ملکہ برطانیہ کے راج میں ایک عیسائی مبلغ ہندوستان آیا۔ اس کا نام تھامس جان لی مئیر تھا۔اسے چمن آرائی کا شوق تھا۔ وہ اپنے ساتھ ہندوستان کے لیے یروشلم بیت المقدس سے ایک پودے کا تحفہ لایا ۔ یہ زیتون کی ایک شاخ تھی جسے وہ جبلِ زیتون سے اٹھا کر لایا تھا۔
جبلِ زیتون (Mount of olives) فلسطین کے شہر القدس یا یروشلم میں زیتون کے درختوں اور یہودی قبرستانوں پر مشتمل ایک پہاڑی ہے جو بیت المقدس کے پہلو میں واقع ہے۔ یہ تینوں اہل کتاب مذاہب کے لیے تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ عیسائیوں کا ماننا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اسی پہاڑی پر اپنی تعلیمات دیں اورانہیں پابندِصلیب کیے جانے کے چالیس روز بعد یہیں سے آسمان پر بلایا گیاتھا ، یہی ان کی آخری نشانی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قران پاک کی سورة التین کی پہلی آیت والتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ میں زیتون کی جائے پیدائش کا ذکر ہے جو کہ جبل زیتون ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہودی لٹریچر کے مطابق ان کے مسیحا کا نزول اسی پہاڑی پر ہو گا اور اس کے قبرستانوں میں محو استراحت یہودی ، مسیحا کے اولین حواری ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فی قبر پانچ ملین ڈالر تک بِکتی ہے اور نہایت مالدار یہودی ہی یہاں دفن ہو سکتے ہیں۔
پادری جان لی مئیر نے زیتون کی یہ شاخ پاکستان کے کوہ سلیمان کے مشرقی پہاڑی سلسلے شیخ بدین کے پہاڑوں میں اُگنے والے ایک خود رو زیتون کے درخت میں پیوند کی۔ عموماً زیتون کے درخت کی عمر دو ہزارسال تک ہوتی ہے۔ جان لی مئیر کا ماننا تھا کہ جس درخت کی شاخ وہ ہندوستان لے جا رہا ہے وہ دو ہزارسال عمر رسیدہ تھا اور حضرت عیسی کے معجزات کا چشم دید گواہ تھا۔
انگریز دور کے برٹش بلوچستان ،جس میں جنوبی پختونخواہ بھی شامل تھا ، پر طاقتور حکومت قائم کرنے کے لیے انگریز سرکار کو ایک ہِل سٹیشن کی ضرورت تھی ۔ مری اور بھوربن یہاں سے دور تھے ۔ جہاں وہ شدیدگرم موسم کی تمازت سے پناہ لے سکتے۔اس لیے انہوں نے شیخ بدین کا انتخاب کیا۔ یہ سرسبز و شاداب مقام لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مابین واقع ہے ۔ یہ سطح سمندر سے 4516 فٹ بلند ہے ۔ انگریزوںنے یہاں گرمیوں کا دفتری مقام بنایا۔
شیخ بدین تک جانے کے دو راستے ہیں اور یہ دونوں ہی سنگلاخ اور دشوار گزار ہیں۔ ایک راستہ لکی مروت کے درہ پیزو سے جاتا ہے جو محض اٹھارہ کلو میٹر کی خام روڈ ہے۔ دوسرا راستہ پنیالہ سے جاتا ہے جو ابھی تک نا مکمل ہے۔ درہ پیزو سے پہاڑی کی بلندی پر پہنچنے کے لیے آپ کو مقامی جیپ کا سہارا لینا پڑتا ہے جس میں آپ کو ایسے ہچکولے کھلائے جاتے ہیں کہ آپ ساتھی مسافروں کے ساتھ یک جان کئی قالب یا بقول انور مسعود تیری بانہیں میری بانہیں میری بانہیں تیری بانہیں کا عملی مظاہرہ نظر آتے ہیں۔ یہ محض اٹھارہ کلو میٹر کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔
یہاں پہنچتے ہی آپ کا استقبال ِچیڑ اور زیتون سے کشید کی گئی دھند آلود خوشبودار ہوائیں کرتی ہیں۔ چہار طرف سبز آلود چٹانیں اور کالے تیتروں ، ہدہد اور چکوروں کے سریلے نغموں سے آپ کی تھکن کافور ہوجاتی ہے۔
انگریزوں نے 1870 میں شیخ بدین کو ِہل سٹیشن کا درجہ دیا تھا۔ یہاں انگریز سرکار کی بنائی ہوئی پینتیس سے زائد عمارات کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔ مقامی حکومت نے 2003 میں اسے نیشل پارک کا درجہ دے کر قومی ورثہ قرار دیا ہے۔
