(لیفٹیننٹ کرنل سیدکاشف علی شہید کے حوالے سے مضمون)
قومیں اپنی بقاء کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیتی ہیں۔ جذبے زندہ ہوں تو قومیں زندہ رہتی ہیں۔ دشمن پاکستان کی مسلح افواج اور قوم کی اس غیرت اور اناسے بخوبی واقف ہے جو وہ اپنی سرحدوں کے تقدس کی حفاظت کے لیے رکھتی ہے۔
شہید کی شہادت وہ گواہی ہے جو آسمانوں پہ نور کی طرح چمکتی ہے۔ شہید ہونے والا کوئی معمولی انسان نہیں ہوتا، واقعی لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔
کرنل کاشف علی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہDivision Battle School اورSchool of Army Air Defence میں بطور انسٹرکٹر تعینات رہے۔وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار انتہائی فرض شناس، نڈر اور دبنگ آفیسر تھے۔ انہوں نے سیاچن کے کٹھن محاذ پر وطن کا سپاہی ہونے کی ذمہ داریاں شاندار طریقے سے نبھائیں اور ایک پوسٹ پر امن کا سفید جھنڈا بھی گاڑھا۔ اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ وہ12اگست2022ء کومیرعلی میں بطور ونگ کمانڈر تعینات ہوئے، اس دن سے اپنی شہادت کے عظیم رتبے پہ پہنچنے تک94آپریشنز کیے اور ان کی کمال عسکری صلاحیتوں کی بناء پران کی ونگ نے 40دہشت گرد گرفتار کیے۔
16مارچ2024 کی صبح ونگ ہیڈکوارٹر پر دہشت گردوں نے پے درپے حملے کیے، لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر ڈٹ کے مقابلہ کیا، بھرپور فائرنگ کے تبادلے کے دوران انہیں اوراُن کے ساتھیوں کو گولیاں لگیں مگرانہوں نے آخری دم تک ہمت نہیں ہاری اور کیپٹن احمد بدرسمیت اپنے تین جوانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا اور باقی تمام سپاہیوں کو بچالیا۔اُن کی بیس سالہ عسکری سروس کی کارکردگی ہم سب کے لیے ایک درخشاں باب ہے۔
ماں کے نرم ہاتھوں سے محبت بھرے نوالے کھانے والے لیفٹیننٹ کرنل کاشف (شہید) دشمن کے لیے سیسہ پلائی دیوار تھے۔ راقمہ سے ان کے والد محترم روشن ضمیر کی گفتگو ہوئی تو کہنے لگے کہ میرے پانچ بچے تھے جو اب چار رہ گئے ہیں۔ کاشف میری آنکھوں کا نور تھا اور گھر بھر میں ان سے رونق تھی۔ کاشف شہید کو فوج میں جانے کا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جنون تھا۔ نارتھ کراچی کے سکول سے آٹھویں پاس کرنے کے بعد سانگھڑکیڈٹ کالج میں اسے داخلہ دلوادیا۔ وہ بہت خوش تھے، اس کے بعد وہ کراچی سرسیدیونیورسٹی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تعلیم مکمل کرنے پہنچ گئے، وہیں سے ہم نے مشورہ کرکے بیٹے کاشف کو کاکول بھیجا اور وہ110 پی ایم اے لانگ کورس کا حصہ بن گئے،2002ء میں پاس آئوٹ ہوئے اورپہلا تبادلہ پنوں عاقل میںایک ایئر ڈیفنس رجمنٹ میں ہوا۔
لیفٹیننٹ کرنل کاشف شہید کے والد سید روشن ضمیر علی جوبڑے والہانہ انداز میں اپنے لختِ جگر کی باتیں کررہے تھے ،کہنے لگے کہ وہ کسی بھی تربیت کی سختی سے نہیں گھبراتے تھے ۔ شہید کاشف کے بھائی تابش کا لہجہ گفتگو کے دوران بہت اداس تھا۔ وہ کہنے لگے کہ وہ میرا بھائی اور دوست تھا، اس کے آنے سے پورے گھر میں رونق بڑھ جایاکرتی کیونکہ وہ چودہ سال کی عمر سے گھر سے دور چلاگیاتھا، اس لیے وہ جب گھر آتاتو گھر کے کونوںسے قہقہے بھی جلترنگ بجانے لگتے۔ کچن سے مختلف کھانوںکی مہک پورے گھر میں پھیل جاتی، تابش نے کہاکہ ان کے بھائی نے کبھی کوئی فرمائش کی ہی نہیں تھی مگر ہم سب کو اس کی خواہش اورپسند کا پتہ تھا، وہ فرشتہ روح تھی،دوستوں کا دوست، ہنس مکھ، بہنوں کا شہزادہ، ماں کا تو ہمیشہ سے راج دلارا ہی رہا۔
دورانِ گفتگو والد نے بتایاکہ ایک مرتبہ میں اسے گھر کی چھت پر لے گیا رات کا وقت تھا تو میں نے کاشف سے پوچھاکہ بیٹا سارا شہر کتنی سکون کی نیند سورہاہے تو اس نے جواب دیا اس لیے کہ ہماری فوج سرحدوں پہ جاگ رہی ہے تو اس کے اس جواب پہ مجھے احساس ہوا کہ میرا بیٹا سیدکاشف علی ایک بہترین فوجی افسر بنے گا۔
بھائی تابش نے بتایاکہ کاشف سے انٹرویو کے دوران پوچھاگیا کہ تم فوج میں کیوں جانا چاہتے ہوتو شہید نے جواب دیاکہ' میں سینے پہ شہادت کا تمغہ سجانا چاہتا ہوں۔'
کاشف علی بہترین منصوبہ ساز تھے۔ ان کا عمل ان کی سوچ سے کہیں زیادہ رفتارکا تھا۔
یہ ہم وہی ہیں جو پرچم بلند رکھتے ہیں
ہمی تو ہیں جو فدا کرتے آئے جاں اپنی
رکاوٹیں بھی ہیں واقف ہماری ٹھوکروں سے
ہے منزلوں کو بھی سب یاد داستاں اپنی
23مارچ2008ء میں شادی ہوئی اور رب کریم نے شہید کو دو بیٹوں سے نوازا،14سالہ افراز اور چھ سالہ اذلان۔ افراز اکثر اپنے بابا کی وردی پہن کر انہیں سلیوٹ کرتا تھا۔کاشف کے والد نے بتایاکہ افراز بھی اپنے بابا کی طرح فوج میں جانے کی خواہش رکھتاہے، اذلان تو شاید ابھی شہادت کے معنی سے ہی ناواقف ہوگا، بابا کے تابوت کو چومنا، انہیں شہادت کی نیند سے بابا، بابا کہہ کر پکارنا، حیرانی کے ساتھ گلدستوں کو دیکھنا، کبھی رو پڑنا، کبھی بالکل خاموش ہوجانا، شاید وہ یہی کرسکتا ہے۔
کاشف بہت نرم اور حساس دل کے مالک تھے۔کاشف کے والد بیٹے کو اکثر کہاکرتے کہ اگر تمہیں کبھی مشکل محسوس ہو تو بے شک واپس آجانا، میرا دل بہت گھبراتاہے توکاشف نے کہاکہ بابا نہ تومیں سانگھڑکیڈٹ کالج سے بھاگا جبکہ میں اس وقت چودہ سال کا تھا یاد تو مجھے تب بھی آپ کی ستاتی تھی، نہ میں نے PMAسے بھاگنے کا کبھی سوچ سکا، نہ سیاچن سے گھبرا کے آیا،اب مجھے وزیرستان میں اپنے وطن کے شہیدوں، اپنے نوعمر افسروں اور سپاہیوں کے خون کا قرض چکاناہے۔
کاشف جب والدہ کوCMHلے جاتے تو ان کی و ہیل چیئر خود چلاتے ،کسی کو چلانے نہیں دیاکرتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ جب میں چھوٹا تھا تومجھے ماں نے انگلی پکڑکر چلنا سکھایا تھا، اب اپنی ماں کو صرف میں ہی چلائوںگا۔ محبت اور جذبات کے لمحات جب ماں باپ کو یاد آتے ہیں تو دل تڑپ اٹھتاہے۔ اب کرنل کاشف خود شہید ہوئے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے بہت بڑا غم ہے لیکن انہیں ایک احساس ِ تفاخر بھی ہے کہ ان کے والد نے اپنی جان وطن پر نچھاور کردی لیکن اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔
شہادت کے روز صبح4:20 پرلیفٹیننٹ کرنل کاشف شہید کی بیگم عفرا سے بات ہوئی اور وہی آخری بات تھی، اس کے بعد اب زندگی کے شور میں صرف ان کی بازگشت رہ جائے گی اوریادوں کی چنگاریاں کسی نہ کسی رشتے کوگیلی لکڑی کی طرح سلگاتی رہیں گی۔
انسانِ کامل یا مردمومن کی زندگی جو آئین الٰہی کے مطابق ہوتی ہے فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیاء کی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہوجاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان غرض کی حدود سے نکل کر جوہرکے دائرے میں داخل ہوجاتاہے اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کا کلام خدا کا کلام بن جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل کاشف شہید بھی خدا کے وہ محبوب انسان بن چکے ہیں کہ جس کے لیے عشق ہی آخری آرام گاہ ہے۔
مردِخدا کا عمل، عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے