(آزادی کے مختلف معنی و مفہوم کے تناظر میں کشمیر کی آزادی پر مبنی تحریر)
آزادی فارسی زبان کا لفظ ہے لیکن اُردو میں زیادہ مستعمل ہے، اسم صفت آزاد کے ساتھ فارسی قاعدہ کے مطابق' ی' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے آزادی بن جاتا ہے، آزادی جس کو عربی میں حریت اور انگریزی میںFreedom کہا جاتا ہے، ایک ایسا کلمہ ہے جس کے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں لیکن کوئی ایک جامع معنی بیان کرنا مشکل ہے۔
لُغت میں لفظ آزادی کے معنی خودمختاری، حرّیت، رہائی، بے قیدی اور خلاصی کے ہیں، آزادی کی ضد غلامی ہے ۔ مذکورہ بالا معانی کے پیشِ نظر کسی آزاد ریاست کا ہر شعبہ بندشوں ،پابندیوں اور بھیدبھاؤ سے پاک ہونا چاہیے۔کسی خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جائے یا اسے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے تو ایسی ریاست سب کچھ ہوسکتی ہے مگر آزاد ریاست کہلانے کی مستحق ہر گز نہیں ہو سکتی۔آزادی فطرت کی عطا کردہ انمول نعمت ہے اور یہ نعمت ایسے شجاع ودلیر لوگوں کو میسر آتی ہے جو اس کی حفاظت کا جگرا رکھتے ہیں۔
آزادی کا لغوی معنی چونکہ بہت ساری چیزوں کو واضح نہیں کرتالہٰذا فلسفہ و کلام میں جب کہا جاتا ہے کہ انسان آزاد ہے تو اس سے مراد انسان کا خود مختار ہونا لیا جاتا ہے یعنی انسان مجبور نہیں ہے۔ اگر بنظرِ غائر مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات بھی افراطی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس کے مطابق تمام چیزیں انسان کے اختیار میں ہیں کہ انسان جب چاہے اور جو کام کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ جان پول کا مشہور جملہ اسی نظریے کی ترجمانی کرتا ہے جو اس نے ویتنام کی جنگ میں کہا تھا' اگر میں ارادہ کروں تو ویتنام کی جنگ ختم ہو جائے گی۔'
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کیا ہے؟آزادی ایک ایسا گیت ہے جس کو اس کے متوالے اپنی فگار انگلیوں سے صفحۂ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔یہ ایک زیور ہے جس کے ہر ٹانکے پر اس کے بنانے والوں کی داستان رقم ہے جو چیخ چیخ کر اپنے محسنوں کی امنگوں،حسرتوں اور جدو جہد کی کہانی سنا رہی ہے۔ آزادی گھٹن کے خاتمے پر کھلی فضا میں سانس لینے کا نام ہے ، انسانی تخیل کی بلند پروازی کا نام ہے آزادی ، سچ بولنا اور ڈنکے کی چوٹ پر بولنا آزادی ہے ، سچ کو بلاخوف و خطر کہنا ، سننا آزادی ہے ، دوسروں کے نظریات سے اختلاف کرنا آزادی ہے ، اختلاف کا احترام کرنا بھی آزادی ہے، اپنے فرائض کو دیانتداری سے ادا کرنا آزادی ہے ، دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنا آزادی ہے ، بنیادی سہولتوں کی منصفانہ تقسیم آزادی ہے۔ ایسی آزادی کا حق ہر انسان کو حاصل ہے۔
آزادی کی قدرو قیمت کو فراق گورکھ پوری نمایاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
میری صدا ہے گلِ شمعِ شامِ آزادی
سنا رہا ہوں دلوں کو پیامِ آزادی
یہ مہرو ماہ، یہ تارے ،یہ بامِ ہفت فلک
بہت بلند ہے ان سے مقامِ آزادی
ہمارے سینے میں شعلے بھڑک رہے ہیں فراق
ہماری سانس سے روشن ہے نامِ آزادی
اسلام دنیا کا وہ واحد دین ہے جو دینِ فطرت کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ آزادی کے حوالے سے اسلام کا نظریہ یہی ہے کہ آزادی کے تمام امور میں اسلام دخالت کا حق رکھتا ہے اور یہ حقیقت میں کسی کی آزادی کو سلب کرنا نہیں بلکہ ان کو غلامی سے نجات دلانا ہے۔ پس مغرب کے ان افکار کے مقابلے میں اسلام کا نقطہء نظر یہ ہے کہ اسلام ان تمام امور کے لیے حق ِدخالت محفوظ رکھتا ہے۔ پس حقوق بشر کا صحیح معنی یہ ہے کہ انسان ہر مقام پر آزاد ہے اور یہ آیت انسان کے اسی حق کو بیان کرتی ہے۔
''اسی سبب سے، ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی، اور ہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔''
حضرت امام جعفر صادق کا قول مبارک ہے :
''انسان اعمال میں تو آزاد ہے مگر اس کی آزادی لا محدود نہیں اس لیے کہ اس کے اختیار میں کچھ جبر بھی ہے ''
