آج کل ٹیلی وژن کے چند ہی چینل ایسے ہیں جن پر صبح صبح مارننگ شو آتا ہے۔ چند برس قبل تو گویا ہر چینل پر مارننگ شو کا کریز ہوتا تھا۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی تھی کہ بہترین سے بہترین شو پیش کرے۔ مارننگ شو کی کمپیئرنگ بھی بہت لوگوں کا سہانا خواب تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان کم ہوتا گیا اور نئے پروگرام سکرین کی زینت بنتے گئے۔
پاکستان میں مارننگ شو کی بنیاد پاکستان ٹیلی وژن نے رکھی اور مستنصر حسین تارڑ نے پہلے مارننگ شومیں ہوسٹ کا اعزاز اپنے نام کیا۔ مستنصر حسین تارڑ بطور ''چاچا جی'' روزانہ صبح ٹی وی پہ آتے ، علم و دانش کی گفتگو کرتے اور لوگوں کو اپنی باتوں سے ا پنا گرویدہ بنا لیتے۔
تارڑ صاحب لاہور میں رہتے ہیں ، مارننگ شو کے لیے انہیں لاہور سے اسلام آباد جانا پڑتا تھا۔وہ کہتے ہیں لاہور سے انہیں عشق ہے اس لیے شو کرتے ہی واپس لاہور بھاگتے تھے۔ پی ٹی وی کے پرانے دور کی خوبصورت یادگار ہیں مستنصر حسین تارڑ صاحب۔ اللہ تعالیٰ انہیں زندگی دے ، عمر عزیز کی 80سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ہر سال اُن سے آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں ملاقات ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے وہ علیل ہیں۔لہٰذا سفر کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ایک آدھ سال وہ اپنی ناسازیٔ طبع کے باعث کراچی تشریف نہ لاسکے تو اُن کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ آرٹس کونسل نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا ہے اور اپنے مختلف ایونٹس میں انہیں ضرور مدعو کرتا ہے۔
تارڑ صاحب جیسے لوگ ہمارے ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اُن کی کتابیں، سفرنامے، کالم، ڈرامے بے مثال ہیں۔تارڑ صاحب نے پچاس سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں ناول، سفرنامے اور مختصر کہانیاں شامل ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے انہوں نے جو ڈرامے تحریر کیے وہ بے حد مقبول ہوئے''ہزاروں راستے'' پی ٹی وی لاہور سے ان کا تحریر کردہ ایسا سیریل تھا جس میں روبینہ اشرف نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ دیگر فنکاروں میں عابد علی، فردوس جمال اور وسیم عباس شامل تھے۔ تارڑ صاحب کو اس ڈرامے کے لیے ایوارڈ ملا تھا۔ پرندہ، شاہیر، فریب اور سورج کے ساتھ ساتھ، ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کے بہت سے ڈرامے ناظرین نے دیکھے لیکن ایک ڈرامہ ایسا ہے جس میں جینز اور جیکٹ پہنے، تارڑ صاحب ہر ہفتے کی ایک نئی کہانی کی تلاش میں موٹر بائیک پر سوار سکرین پر نظر آتے۔ڈرامے میں نثار قادری نے ایڈیٹر کا کردار نبھایا تھا، وہ بار بار کہتے ''ارے بھائی امجد کنفیوز مت کیا کرو۔''کتنا وقت بیت چکا، مگر اُس ڈرامے کے نقوش ذہن میں واضح ہیں۔
ایک مرتبہ تارڑ صاحب کراچی آئے تو اُن سے ملاقات کے لیے ہم سمندر کے کنارے واقع ایک خوبصورت ہوٹل پہنچے۔ عبداﷲ حسین بھی تارڑ صاحب کے ساتھ موجود تھے، دو نوجوان طلبہ بھی آئے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ تارڑ صاحب کے پرستار ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ تارڑ صاحب کے ساتھ رہیں۔ ان کی صحبت کا فیض اٹھائیں۔ تارڑ صاحب بہت شفیق انسان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچے بہت محبت کرتے ہیں۔ بس ان کا پیار ہے کہ لاہور سے کراچی چلے آتے ہیں۔
ہم محویت سے ان کی باتیں سنتے رہے، انہوں نے بتایا کہ کس طرح اُن کے ڈرامے' سورج کے ساتھ ساتھ'نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور کس طرح ایک خاص طبقہ نے اس ڈرامے کو خود پر تنقید سمجھا۔
کاروان سرائے کی بے پناہ مقبولیت ، ان کا مارننگ شو اور چاچاجی سے لوگوں کی دلی وابستگی و عقیدت، امجد کا کردار، مختلف ڈرامے اور لوگوں کا پیار۔ تارڑ صاحب باتیں کرتے رہے ہم ہمہ تن گوش تھے۔ ہم تو اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ تارڑ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
اب کی بار وہ کراچی عالمی اُردو کانفرنس کے لیے تشریف لائے تو ان کے سیشن میں ہم آڈیٹوریم کے اندر بیٹھنے کے بجائے بیک سٹیج چلے گئے۔ حاضرین ان کے لیے تادیر کھڑے ہو کرتالی بجاتے رہے، وہ بہت مسرور لگ رہے تھے۔ ہم سٹیج کے کونے پر کھڑے پردے کی آڑ سے اُنہیں دیکھتے رہے، سیشن کا نام تھا،' مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات' ناصر عباس نیر اور اسامہ صدیق شریک گفتگو تھے۔
ہمیں ضیاء محی الدین کا خیال آرہا تھا، ان کا سیشن بھی ہم ایسے ہی دیکھتے تھے۔ ضیاء صاحب نہیں رہے۔ عالمی اردو کانفرنس گزشتہ 16برسوں سے مسلسل منعقد ہو رہی ہے اور ان سولہ برسوں میں ہم نے جمیل الدین عالی، جمیل جالبی، لطف اللہ خان، فہمیدہ ریاض، امجد اسلام امجد، فاطمہ ثریا بجیا، اسلم فرخی، انتظارحسین ، مسعود اشعر،عبداللہ حسین، ضیاء محی الدین، امداد حسین، رسا چغتائی، نصیر ترابی، حسینہ معین سمیت بہت سے نگینوں کو کھو دیا۔
علم و ادب سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ کانفرنس ہوا کے ایک تازہ اور خوشگوار جھونکے جیسی ہے جس سے انسان کی روح ترو تازہ ہوجا تی ہے۔ بڑے بڑے ادیب شاعر اور دانشوروں سے ملاقات ہوتی ہے۔ علم کے دریا بہتے ہیں اور ہمارے جیسے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس میں سے کچھ موتی چن لیں۔
مضمون نگار مشہور ادا کارہ' کمپیئر اور مصنفہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے