکتا۔‘‘ عاصم نے اداسی سے جواب دیا۔
’’ارے بھئی ! باہر اتنی تو دھوپ ہے۔ یہ تو تم خود کمرے میں بند ہو کر بیٹھ گئے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر دادا جان اسے صحن میں لے آئے جہاں سورج اپنی نرم گرم کرنیں بکھیرے ہوئے تھا۔
’’دادا جان! بھلا دھوپ میں بھی کوئی بیٹھتا ہے؟‘‘ عاصم نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں؟ اچھا بتاؤ کیا دھوپ تمہیں بھلی لگ رہی ہے یانہیں؟‘‘
عاصم نے غور کیا واقعی دھوپ تو بالکل بھی تیز نہیں تھی اور سردی میں دھوپ میں بیٹھنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
’’بھئی یہاں بیٹھے رہو ! دھوپ ہمارے جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے جو ہڈیوں کے لیے بے حد مفید ہے۔‘‘ دادا جان نے صحن میں رکھی چارپائی پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن دادا جان!اس دھوپ میں تو صرف ہڈیاں ہی چارج ہوں گی ناں ... میری وڈیو گیم تو پھر چارج ہونے سےرہ گئی ...‘‘عاصم کو اب اپنی وڈیو گیم کا دکھ ستانے لگا۔
’’ہاں بھئی، یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک کام کرو۔ اگر تو تم سے لائٹ آنے کا انتظار بالکل نہیں ہورہا تو تم منیر میاں کے پاس چلے جاؤ۔ اسے ہم سب گاؤں والے چھوٹا جادوگر بلاتے ہیں۔ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایجاد کرتا رہتا ہے۔ یقیناَ اس کے پاس تمہارے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوگا۔‘‘
منیر میاں کا سن کر عاصم کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہو۔ اسے ویسے بھی اس طرح کے لوگ بہت بھاتے تھے۔ وہ جھٹ سے تیار ہوکر منیر میاں کے گھرپہنچ گیا۔ دستک دینے پر ایک الجھے ہوئے بالوں والے شخص نے دروازہ کھولا جس کی عینک اس کے گھونسلے نما بالوں میں اٹکی ہوئی تھی۔
’’ کیا بات ہے بھئی؟ میں اپنی کھوئی ہوئی عینک کےلیے ویسے ہی بہت پریشان ہوں۔ جلدی بتاؤ کون ہو تم؟‘‘ منیر میاں نے عجلت میں پوچھا ۔
عاصم نے ہاتھ بڑھا کر بالوں میں پھنسی عینک نکالی اور ان کی نظروں کے سامنے لہراتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
منیر میاں اپنی عینک پا کر بہت خوش ہوئے اور عاصم سے آمد کا مقصد دریافت کیا۔
عاصم نے جب اپنی وڈیو گیم ان کو دی اور اسے چارج کرنے کا طریقہ پوچھا تو منیر میاں کافی دیر تک گیم کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، اور پھر اچانک جوش سے گیم سمیت کمرے کے ایک کونے کی طرف بھاگے جہاں کچھ اَنٹینانما اشیا اور دیگر کباڑ خانہ پڑا تھا۔ منیر میاں نے عاصم کی گیم کا کووَراتارا اور اسے اس کاٹھ کباڑ کے ڈھیر پر ہی کہیں سیٹ کرکے رکھ دیا۔ اب انہوں نے کمرے میں موجود ایک رسی کھینچی تو کمرے کی اوپری چھت کھسکتی چلی گئی اور پورا کمرا دھوپ سے نہا گیا۔
اس سے پہلے کہ عاصم کچھ سمجھ پاتا، منیر میاں نے یاہو کا نعرہ لگایا اور عاصم کے گلے لگ گئے۔
’’ تمہارا بہت بہت شکریہ لڑکے، تمہاری وجہ سے میرا تجربہ کامیاب رہا، میں کافی عرصے سے اس پرکام کررہا تھا کہ کچھ ایسا کروں کہ سورج کی توانائی سے بجلی بنا سکوں لیکن اس کے لیے مجھے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت تھی اور میرے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ اس گاؤں میں کوئی تجربہ گاہ۔ میں کب سے اکیلا ہی اس منصوبے پر کام کررہا تھا۔ گاؤں والے مجھے کوئی اورہی مخلوق سمجھتے ہیں لیکن دیکھو! دیکھو ذرا! تمہاری گیم چارج ہورہی ہے، مطلب میں اپنی کوششوں میں کامیاب رہا !‘‘
عاصم نے بے یقینی سے اس کاٹھ کباڑ کے ڈھیر پرپڑی اپنی گیم کو دیکھا جس کی چارجنگ لائٹ جل رہی تھی۔وہ سوچنے لگا کہ بجلی گئی ہوئی ہے تو یہ کیسے چارج ہورہی ہے۔
’’ بھئی، سورج سے؟‘‘ منیر میاں نے اپنی عینک کو ناک پر ٹیکتے ہوئے کہا۔
’’لیکن سورج سے کیسے؟‘‘ عاصم نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے! سورج صرف روشنی کا منبع ہی نہیںہے بلکہ یہ ڈھیروں توانایئوں کا مجموعہ بھی ہے۔ آج کل تو ہر جگہ شمسی توانائی کاراج ہے۔ ہمارے گاؤں کے لوگ توسادہ زندگی کے عادی ہو گئے ہیں اور ترقی کی دوڑ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ میں اکیلا ہوںجواس کام میں لگا ہوا ہوں۔اب میں اپنامقصدپانے کےبہت قریب ہوں۔اگر کوئی میرا ساتھ دے تو میں کامیاب ہو سکتا ہوں۔ ‘‘ منیر میاں کی آنکھوں میںچمک تھی۔
عاصم کو ایسا لگا جیسے شاید اسی لیے وہ دادا جان کے گاؤں آیا ہے۔ اس نے منیر میاں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور یوں وہ دونوںاس کاٹھ کباڑ کے ڈھیر کو بہتر سے بہتر شکل دینے میں دن رات ایک کرنے لگے۔ چھٹیاں ختم ہونے سے ایک دن پہلے منیر میاں اور عاصم نے پورے گاؤں والوں کو ایک ساتھ جمع کیااور سورج کی روشنی سے ایک بلب روشن کر دکھایا۔ سارا گاؤں پہلے تو ہکا بکا رہ گیا اور پھر خوشی کے مارے منیر میاں اور عاصم کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ گاؤں کے بزرگوں نے اس کامیابی کو ہر سال منانے کا اعلان کیا جس پر منیر میاں چونک گئے اور ہنستے ہوئے بتانے لگے کہ اسی مہینےیعنی مئی میں ہی روشنی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کتنا حسین اتفاق ہے کہ آج کا دن ہمارے گاؤں میں شمسی توانائی کا پہلا دن ہے۔
چھٹیاں ختم ہوتے ہی عاصم تو گھر آگیا لیکن وہ اپنےساتھ بہت ساری خوبصورت یادوں کے ساتھ کچھ نئے مقاصد بھی لایا جن میں چاند اور ستاروں کی روشنی سے توانائی حاصل کرنا بھی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سننے میں یہ بات بےشک انہونی لگتی ہے لیکن کیا پتہ! کل کو شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ چاندنی توانائی کا استعمال بھی عام ہوجائے۔
تبصرے