اسلام ہر انسان کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ دین اور عقیدے پر کوئی جبر نہیں کر سکتا۔انسان اپنے عقائد ، مذہبی نظریات ، مذہبی عبادات میں آزاد ہے اور یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اسلام ہمیشہ غیر مذہبی لوگوں کو معاف کرنے کا درس دیتا آیا ہے، کبھی بھی وہ کسی کو مُشرکانہ عقیدت چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جو خوشی اور دل کی رضامندی سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اسے دل سے خوش آمدید کہتا ہے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر کہتے ہیں کہ
'' اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب اور عقیدے کے معاملے میں انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ یہ آواز بھی تاریخِ انسانی میں پہلی بار سنائی دی کہ دین کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر اور زبر دستی روا نہیںر کھی جائے گی''
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی مکتب اور نظریے میں مطلق آزادی کو قبول نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی عقلِ سالم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہر فرد معاشرے میں آزاد ہے' اس کا جو دل چاہے کر سکتا ہے۔ پس تمام انسان اس اصول کو کم از کم قبول کرتے ہیں کہ اجتماعی زندگی میں افراد کے لیے محدودیت اور تحدید موجود ہے۔ بحث اور اختلاف ان حدود کےے تعین کے حوالے سے ہے کہ یہ محدودیت اور تحدید کس حد تک ہے۔ افراد کے لیے آزادی قانون کی حد تک ہے یعنی انسان وہاں تک آزاد ہے جہاں تک قانون اس کو اجازت دیتا ہے۔
آزادی کی حد قانون ہے اور ہمارا قانون اسلام ہے۔آزادی اس حد تک درست ہے کہ دوسروں کے حقوق پامال نہ ہوں اور آزادی کی حد یہ ہے کہ دوسروں سے آزادی سلب نہ ہو۔نیلسن منڈیلا نے ایک طویل عمر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، انہوں نے زمانۂ قفس میں اپنی خود نوشت لکھی جس کا ترجمہ خالد محمود نے ''آزادی کا طویل سفر '' کے نام سے کیا۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ :
'آزاد ہونے کا مطلب غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکنا نہیں بلکہ ایک ایسے انداز میں زندگی گزارنا ہے جس سے دوسروں کی آزادی کا احترام ہو اور اسے تقویت ملے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ پنکھ پکھیرو کھلے آسمان میں اپنی اڑان بھرتے ہیں۔ درختوں کی جس مرضی شاخ پر بیٹھتے ہیں ، چہچہاتے ، گنگناتے اور جہاں سے دل چاہے اپنی خوراک کا انتظام کرتے ہیں، آزاد ہیں۔ اپنا آشیانہ اپنی مرضی سے تعمیر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ پنچھی آہنی قفس میں قید و بند کی زندگی گزارتے ہیں، نہ کھلا آسمان، نہ اونچی اڑان اور نہ اپنا آشیانہ۔ یہ سب چیزیں ان کے لیے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسے پرندوں کی کل کائنات چھوٹا سا اک پنجرہ ہی ہوتا ہے ، بہار ہو کہ خزاں ان کو کسی موسم سے کوئی غرض نہیں ہوتی، بس چھوٹا سا ایک پنجرہ ہی ان کا مسکن بلکہ سارا عالم ہوتا ہے جہاں اداسیوں کے بسیرے ہوتے ہیں۔ایک گروہ کی زندگی کی تمام تر رونقیں آزادی کی مرہون منّت ہیں اور دوسری طرف قید کی دکھ بھری داستان ہے۔یہ ہی حال انسانی آزادی کا بھی ہے۔
ناشر نقوی اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ
''آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ بنی نوع انسان کے اس بنیادی حق پر جب جب طاقت و ثروت نے حملے کیے ہیں تاریخ میں انقلاب آیا ہے۔ کسی بھی مذہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس کی تشکیل و تعمیر میں حقوقِ انسانی اور بڑی طاقتوں کے درمیان تصادم ہی نظر آئے گا کیوں کہ انسان فطری طور پر غلامی کی قیدو بند کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ کسی بھی طاقت کا استبداد، جبلت ِ انسانی پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتا۔''
آزادی اس لیے بھی ضروری ہے کہ قوم کے افراد اپنے افکار،نظریات،عقائد اور فلسفے کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔قوموں کے افکارو نظریات صدیوں کے سفر کے بعد متعین ہوتے ہیں۔یہی افکار ان کے تہذیبی ورثے کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔آزادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افراد اپنے اس تہذیبی ورثے کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اس کے ارتقا میں معاون ہوں اور ان مزاہمتی قوتوں کا بھی قلع قمع کریں جو اس ورثے کوتباہ کرنے پر آمادہ ہوں۔آزادی بالعموم تاریخی،سماجی،معاشی اور تہذیبی عوامل کے تحفظ اور بقا کا نام ہوتی ہے۔آزادی کے بغیر انسانی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتااور دنیا انسانی صلاحیتوں سے مستفید ہونے سے محروم ہو جاتی ہے۔ غلامی انسان سے اس کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتیں چھین لیتی ہے۔
خلیل جبران کہتے ہیں کہ
'میں نے اپنے دل کو اندر ہی اندر خون ہوتے ہوئے محسوس کیا ہے جب یہ دیکھا تم اس وقت آزادی کو نہ پا سکو گے جب تک اس کے حصول کی خواہش کو کبھی اپنے لیے ایک زنجیر نہ سمجھنے لگو اور جب تم اس کا ذکر اس طرح کرنا نہ چھوڑ دو کہ وہی تمہاری منزلِ مقصود اور وہ ہی تمہاری تمناؤں کا حصول ہے۔'
آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے، اس بات کا اندازہ ان اقوام کو ہی ہوتا ہے جو اس سے محروم ہیں اور کسی نہ کسی ملک کی محکوم ہیں۔برصغیر کے خطے میں اس حقیقت کو شاید مظلوم کشمیریوں سے زیادہ بہتر طور پر کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر دیکھا جائے تو غاصبانہ تسلط کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ آزادی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ قومیں صدیوں کی مسافت طے کرتی ہیں قربانیاں دیتی ہیں تب کہیں جا کر غلامی کی زنجیروں سے نجات حاصل کر پاتی ہیں اور کچھ قومیں تو ابھی بھی مسلسل سفر میں ہیں۔
آزادی کے حوالے سے تاریخ میں بہت سے نام ایسے ملتے ہیں جن کا سفرِ آزادی، مشکلات ،آئینی سلاخیں ،انانیت پسند حکمرانوں کا شیطانیت اور حیوانیت سے بھرا سلوک ، طویل اور صبر آزما راہوں سے گزر کر منزل تک پہنچتا ہے۔ان میں سے ایک نام نیلسن منڈیلا کا بھی ہے جن کی آزادی کے لیے جدوجہد کم و بیش ستر سالہ تاریخ پر محیط ہے۔ یہ طویل اور صبر آزما سفر ان کی جرأت ، بلند ہمتی اور بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
نیلسن منڈیلا اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ
'آزادی کا راستہ آسان کہیں بھی نہیں، ہم میں سے بہتوں کو اپنی آرزوؤں کی منزل تک پہنچنے سے پہلے موت کے سایوں والی وادی سے بار بار گزرنا پڑے گا۔'
سماج میں رہ کر ہی انسان محبت ،نفرت ،ہمدردری ،ظلم اوررحم سیکھتا ہے۔ نفرت کے بھی اطوار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نفرت کی تربیت حاصل کر سکتا ہے تو محبت سے بہرہ ور کیوں نہیں ہو سکتا؟ محبت کا دلوں میں گھر کر جانا زیادہ فطری عمل ہے۔ انسان کو ظلم، نفرت اور قید و بند کی صعوبتیں بہت کچھ سکھا جاتی ہیں۔ظلم و جبر کرنے والا جب کبھی اپنے مزاج سے ہٹ کر انسانیت کی ہلکی سے جھلک دکھا ئے تواس سے انسانی قدروں پر اعتبار بحال رہتا ہے۔ انسانی اچھائی ایک شعلے کی طرح ہے جسے چھپایا تو جا سکتا ہے، بجھایا نہیں جا سکتا۔
جس بھی زبان میں آزادی کی تعریف کو دیکھا جائے کشمیر ی عوام آزادی کا پورا حق رکھتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی مذہبی تعلیمات کو اٹھا کر پڑھا جائے تو کشمیر کے آزاد ہونے کا حق ان مذہبی تعلیمات میں پوری طرح عیاں ہے۔ دنیا کے ہر نظریے اور فلسفے کے مطابق کشمیری عوام آزادی کے مطالبے کا حق رکھتے ہیں ۔
دنیا کے دانشور ، عالم ،فلاسفر اور مذہبی سکالرز کے افکارو نظریات بھی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کشمیر ی عوام کو ان کا حق ملنا چاہیے اور بربریت و ظلم کے بازار کا خاتمہ کر کے امن ،محبت اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کیا جائے۔
آزادی کا مطلب یہی ہے کہ مذہب کے بتائے ہوئے حدود کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے خودمختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔ جب ایک آزاد ریاست کا قیام اس سنہرے اصول پر استوار ہوگا تو انسانی معاشرے میں عدل، انصاف ،مساوات، امن، ترقی اور حقیقی آزادی کے جلوے نظر آئیں گے۔
مضمون نگار ایپسیکس سیکریٹریٹ میں اردو کوارڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
[email protected]
تبصرے