وہ ایک خوبصورت سی عمارت تھی جس کے ماتھے پر’’پبلک لائبریری‘‘ کا بورڈ آویزاں تھا۔ مریم سکول جاتے ہوئے روز اسے دیکھتی اور دل ہی دل میں مرعوب سی ہوجاتی۔ وہ ہر بار سوچتی کہ آج شام وہ ضرور اس لائبریری کا چکر لگائے گی لیکن اسکول کے بعد، بس ہوم ورک کرنے اور پھر ٹیبلٹ پر گیمز کھیلنے میں ہی اس کا سارا وقت گزر جاتا ۔ یوں اگلے دن پھر سے اس عمارت کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں مصمم ارادہ کرتی لیکن ہر بار نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوتا۔
وہ بھی ایک عام سا دن تھا جس کی شروعات تو روزمرہ کی طرح ہی تھی لیکن پھر وہ ہوا جو کبھی نہیں ہوا تھا۔ مریم جب اسکول سے گھر لوٹ رہی تھی تب اس پبلک لائبریری کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے ایک آواز سنائی دی:
’’مریم!‘‘
مریم ٹھٹھک گئی۔ اس نے آس پاس بغور دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا۔ وہ سر جھٹک کر چلنے لگی تھی کہ دوبارہ سے کسی نے اسےپکارا، ’’مریم!‘‘
اس باروہ رُک گئی۔ وہ آواز لائبریری کی عمارت سے آرہی تھی۔ مریم نے سر اٹھا کر لائبریری کی جانب دیکھا تو اس کے قدیم دروازے انوکھی روشنی سے جھلملا رہے تھے۔ مریم جیسے کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر لائبریری کی جانب بڑھنے لگی۔ اس کےقریب پہنچنے سے پہلے ہی دروازہ خود بخود کھل گیا اور ایک مسحور کن خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔ یہ خوشبو کسی عطر کی تھی یا جنگلی پھولوں کی...مریم اندازہ لگانے سے قاصر تھی۔ وہ کھلے دروازے میں داخل ہوگئی اور ابھی بس تین چار قدم ہی چلی ہوگی کہ دروازہ خودبخود بند ہوگیا ۔
اس نے آس پاس دیکھا مگر وہاں اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔اسے خوف سا محسوس ہوا لیکن تھوڑی خوشی بھی تھی کہ آ خرکار وہ اس لائبریری کو اندر سے دیکھ رہی ہے۔
لائبریری میں چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں نصب تھیں جس کے شیشے کے دروازوں سے کتابیں جھانک رہی تھیں۔ مریم آگے بڑھتی رہی اور ایک ایک کرکےالماریوں کے پاس سے گزرتی رہی۔
لائبریری کے وسط میں بہت ساری میزیں رکھی تھیں جن کے اطراف آرام دہ کرسیاں موجود تھیں۔ برقی فانوس اور روشندانوں سے آتی روشنی نے لائبریری کو منور کردیا تھا۔
مریم نے پوری لائبریری کا چکر لگایا اور واپس جانے کے لیے پر تول ہی رہی تھی کہ اچانک ایک الماری کے پَٹ کھلے اور اس میں سےایک کتاب گِر پڑی۔ مریم تیزی سے گئی اور جھک کر اس کتاب کو اٹھالیا۔ کتاب کا نام تھا ، ’’جنگل میں چھپا خزانہ‘‘۔
اس کتاب کے سرورق پر ایک جنگل کی تصویر تھی جس کی جھاڑیوں کے درمیان چند بچے اور کچھ جانور کھڑے تھے۔ مریم نے دلچسپی سے کتاب کے سرورق کودیکھا اور ورق گردانی کرنے لگی۔ یہ ایک ناول تھا جس میں مریم کی عمر کے بچے اپنی خالہ کے گھر رہنے جاتے ہیں جہاں انہیں ایک صندوق ملتا ہے جس میں چھپے خزانے کا نقشہ انہیں جنگل کی سمت لے آتا ہے۔
مریم ناول پڑھنے میں اس قدر گم ہوئی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کھڑے کھڑے کب اس کی ٹانگیں شَل ہوئیں، کب وہ میز کے ساتھ رکھی کرسی پر براجمان ہوئی اور کب سارا ناول پڑھنے لگی۔
ناول انتہائی دلچسپ تھا۔ مریم جیسے جیسے پڑھتی جارہی تھی ویسے ویسے تجسس بڑھتا جارہا تھا۔ کبھی ناول میں موجودکرداروں کی ملاقات جنگلی جانوروں سے ہوتی تو کبھی وہ خود کو کسی گہری کھائی میں گِرنے سے بچاتے۔
مریم اسی طرح یکسوئی سے پڑھتی رہتی کہ اچانک ایک مہربان آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
’’بیٹا! لائبریری بند ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔‘‘
مریم نے چونک کر دیکھا تو ایک معمر خاتون نازک سی عینک لگائے اسے بڑی محبت سے دیکھ رہی تھیں۔ مریم نے غیر یقینی سے اپنےآس پاس دیکھا جہاں بہت سارے لوگ کتابوں کو اپنی جگہ پر واپس رکھ رہے تھے۔ کچھ لوگ لائبریری کے کاؤنٹر پر کتابیں لیے منتظرتھے۔
’’آپ یہاں کب آئیں؟ اور یہ سب لوگ ؟ “ مریم نے حیرانی سے اٹک اٹک کر پوچھا۔
’’ میں یہاں کی لائبریرین ہوں اور یہاں صبح نو بجے ہی آجاتی ہوں۔ شام پانچ بجے تک یہاں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔‘‘ لائبریرین نے مسکرا کر جواب دیا۔ ان کی گہری چمکتی آنکھیں مریم کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
’’لیکن جب میں آئی تب تو یہاں کوئی نہیں تھا! “ مریم نے ہکلا کر کہا۔
’’اور تمہیں لگا کہ کسی نے آواز دے کر تمہیں اندر بلایا ہے؟ “ لائبریرین نے کھوجتی نگاہوں سے اس کے چہرے کو ٹٹولا ۔
’’جی جی، بالکل ایسا ہی ہوا !‘‘ مریم نے زور زور سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’تم پہلی بچی نہیں ہو جو ایسا کہہ رہی ہو، ہر سال کم از کم دس بچے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات کا یقین نہیں کرتا۔ جب تم لائبریری میں آئی تھیں تب میں نے تمہیں دیکھا تھا لیکن تم شاید اپنے آپ میں ہی گُم تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کتاب تمہیں پسند آگئی ہے، ہے نا؟ “ لائبریرین نے مریم کی حیرت سے پھٹی آنکھیں دیکھ کر بات بدلتے ہوئے کہا۔
مریم کتاب ان کی طرف بڑھاتے ہوئےبولی،’’کتنی خوبصورت کتاب ہے! میں جیسے ان کرداروں کے ساتھ ساتھ جنگل میں پھرتی رہی ہوں۔ اب بھی خزانہ ملا نہیں ہے۔ کیا میں یہ کتاب اپنے ساتھ گھر لے جاسکتی ہوں؟ “
مریم نے لائبریرین سے پوچھا۔’’بالکل لے جاسکتی ہو لیکن اس کے لیے تمہیں لائبریری کارڈ بنوانا ہوگا۔ جو ابھی ہی بن جائے گا۔ اس کےعلاوہ آج کے ہوم ورک کے لیے بھی ریفرنس کتب ایشو کرواسکتی ہو۔ “
لائبریرین مریم سے بات کرتے کرتے اسے اپنے ساتھ کاؤنٹر پر لے آئیں جہاں کچھ لوگ کتابیں لیے اُن کے منتظر تھے۔ وہ تیزی سے کتابوںکا ایک رجسٹر میں اندراج کرنے لگیں اور ساتھ ساتھ مریم سے باتیں بھی کرتی جارہی تھیں۔
’’لیکن اسکول کا کام تو میں گوگل اور چیٹ جی پی ٹی سے کرلیتی ہوں ۔ آپ مجھے یہ ناول ایشو کردیں۔ “ مریم کی اس بات پر لائبریرین نے سر اٹھا کردیکھا اور ہنس پڑیں، ’’اگر گوگل اور چیٹ جی پی ٹی سے ہوم ورک کرو گی تو کبھی سیکھ نہیں پاؤگی۔ کتابوں سے اپنے نوٹس بناؤ گی تو ہر بارنہ صرف معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ ذہن بھی کھلے گا۔ خود کو گیجٹس کے سہارے مت چھوڑو۔ اپنے ذہن کی نشونما کے لیےکتابوں کو دوست بناؤ۔ “
مریم نے ان کے کہنے پر قائداعظم کے متعلق کتاب بھی ایشو کروالی ۔ اس نے سوچا کہ آج وہ قائداعظم پر مضمون اس کتاب کی مددسے لکھے گی۔
دونوں کتابیں لیے جب وہ لائبریری سے باہر آئی تب اس کی ملاقات کچھ اور بچوں سے ہوئی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ یہاں سےگزر رہے تھے کہ کسی نے انہیں پکارا تھا اور اندر گئے تو کوئی نہیں تھا۔ لیکن ان کی اس بات کو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔
مریم نے کندھے اچکاتے ہوئے سوچا، ـ’’کوئی مانے یا نہ مانے، اسے تو اتنی پیاری لائبریری نے نہ صرف بلایا بلکہ کتابوں کی دنیا سےروشناس بھی کروایا۔“
اب مریم آئے روز لائبریری کے چکر لگاتی رہتی۔ ریفرنس کتب سے نوٹس بنانا نہ صرف اس کے ذخیرہِ الفاظ میں اضافے کا سبب بنا بلکہ اس کے طرزِ تحریر میں بھی نکھار لانے کا باعث بنا۔
پیارے بچو! آپ بھی کتابوں کو اپنا دوست بنائیں اور اپنے قیمتی وقت کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنائیں۔
تبصرے