پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 24 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.40 فیصدہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آزادی کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کے بعد سے پاکستان کی آبادی میں چھ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آبادی میں اس بڑے پیمانے پر اضافہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
بہت سے تجزیہ کار پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو "ٹک ٹک کرتا ہوا ٹائم بم" قرار دیتے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔
1951 میں آزادی کے بعد کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 34 ملین تھی۔ یہ 1998 میں 132 ملین ہو گئی، 50 سال سے بھی کم عرصے میں تقریباً 100 ملین کا اضافہ ہوا۔ 2017 میں، آبادی مجموعی طور پر 208 ملین نکلی، جس سے یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا۔ اگر پاکستان کی موجودہ شرح نمو، جو کہ 2.4 فیصد ہے، برقرار رہی تو اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2050 تک یہ آبادی 450 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔
پاکستان کی معیشت بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکے اور انہیں مناسب وسائل مہیا کرسکے۔ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ بہت سے چیلنجز وابستہ ہیں۔
نوجوانوں کی بے روزگاری پاکستان میں آبادی میں بے پناہ اضافے سے منسلک سب سے اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بڑھتی آبادی کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملک کو کم از کم 7 فیصد کی اقتصادی شرح نمو کی ضرورت ہے۔ تاہم اس وقت معیشت سست روی کا شکار ہے۔نوجوانوں کی بے روزگاری کے نتیجے میں عدم استحکام اور باہمی تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جس کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے، اس کا زیادہ شکار ہے۔ طویل بے روزگاری نوجوانوں میں مایوسی کو ہوا دے رہی ہے۔ پاپولیشن ایکشن انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1970 سے 1999 کے درمیان مقامی لوگوں میں 80 فیصد باہمی تنازعات ان ممالک میں ہوئے جہاں 60 فیصد یا اس سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر تھی۔
پاکستان کی آبادی میں اضافے سے منسلک سب سے زیادہ دبائو اور فوری خطرہ، جیسا کہ بہت سے ماہرین نے وضاحت کی ہے، نوجوانوں کی بنیاد پرستی ، عدم برداشت اور مناسب رہنمائی کا فقدان ہے۔
آبادی میں زیادہ اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مناسب معلومات کا فقدان ہے۔ 1993 سے 1998 کے درمیان، پاکستان نے خاندانی منصوبہ بندی کا ایک کامیاب پروگرام چلایا جس نے شرح پیدائش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروگرام کا اہم عنصر کمیونٹی کی سطح پر خواتین کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات فراہم کرنے کے لیے تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بھرتی تھی۔ یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز دوردراز علاقوں میں غریبوں تک خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کو وسعت دینے اور انہیں دستیاب طریقوں سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ لیکن بعد میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں پر یکے بعد دیگرے حکومتوں کی توجہ کم ہونے لگی۔تاہم، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کو اب دوبارہ حکومت کے پالیسی ایجنڈے میں جگہ مل رہی ہے۔ وفاقی حکومت نے آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے تاکہ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے اور اس کے نفاذ کی رہنمائی کے لیے حکمت عملی تیار کی جا سکے۔
آبادی میں تیزی سے اضافہ اور روزگار کے محدود مواقع شہروں کی طرف نقل مکانی کا سبب بنتے ہیں، جو بالآخر ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنتا ہے۔ دیہی علاقوں سے بے روزگار نوجوان روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو درپیش بہت سے ماحولیاتی چیلنجز جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور فضلہ کے انتظام کا براہ راست تعلق بڑھتی ہوئی آبادی سے ہے۔ مثال کے طور پر، بہت سے بڑے شہروں میں نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں زرعی زمینوں یا گرین بیلٹس پر تعمیر کی جاتی ہیں جو قدرتی ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں ہے اور شہروں کی طرف نقل مکانی اس مسئلے میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
آبادی میں اضافہ پاکستان کے پہلے سے ہی محدود وسائل جیسے پانی، خوراک، بجلی، قدرتی گیس وغیرہ پر بوجھ پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میںان وسائل کے بحران کی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ ملک میں پانی کا موجودہ بحران بھی بڑھتی ہوئی آبادی سے جڑا ہوا ہے۔ 1947 میں پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 5700 کیوبک میٹر تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کی آبادی بہت کم تھی۔ 1994 میں یہ پانی کی کمی والا ملک بن گیا جہاں پانی کی فی کس دستیابی 1700 مکعب میٹر ہو گئی کیونکہ آبادی بڑھ کر تقریباً 132 ملین ہو گئی تھی۔
دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جنہوںنے اپنی آبادی کو کنٹرول کرکے اپنی معاشی حالت کو بہتر بنایا ہے۔ آزادی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، مگر بعد ازاں انہوںنے اپنی بڑھتی آبادی کی طرف خاص توجہ دی اور اب ان کی آبادی ہم سے کم اور معاشی حالت بہتر ہے۔ اسی طرح چین ، جاپان اور بہت سے یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرکے اور وسائل کو بہتر انداز سے استعمال میں لا کر منازل طے کی ہیں جو دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہیں۔
بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو مناسب طریقے سے تعلیم دے کر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جو کہ ایک حد تک درستبھی ہے۔
کسی بھی ملک کے محنت کش طبقے کو ایک اثاثہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جو دولت پیدا کرتے ہیں اور معیشت کی بہتری میں براہ راست حصہ ڈالتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی آبادی تقریبا ً60 فیصد محنت کش طبقے پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں نوجوان اس وقت لیبر مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں ،جبکہ ترقی یافتہ ریاستوں میں محنت کش طبقے کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
پاکستان میں ترسیلات زر بڑھانے کے لیے نوجوان مزدوروں کو دوسرے ممالک میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھارت کے 87 بلین ڈالرز اور بنگلہ دیش کے 25 بلین ڈالرز کے مقابلے میں پاکستان کو سالانہ صرف 19 بلین ڈالرز کی ترسیلات زرموصول ہوتی ہیں جو یقینا بہت کم ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان صرف آئی ٹی سیکٹر سے 20 بلین ڈالرز ریونیو کما سکتا ہے۔
پاکستان میں آبادی کے بے ہنگم اضافے کو روکنے کے لیے ملک میں پائیدار ترقی کے لیے لازم وملزوم ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پرگرام کو مستقل بنیادوں پر اور مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ عوام میں، خاص کر دیہی علاقوں کے عوام کو اس بات کی جانب راغب کیا جائے کہ اپنے بچوں کی بہتر صحت اور اچھے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ ہو۔ اس سے بچے اور ماں کی صحت بہتر رہے گی اور بچوں کو تعلیم اور بہتر سہولیات میسر آسکیں گی۔ اس سلسلے میں پڑھے لکھے طبقے اور علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں کہ وہ عوام میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں پر عمل پیرا ہونے کے لیے شعوراُجاگر کریں۔ کیونکہ ان کی بات کو عوام میں خاص پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔
تبصرے