وقت کے ساتھ ساتھ ہر جذبے اور احساس میں تبدیلی رونما ہوئی ہے لیکن جذبہ حب الوطنی ایسا جذبہ ہے کہ زندگی کتنی بھی مشکل یا مشینی کیوں نہ ہوجائے اس جذبے کی شدت اور اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے، جتنی صدیوں پہلے تھی۔ یہ جذبہ کسی قوم کو ایک لڑی میں پرو کر ہرمشکل کو آسانی سے گزار سکتا ہے۔ اسی جذبے سے جنگیں جیتی جاتی ہیں اور اگر یہی جذبہ انسانوں میں ناپید ہو جائے توملک ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے اپنے سے دو گنا بڑے دشمن کا مقابلہ 1965 میں کیا اور اسی جذبے کو لے کر ہم آج دہشت گردی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ آج بھی ہمارے لوگ اور افواج اسی جذبے کے ساتھ ان دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں اور شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہو رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہماری افواج پہلی صف میں کھڑی ہیں اور ان افواج میں ہمارے جوان کسی طور پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہ نوجوان فوجی ہر جذبے کو پس پشت ڈال کر جذبہ حب الوطنی پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔
کیپٹن محمداحمدبدربھی ایک ایسے ہی نوجوان آفیسرتھے جنہوں نے اپنے ملک و قوم کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پروا نہ کی اور اس فرض کی راہ میں شہادت کو اہمیت دی۔ اس وقت یہ بھی نہ سوچا کہ وہ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور والدین کا آخری سہارا ہیں، وہ بوڑھے والدین جنہوں نے کئی سال ان کی پیدائش کا انتظارکیا، جو بہت دعائوں کے بعد ان کی جھولی میںآیا تھا،جس کی پیدائش پر ان کے والد جو کہ خود بھی آرمی آفیسر تھے کو ہر ایک نے مبارک باد دی۔ یہ بیٹا اپنی ماں کا اس قدر لاڈلا تھا کہ وہ چھٹی جماعت تک اُسے خود جوتے پہنا کر سکول بھیجتیں ، اس پر سختی نہ کبھی ماں نے کی اور اور نہ کبھی باپ نے کی۔
اُنہیں فوج میں جانے کا جذبہ اپنے باپ سے ورثے میںملا۔ احمد بدر نے اپنی زندگی میں فوجی بننے کے علاوہ اور کوئی آپشن رکھا ہی نہیں تھا۔ ان کا مقصد صرف فوج میں جانا تھا۔اسی لیے تعلیم بہت محنت سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم اے پی ایس راولپنڈی سے حاصل کی۔ 2015 میں میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا اور 2017 میں ایف ایس سی کیا۔2018میں141ویں لانگ کورس میں شامل ہوئے اور2020 میں پاس آئوٹ ہوئے ان کی پاسنگ آئوٹ کی تقریب میں والدین کرونا کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے جس پر احمد بدر کو بہت افسردگی ہوئی، ان کی خواہش تھی کہ ان کے والدین پی ایم اے میں آتے اور اس جگہ کو دیکھتے۔ ان کی بہن عزیٰ بدرجو کہ آرمی میڈیکل کور میں لیفٹیننٹ کرنل ہیں، نے بتایا کہ احمدبدر کہتا تھا کہ میں امی ابو کوپاسنگ آئوٹ کے موقع پر پی ایم اے لے کر جائوں گا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔عزیٰ بدر نے بتایا کہ احمدبدر ہمارا ایسا بھائی تھا جسے اپنے گھر سے بھی بہت لگائو تھا۔جب بھی چھٹی ملتی فوراً گھر آتا ۔ میں اگر اُسے کہتی بھی کہ احمد کبھی دوستوں کے ساتھ بھی کوئی پروگرام بنایا کرو، کہیں گھومنے جایا کرو تو ہمیشہ کہتا کہ نہیں مجھے گھر ہی جانا ہے، امی سے ملنا ہے، ان کے ہاتھ کے بنے کھانے کھانے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھر کے اتنے کام ہیں وہ بھی کرنے ہیں۔ احمد بدر کی بہن کہتی ہیں کہ اسے ہر وقت گھر کے کاموں کی فکر ہوتی کہ فلورنگ کروانی ہے، ڈرائنگ روم کے صوفے تبدیل کرنے ہیں وغیر ہ۔ گھر میں موجود گاڑیوں کی بھی ہر ممکن دیکھ بھال کرتا، گاڑیوں اور الیکٹرونکس کا بہت شوق تھا اپنے والد کو بلاناغہ کال کرتا ۔ احمد بدر کی سب سے چھوٹی بہن مریم بدر کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ دن میں ایک بار اسے ضرور کال کرتا۔ اپنی ہر بات مریم سے ہی شیئر کرتا۔
مریم بدر اپنے بھائی کے پی ایم اے کے دنوں کو یاد کرکے بتاتی ہیں کہ شروع میں انہیں یہ بتایا گیا کہ پی ایم اے کی ٹریننگ بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ فوج جوائن نہیں کرے گا۔ فوج میں جانے کا اسے شوق ہی نہیں جنون تھا۔ بچپن میں بڑی بہن احمد بدر کو پڑھاتی تھیں۔ جب ان کی شادی ہوگئی تو احمد انہیں کہتا کہ آپ میرے پاس آکر بیٹھ جائیں پڑھ میں خود لوں گا، مریم بتاتی ہیں کہ محلے کے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب سے دوستی تھی۔ احمد کے شوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے مریم نے بتایاکہ بھائی کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا، جب وقت ملتا قدرت کے شاہکاروں کو اپنے کیمرے میں قید کرتا۔ اس کے علاوہ گیمز اور موبائل فونز میں بھی کافی دلچسپی تھی۔
احمدبدر شہید کی والدہ کہتی ہیں کہ بدر میرے بنائے ہوئے کھانے بہت شوق سے کھاتا تھا۔خاص طور پر لال لوبیا اور ماش کی دال اسے بہت پسند تھی۔ میٹھے میں سویاں بہت پسند تھیں۔ کولڈڈرنکس بالکل نہیں پیتا تھا، کہتا یہ صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ والدہ نے بتاتاکہ میرا بیٹا کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوا۔ کوئی بات بُری لگتی بھی تو بُرا نہیں مانتا تھا، بہت جلدی بھول جاتا۔ عزیٰ بدر بھی کہنے لگیں کہ میں اگر فون پر اُسے ڈانٹ دیتی اور فون بند کردیتی تو فوراً دوبارہ کال کرکے بات کرتا۔ ہمیں کبھی ناراض نہیں رہنے دیتا تھا۔ کچھ عرصے سے شہید ہونے کی باتیں بھی زیادہ کرنے لگا تھا۔ اکثر کہتا کہ مرنا تو سب نے ہے اگر شہادت کی موت مل جائے تو اس سے زیادہ اچھی کیا بات ہے۔
ایک دن اس کے دوست لیفٹیننٹ سالار کی کال آئی تو اس نے آنے کا پوچھا تو کہنے لگا کہ میں جہاں ہوں وہاں سے شہید ہو کر ہی آئوں گا۔ عزیٰ بدر کہتی ہیں اسے ہرکام کی جلدی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے سارے کام جلدی جلدی ہو جائیں۔ ابھی اس کی چیزوں میں سے اس کی ایک ڈائری بھی ملی جس یں اس نے ایک Things To Do کی لسٹ بنائی ہوئی تھی۔ اس لسٹ میں بیس کام لکھے ہوئے تھے جن میں سے چار اس نے اس آخری چھٹی میں مکمل کیے تھے۔ عزیٰ نے بتایا کہ یونٹ میں سب اسے بدر کے نام سے بلاتے تھے۔ میر علی میں پوسٹنگ کے دوران احمد بدر پر دو بار پہلے بھی حملہ ہوا تھا جن میں اُس نے نہ صرف خود کو بچایا بلکہ حملہ آور کو ٹارگٹ بھی کیا۔ 16 مارچ 2024کی صبح میر علی پوسٹ پربارود سے لدی گاڑی دیوار سے ٹکرائی جس سے یونٹ کے کمرے تباہ ہوگئے۔ وہاںموجود کچھ لوگ ملبے تلے دب گئے جبکہ لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی اور کیپٹن احمد بدر وہاں سے نکل کر دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہوگئے اور کافی دیر اپنی فائرنگ سے دہشت گردوں کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔ اسی فائرنگ کے تبادلے میں یہ دونوں آفیسر شہید ہو ئے۔ شہید کیپٹن احمد بدر کو سینے پر گولیاں لگیں جن سے ان کی شہادت ہوئی۔
کیپٹن احمد بدر شہید کے والد لیفٹیننٹ کرنل(ر) بدر بتاتے ہیں کہ میں پنوں عاقل میں تھا جب میرے ایک دوست بریگیڈیئر عرفان بٹ نے کال کرکے بتایا کہ ٹی وی پر ایک خبر چل رہی ہے جس میں کیپٹن احمد بدر کے شہید ہونے کا بتایا جارہا ہے۔ مجھے کنفرم نہیں کہ یہ آپ کے بیٹے کے بارے میں ہے یا کوئی اور احمد بدر ہے۔ احمد بدر کے والد کہنے لگے کہ میں نے فوراً اپنے کزن کرنل فواد کو کال کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ خبردرست ہے۔ میرے لیے یہ ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی لیکن میں ایک فوجی تھا مجھے اپنے جذبات پر قابو رکھنا تھا۔ میں نے ہی ہمت دکھانی تھی اور باقی سب کو سنبھالنا تھا۔ لہٰذا دل کو مضبوط کرکے گھر والوں کو اطلاع دی۔ احمد بدر شہید کے والد ایک مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، انہوں نے کمال ہمت سے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا اس ملک کا بیٹا تھا، وہ سندھ میں پیدا ہوا پنجاب میں بڑا ہوا، کے پی کے میں اپنی جان دی اور پورے پاکستان کے لوگوں نے میرے بیٹے کے لیے دعائیں کیں۔ اسے اﷲ نے عزت کی موت دی اور لوگوں نے اسے اس دنیا میں عزت دی۔ بہت لوگوں نے آکر میرا حوصلہ بلند کیا، لیکن پھر بھی میں ایک انسان ہوں، جذبات رکھتا ہوں، اسے یاد بھی کرتا ہوں، میں نے تو اس کے ساتھ زیادہ وقت بھی نہیں گزارا تھا، ابھی تو بہت باتیں کرنی تھیں لیکن قسمت سے کون لڑ سکتا ہے۔انہوں نے پرعزم انداز میں کہا کہ ظاہر ہے میں باپ ہوں، بیٹے کے جانے کا غم ہے لیکن جس طرح اُس نے پاک دھرتی کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی ہے اس سے میرا تو کیا پورے خاندان کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔
تبصرے