’’اُٹھ جاؤ بیٹا ناصر! چھٹی کا مطلب یہ نہیں کہ دوپہر تک سوتے رہو، گھر کے بہت سے کام ہوتے ہیں جو کرنے ہوتے ہیں۔‘‘ امی جان نے جب تیسری مرتبہ ناصر کو جگانے کی کوشش کی تو اُس نے ایک کروٹ لی لیکن بستر نہیں چھوڑا۔
’’آج چھٹی ہے سونے دیں امی!‘‘ ناصر نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔
’’چھٹی کیا یہ کہتی ہے کہ سارا دن سوتے رہو؟‘‘ اس بار ناصر کی بڑی بہن رضیہ نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا اور بالآخر ناصر اُٹھ کر بیٹھ ہی گیا۔
ناصر دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ پڑھائی میں واجبی تھا اس کی بنیادی وجہ شاید یہی تھی کہ وہ ہر کام میں سست تھا۔ بچپن سے ہی اسے اپنی سست روی کی وجہ سے امی ابو سے ڈانٹ پڑتی تھی اور اب جب کہ وہ سترہ برس کا ہو چکا تھا، اس نے اپنی یہ غلط روش تبدیل نہیں کی تھی۔اس کی عمر کے کئی بچے میٹرک کر کے ایف اے میں داخلہ لے چکے تھے مگر دیر سے داخل ہونے اور ایک بار فیل ہونے کی وجہ سے وہ ابھی میٹرک تک ہی پہنچا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ذہانت میں کسی سے کم نہ تھا۔ اس کی بڑی بہن رضیہ اور چھوٹا بھائی عامر بھی ذہین تھے اور اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تھے۔ رضیہ گرایجویشن کر رہی تھی اور عامر نویں جماعت میں تھا۔
والدین، اساتذہ، عزیز رشتہ دار اور دوست ناصر کو اکثر سمجھاتے کہ کمپیوٹر، موبائل اور دنیا کی ہر شے کے بارے میں تمھیں معلومات ہے مگر اپنی سستی کی وجہ سے تم پڑھائی میں پیچھے ہو۔ مگر وہ ہر اک کی بات سنی ان سنی کر دیتا تھا۔
ایک دن وہ سکول میں اُردو کے اُستاد جناب عبدالرحیم صاحب کا لیکچر سُن رہا تھا اور موضوع اقبال کی نوجوانوں کے نام شاعری تھی جس میں انھوں نے نئی نسل کو شاہین صفت کہا تھا اور ان کے ہر شعر میں کوئی نہ کوئی پیغام چھپا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر شاعر مشرق کے کئی اشعار بھی سنائے۔ ایک شعر میں شاعرِ مشرق نے نوجوانوں سے خطاب کیا ہے۔ اس میں بھی ایک نصیحت پوشیدہ تھی۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
’’سر! اس میں شعر میں علامہ اقبال نے کیا کہا ہے؟‘‘ اکمل نے سوال پوچھا۔
’’بیٹا! اس شعر میں شاعر ِمشرق خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا گو ہیں کہ اے میرے ربّ میری قوم کے سارے نوجوانوں کو میری صبح کے وقت کی وہی فریاد عطا کرنے کی توفیق دے جو تو نے مجھے دی ہے۔ یہ شہباز یعنی شاہین کے بچے ہیں۔ انھیں بال و پر یعنی بلندی عطا کر اور انھیں کامیابی دے دے۔‘‘
’’سر! شاہین جیسی پرواز کیسے مل سکتی ہے؟‘‘ اکمل نے پھر پوچھا۔
’’بیٹا!اس کے لیے ہمت، جستجو، بلند سوچ، محنت ریاضت اور قوم کو ازلی سستی سے باہر نکلنا پڑے گا۔‘‘ سر عبدالرحیم نے کہا اور اسی وقت گھنٹی کی آواز بج اُٹھی۔ پیریڈ اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن ناصر تو جیسے کہیں کھو گیا تھا۔ اس ہوش آیا تو اسلامیات کے استاد حافظ فہیم صاحب کلاس میں داخل ہو چکے تھے۔
ناصر نے پیریڈ سنا اور وقفے میں بھی اقبال کی نوجوانوں کے لیے سوچ اور فکر کے بارے میں سوچتا رہا۔ گھر آ کر وہ خلافِ معمول خاموش رہا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ سو گیا۔ خواب میں اس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جو اسے بیداری کا درس دے رہے تھے۔ اس نے انھیں پہنچاننے کی کوشش کی اور پھر وہ تو جیسے چلا اُٹھا، ’’شاعر مشرق علامہ اقبال! آپ... آپ ...!‘‘
’’ہاں بیٹا، میں تم سب کا اقبال ہوں۔ اُٹھو اور ایک نئی صبح کا آغاز کرو۔‘‘ بزرگ نے تھپکی دیتے ہوئے ناصر سے کہا۔
ناصر کی آنکھ کھلی تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو اقبال کے افکار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ ہر وقت سست اور لا اُبالی سا نظر آنے والا لڑکا چند ہی دنوں میں بدل چکا تھا۔ اب وہ صبح صبح اُٹھتا، نماز فجر ادا کرتا، پھر صبح کی سیر کرتا، جمعۃ المبارک کو تلاوتِ قرآن پاک اور درود و سلام کا خصوصی اہتمام کرتا اور پڑھائی پر بھی توجہ دینے لگا تھا۔ اس کے اندر آنے والی اس تبدیلی پر نہ صرف سارے حیران تھے بلکہ خوش بھی تھے۔ ایک دن رات کے کھانے پر امی ابو نے اس سے اس خوشگوار تبدیلی کا پوچھ ہی لیا۔ جس پر اس نے اقبال کے اشعار اور خواب میں آنے والے بزرگ کے بارے میں بتایا جو حضرت اقبال تھے۔
’’تم پر خدائے بزرگ و برتر اور سرکار دو عالمؐ کی خصوصی عنایت ہوئی ہے جو علامہ اقبال نے تمھارے خواب میں آ کر تمھیں نصیحت کی ہے اور تمھارا دل بھی بدل گیا ہے۔ شاباش بیٹے شاباش!‘‘ ناصر کے ابو خوشی سے بولتے چلے گئے۔
’’مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘ امی جان بولیں۔
’’ بہت بہت شکریہ!‘‘ ناصر نے کہا۔
پھر سب نے دیکھا کہ میٹرک کے امتحان قریب آتے ہی ناصر نے بھر پور محنت کی۔ اس کے پیپرز بہت اچھے ہوئے۔ تین ماہ بعد جب اس کا نتیجہ نکلا تواس نے بہت اعلیٰ نمبر حاصل کیے تھے۔ وہ اپنے سکول میں نمبروں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آیاتھا۔ اس کے والدین اساتذہ اور بہن بھائی بہت خوش تھے۔ شام کو جب اس کے اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے پر گھر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تو اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ، مردوں کی شمشیریں
تبصرے