انگریز دور کے دفاتر کے سامنے کھڑے ہو کر آپ سمے کی چاند گاڑی پر بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتے ہیں۔جہاں مرکزی بنگلے میں انگریز کمشنر دفتر لگائے بیٹھا ہے جس کے سامنے مقامی خدمت گار کلف لگی دستاریں باندھے چست کھڑے ہیں۔ تالابوں میں بارانی پانی جمع ہے۔ یہاں ایک کنواں بھی ہے جس میں جاڑے میں ِگرنے والی برف کو نہایت دلچسپ انداز میں محفوظ کیا جاتا تھا ۔ آس پاس کی ساری برف ایک ڈھلوان سے پِھسل کر کنویں میں جمع ہوتی تھی۔ یہ برف بعد ازاں محفلِ ناو نوش میں استعمال ہوتی تھی ۔
کمشنر آفس کے ساتھ ہی مجسٹریٹ کی عدالت ہے جہاں چند لوکل سرفروش اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا سننے کے لیے خاموش کھڑے ہیں۔ ایک عقوبت خانہ ہے جس میں گمنام راہوں کے مسافر آزادی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک پھانسی گھاٹ ہے جس پر ایک موٹی گردن والے مقامی آزادی پسند کو بغاوت کے جرم میں لٹکایاجا رہا ہے جسے دیکھ کر وحشی جلاد اور پہرے پر مامور انگریز سپاہی دیوانہ وار قہقہے لگا رہے ہیں۔
سرکاری دفاتر کے علاوہ یہاں ایک سکواش کورٹ ہے جہاں فرنگی بچے دل بہلاتے ہیں۔ پہاڑ کی اوج پر ایک چھوٹا سا ہموار میدان ہے ۔ جہاں بھورے بالوں والی انگریز میمیں نیچے نظر آتے درہ پیزو کے سادہ لوح باسیوں کو حقارت سے دیکھ رہی ہیں۔ بغل میں ایک چھوٹا سا ہسپتال بھی تھا جہاں 1880 کی دوسری اینگلو افغان وار کے زخمیوں کا علاج کیا جاتاتھا۔
یہاں ایک خوبصورت ڈاک بنگلہ ہے جو آسمانی بجلی گرنے سے اب بھوت بنگلے کا روپ دھار چکا ہے ۔ مقامی لوگوں اور محکمہ سیاحت نے یہاں سیاحوں کے قیام کے لیے خیموں اور لکڑی سے بنے چھوٹے حجرے بنائے ہیں جو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ شیخ بدین میں زیتون کے درختوں اور جنگلی حیوانات جن میں تیندوے، ہرن، خرگوش اور گیدڑ وغیرہ شامل ہیں، پائے جاتے تھے مگر بڑھتی ہوئی عالمی حِدت کے باعث اب یہ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
اس پہاڑی سلسلے کا پرانا نام غنڈ تھا ۔ یہاں دو مقامی قبائل آباد ہیں۔ سب سے پہلے ایک کشمیری صوفی بزرگ شیخ بہاؤ الدّین گیلانی کشمیر کے پہاڑوں سے یہاں ہجرت کر کے آئے اور اپنی قیام گاہ بنائی۔ یہ بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہی کے نام پر اس پہاڑی کا نام مشہور ہوا۔ ان کی چوتھی نسل اب بھی یہاں آباد ہے اور ان کی آخری آرام گاہ اور ساتھ واقع چھوٹی سی قدیم طرز تعمیر پر بنائی گئی ایک مسجد ہے۔ شیخ بدین کے نام پر یہ ابہام بھی پایا جاتا ہے کہ یہ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کی وجہ سے مشہور ہے مگر تاریخ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ۔
شیخ بدین کا دوسرا مقامی قبیلہ مغل فوج کے جرنیل مرزا امام بخش تربیت خان کی نسل ہے جو 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد یہاں آباد ہوا۔ جنرل تربیت خان اورنگزیب عالمگیر کی فوج کا جرنیل تھا جس نے جنگ تورنہاور میں مرہٹہ فوج کو شکست دی اور ان کے ناقابل شکست سمجھے جانے والے قلعہ کو فتح کیا۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ نیجنرل تربیت خان کے سر پر اسی ہزار درہم کا انعام رکھا تھا۔ یہ بوڑھا جرنیل87 سال تک شیخ بدین میں رہتا رہا اور 160 سال کی عمر میں وفات پائی۔
اِن یخ بستہ ہواؤں اور کہر آلود لمحوں کے باسیوں میں شہر خموشاں کے مقیم بھی ہیں۔ جن میں جنرل تربیت خان ، چند آوارہ گرد گڈریے ، کچھ لوک فنکار ، انگریز افسر اور صوفی بزرگ شامل ہیں جن کی قبروں کی زیارت بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
شیخ بدین نیشنل پارک جیسے قومی ورثہ کو محفوظ اور مزید متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ مناسب سر پرستی سے یہ خطہ جنوبی پختون خواہ میں وہی مقام حاصل کر سکتا ہے جو شمال میں سوات و کالام ، پنجاب میں مری اور بھوربن ،کشمیر میں نیلم ، گلگت بلتستان میں ہنزہ و دیوسائی اور بلوچستان میں زیارت کو حاصل ہے ۔
مضمون نگار سیاحتی، عسکری موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے