مثالی معاشروں کی تمام خصوصیات کے برعکس بھارت جو ایک سیکولر ملک ہونے کا نام نہاد دعویٰ کرتا ہے، اپنے تمام شہریوں کو مساوی، منصفانہ اور فوری انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پر ہندو انتہا پسندوں کی قیادت میں ظلم و ستم کے بادل چھائے ہوئے ہیں جو مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر بھارتی مسلم اقلیت اور کشمیر کے لوگوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ مودی کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ انسانی حقوق کی بے دردی سے خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے اور ہندوتوا کے نظریے کی پیروی کشیدگی کو مزید بڑھا رہی ہے۔
مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ انصاف ناپید ہے۔ ایک واضح مثال 18 اکتوبر 2022 کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران گھنائونے جرائم پر عمر قید کی سزا پانے والے 11 افراد کی رہائی کی منظوری ہے۔ ان فسادات میں تقریباً 2,000 جانیں گئی تھیں، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ یہ مذہبی تشدد اس وقت ہوا جب مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 19 اکتوبر 2022 کوبھارت کے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس نے ملک میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
بھارت اس وقت ہندوتوا کے نظریے کو اپنائے ہوئے ہے جو ہندو قوم پرستی کی ایک شکل ہے جس کی ابتدا 1923 میں ہوئی تھی۔ یہ اصطلاح ونائک دامودر ساورکر نے وضع کی تھی اور اس کی تائید مختلف تنظیموں نے کی ہے جسے اجتماعی طور پرسَنگھ پریوار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے حامی عناصر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) وشو ہندو پریشد (VHP) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) شامل ہیں۔ ہندوتوا کی تحریک کو یکساں اکثریت اور ثقافتی بالادستی کے تصور پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہندوتوا نظریے کے پیروکار مودی، بھارت اور ہندوئوں کی بالادستی پر زور دیتے ہیں۔ تاہم اس نظریاتی مؤقف نے انسانی حقوق کے مسائل بالخصوص اقلیتوں کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ہندوتوا نظریے کے جھنڈے تلے بھارتی حکومت خطے اور پڑوسی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔
جموں و کشمیر کا خطہ تنازعات کی ایک طویل تاریخ اور بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان پیچیدہ اور متنازع تعلقات نے خطے کے سیاسی منظر نامے، سماجی تانے بانے اور بین الاقوامی حیثیت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کی جڑیں 1947 میں تقسیم ہند کے ہنگامہ خیز واقعات سے ملتی ہیں۔جیسے ہی برصغیر نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کی، شاہی ریاستوں کو ان کی جغرافیائی اور آبادیاتی حیثیت کی بنیاد پربھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا۔ کشمیر کی ریاست مہاراجہ ہری سنگھ کے جابرانہ کنٹرول میں تھی۔ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ غیر یقینی اور کشیدگی سے بھرا ہوا تھا۔ اس غیر یقینی صورتحال کے درمیان بھارت نے کشمیرمیں فوج داخل کردی اور مہاراجہ ہری سنگھ سے اکتوبر 1947 میں بھارت کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کروانے کا ڈھونگ رچایا۔
تاہم بھارت کی مداخلت پر مقامی کشمیری رہنمائوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو خطے کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے زیادہ جمہوری اور جامع انداز فکر کی وکالت کرتے تھے۔ تنازع کشمیر پر تین پاک بھارت جنگیں ہو چکی ہیں۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی)کے نام سے پہچانے جانے والے ایک ڈی فیکٹو بارڈر کا قیام عمل میں آیا، جس نے اس خطے کوبھارت کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے درمیان تقسیم کیا۔ کشمیر کی اس تقسیم نے ایک طویل علاقائی اور سیاسی تنازع کو جنم دیا جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت انسانی حقوق کی پامالیوں سے بھری پڑی ہے، جن میں ماورائے عدالت قتل، گمشدگیوں، من مانی حراستوں اور بھارتی سکیو رٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے بے تحاشہ استعمال کے الزامات شامل ہیں۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) خطے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات دیتا ہے اور اسے استثنیٰ کو فروغ دینے اور احتساب میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ان الزامات نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مذمت کی گئی ہے۔ بھارت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان خدشات کو دور کرے اور متنازع علاقے میں شہریوں کی فلاح و بہبود کی حفاظت کرے۔
جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کے مسئلے نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کیا بلکہ جنوبی ایشیا کے وسیع جغرافیائی سیاسی منظر نامے پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ دونوں ممالک متعدد جنگوں اور جھڑپوں کا سامنا کر چکے ہیں اور مزید مسلح تصادم کے خدشات بدستور موجود ہیں ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ثالثی اور تنازع کشمیر کے پرامن حل کی تلاش سمیت بین الاقوامی کوششوں کو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خاص طور پر بھارت کے سخت اور بے لچک مؤقف کی وجہ سے معاملات پیچیدہ ہیں۔ یہ معاملہ خطے کو عدم استحکام کا شکار بنا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے وسیع تر مضمرات رکھتا ہے۔
5 اگست 2019 کو بھارت نے ایک انتہائی متنازع فیصلے پر عمل درآمدکیا جس سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی برادری میں بھی تشویش پیدا ہوئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور اس طرح جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔ اس اہم اقدام نے خطے کی سیاسی رفتار کو ایک ایسے اہم موڑ پر لا کھڑا کیا جس نے جموں اور کشمیر کے باشندوں، بھارت کے وفاقی ڈھانچے اور اس کے عالمی تعلقات پر اثرات کے بارے میں وسیع بحث و مباحثے کو جنم دیا۔
آرٹیکل 370، ایک آئینی شق ہے، جس نے ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی تھی۔اس خصوصی حیثیت نے ریاست کو اپنا آئین، داخلی معاملات پر خود مختاری (دفاع، خارجہ امور، اور مواصلات کو چھوڑ کر) اور ریاست کے معاملات کے مختلف پہلوئوں کو کنٹرول کرنے والے قوانین کا ایک الگ سیٹ دینے کا اختیار دیا۔ اس انتظام کا مقصد خطے کے ثقافتی، مذہبی اور سیاسی تنوع کا احترام کرنا تھا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو مبینہ طور پر مودی کی زیرقیادتبھارتیحکومت نے جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی طرف ایک قدم کے طور پر تیار کیا تھا۔ تاہم، اس فیصلے کو بھارت کے اندر اور عالمی برادری دونوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ناقدین نے اسے جموں و کشمیر کی مخصوص شناخت کی خلاف ورزی اور اس کے آبادیاتی اور ثقافتی تانے بانے کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔
منسوخی کے بعد خطے میں کافی تبدیلیاں آئیں۔ ریاست کی تشکیل نو دو مراکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں کی گئی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے نتیجے میں وہ خصوصی خودمختاری ختم ہو گئی جو کئی دہائیوں سے خطے کی خصوصیت تھی۔ بھارتی حکومت نے اقتصادی ترقی، سرمایہ کاری اور مواقع کا وعدہ کیا تھا مگر اس فیصلے کے نتیجے میں مواصلاتی بلیک آئوٹ، نقل و حرکت پر پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین واقعات سامنے آئے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد، بھارت نے ایک ایسا عمل شروع کیا جسے لوگ آبادی کی اکثریت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ فلسطین کے ماڈلز اور اسرائیل کی طرف سے استعمال کی گئی حکمت عملیوں سے متاثر ہو کر بھارت نے طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کارروائیاں کیں۔ ان کوششوں کے باوجود بھارت کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور میڈیا پر پابندیوں کی مسلسل رپورٹس خطے میں جاری چیلنجز کی نشاندہی کرتی ہیں جس سے کشمیر کے لوگوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے بارے میں خدشات بڑھتے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کو ہندو انتہا پسند مودی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے متنازع فیصلے کی توثیق کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی وکالت کرنے والی درخواستوں کو بھی خارج کر دیا۔بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں داخلی خودمختاری کا فقدان ہے اور آرٹیکل 370 کا اطلاق عارضی تھا۔ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ جموں و کشمیر اسمبلی کا مقصد ایک الگ ادارہ بنانے کا نہیں تھا اور آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کے انضمام کو منجمد نہیں کرتا ہے۔ عدالت نے مودی حکومت کے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ صدر کے پاس کسی بھی آئینی شق کو منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔مزید برآں، عدالت نے 30 ستمبر 2024 تک مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد لازمی قرار دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے بارے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ان درخواستوں میں آرٹیکل 370 اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ اس خطے کی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت میں 5 رکنی بنچ نے 16 دن روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں خودمختار کشمیر کے نام نہاد حامیوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔بھارتی حکومت اور اس کی سپریم کورٹ پر انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں اور ہندوتوا نظریے کے اصولوں پر ثابت قدم رہنے کا الزام ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھی اس کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی ایک کڑی ہے۔ سلامتی کے نقطہ نظر سے بھارت کبھی بھی ایک خودمختار کشمیر کو رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان کے ساتھ مذہب، ثقافت، زبان اور دیگر خصوصیات کی ہم آہنگی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو سب سے زیادہ قابل عمل حل بناتی ہے۔ بھارت کا اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اور اس کی اپنی سرحدوں کے اندر اقلیتی گروہوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی عیاں ہے۔ بھارت کے برعکس پاکستان میں بسنے والے کشمیری ملک بھر میں کہیں بھی رہنے اور کام کرنے میں آزاد ہیں۔ کشمیر کا فطری اتحاد اور الحاق صرف اور صرف پاکستان سے ہی بنتا ہے۔ خودمختار کشمیر کے حامیوں کو اس حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین، مہذب معاشروں میں عدالتوں اور عدالتی نظاموں سے انسانی حقوق کی آبیاری اور پائے جانے والی خرابیوں کی درستگی کی توقع کی جاتی ہے۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا اور نہ ہی رہے گا۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے مایوس کن ہے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ مودی حکومت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھنے کا کھلا اختیار دے رہا ہے۔ مزید برآں یہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متصادم ہے جو واضح طور پر جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہیں اوربھارت کو کہتی ہیں کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کا اختیار دے۔ بھارتی سپریم کورٹ اس تناظر میں، خود کو ہندوتوا کے اس نظریے سے ہم آہنگ کرتی نظر آتی ہے جس کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کو دبانا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے، جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دینے اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی مذموم اقدامات کو ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔
مضمون نگار قومی و بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے