عاصم اور قاسم کتنی ہی دیر سے آپس میں شرارتیں کیے جارہے تھے ۔عاصم چہارم اور قاسم پنجم جماعت کا طالب علم تھا ۔ اسکول سے آنے کے بعد وہ تازہ دم ہوتے، پھر کچھ دیر آرام کرکے اسکول کا کام لے کر بیٹھ جاتے تھے ۔ فارغ وقت میں وہ کچھ مستیاں کرتے، کھیلتے کودتے یا پارک کو نکل جاتے تھے ۔ آج بھی وہ اسکول کے کام سے فارغ ہوکر موج مستی کررہے تھے ۔عاصم کو پیاس بہت لگتی تھی ،یا شایدبار بار پانی پینااُس کی عادت بن چکی تھی۔ قاسم اس کی اسی عادت کی وجہ سے اُسے تنگ کیے رکھتا تھا۔
ابھی کچھ دیر قبل جب عاصم نے پانی کی بوتل کو منہ لگایا تو قاسم نے ہنستے ہوئے جھٹ سے اُسے ــ ’’دریا خان‘‘ کا نام دے ڈالا تھا ۔اس پر عاصم چِڑنے لگا، مگر قاسم نے اُس کی ایک نہ سنی ،وہ مسلسل اُسے اسی نام سے مخاطب کرتا رہا ۔
جواب میں عاصم کو بھی ایک ترکیب سوجھی ، اُس نے قاسم کے موٹے پیٹ کو دیکھتے ہوئے کہا ،’’ بھیا ! مجھے اگر پانی پینے کی لگن ہے ،تو تجھے بھی تو تین بندوں جتنا کھانا کھانے کا شوق ہے ناں ! چل پھر آج سے تیرا نام بھی ’پیٹو پہاڑ ‘‘ اتنا کہہ کر عاصم کھلکھلا کر ہنس دیا۔
اتنے میں اعظم کمرے میں داخل ہوا ، وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ بڑے بھائی کو دیکھتے ہی قاسم اور عاصم خاموش ہوگئے، لیکن اگلے ہی لمحے دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی ، کیوں کہ اعظم کے لمبے لمبے بال کسی بے ہنگم جھاڑیوں کی مانند اُلجھے ہوئے تھے ۔
قاسم نے ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اُن سے سوال کیا،’’اعظم بھائی ! یہ آپ نے سر پر کیا اُگا رکھا ہے ؟‘‘اس پر اعظم جھٹ سے بولا، ’’جنگل …جنگل اُگا رکھا ہے۔ ‘‘ ساتھ ہی اعظم مسکراتے ہوئے بولا کہ بھئی جب تم دونوں دریا اور پہاڑ ہوسکتے ہو ،تو مجھے جنگل بننے میں کوئی مسئلہ نہیں ، اس پر پورا کمرا ایک بار پھر قہقہوں سے گونج اُٹھا ۔ تینوں بھائی اسی ہنسی مذاق میں ٹی وی لائونج میں آگئے ۔
امی جان کچن میںکام کرنے کے دوران اُن تینوں کی باتیں سن کر مسکرائے جارہی تھیں۔عاصم ہنستے ہوئے کہنے لگا ،’’بھائیو!اتنے چھوٹے سے گھر میں ہم نے دریا ،پہاڑ اور جنگل تینوں اکٹھے کردیے ہیں مگر یہ بھی تو سوچو کہ ابھی امی جان باقی رہ گئی ہیں ،انھیں ہم کس نام سے یاد کریں ؟‘‘
’’خبردار…! اپنے فضول سے کھیل میں بڑوں کو شامل نہیں کرتے ۔‘‘اعظم سے چھوٹی مدیحہ نے اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے عاصم اور قاسم کو ٹوکا ، تو قاسم جھٹ سے بولا،’’تُم چپ رہوبارانی نہر کہیںکی …‘‘
ایک بار پھر سبھی ہنسے ۔ مگر اس بار ایک بھاری بھرکم آواز نے جلد ہی سب کو خاموش کروادیا ۔یہ آواز باباجان کی تھی ، جو کتاب ہاتھ میں لیے ٹی وی لائونج میں پہنچ گئے تھے۔
’’اپنی امی کو تم لوگ ’’زمین ‘‘ کہہ سکتے ہو، ویسے بھی ماں کی جگہ دھرتی ماں ہی لے سکتی ہے ۔ ‘‘بابا جان کی بات پر سبھی بچے ایک بار مسکرائے ، مگر ساتھ ہی ان کے چہروں پر کچھ حیرت بھی تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے مدیحہ کی یہ حیرت ایک سوال کی شکل اختیار کرگئی ،اس نے جھٹ سے سوال کیا :
’’بابا جان!ہم دھرتی یا زمین ہی کو’’ماں‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟‘‘
جواب میں بابا جان نے مدیحہ کے سوال پر اُسے داد دی ، ’’بیٹی ! جب آپ کے بھائی دریا، جنگل اور پہاڑ ہوسکتے ہیں تو آپ کی ماںزمین کیوں نہیں ہوسکتیں؟‘‘ بابا جان نے مسکر اکر کہا،مگر اگلے ہی لمحے وہ سنجیدگی سے اس سوال کا جواب دینے لگے ،
’’دیکھو بچو! زمین قدرت کا سب سے اہم اور قیمتی تحفہ ہے ۔اس زمین کے نیچے ناصرف ہمارے لیے پانی کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ، بلکہ تمام قسم کی معدنیات ،سونا، تانبا، چاندی، تیل، قیمتی پتھر ، دھاتیں ، کوئلہ اور نہ جانے کیا کیا اسی سے برآمد ہوتا ہے ۔بالکل ایسے جیسے تم سب لوگوں کو ناشتہ ،دوپہر اور رات کا کھانا تمھاری امی بنا کر دیتی ہیں ، پھر کپڑے دھونا ،استری کرنا، برتن دھونا، گھر کی صفائیاں اور دیگر کام کاج بھی تمھاری امی سرانجام دیتی ہیں یعنی تمھاری امی اور ہماری زمین دونوں ہمارے لیے ایک جیسے قیمتی اور اہم قدرتی تحفے ہیں ،اسی لیے زمین کو ہم دھرتی ماں کہتے ہیں۔
ابا جان خاموش ہوئے تو قاسم نے جلدی سے سوال کیا ، ’’ابا جان!ویسے تو زمین کے زیادہ تر حصے کے نیچے پانی ہی ہے ۔مگرمیں نے مطالعہ پاکستان میں پڑھا تھاکہ دنیا کے کچھ علاقوں میں زمین کے نیچے تیل ہے ، کچھ علاقوں میںمعدنیات اور کوئلہ وغیرہ موجود ہے ،کیسے پتا چلتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں کیا چیز پوشیدہ ہوسکتی ہے ؟‘‘
بابا جان نے اُسے بتایا کہ بیٹا یہ سب قدرت کی کاریگری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فائدہ پہنچانےکے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے۔زمین ان چیزوں میں سب سے اہم اور خاص ہے۔ اسی زمین سے ہمیں کھانے پینے کی اشیاء، پودے،پیڑ،فصلیں یا اناج وغیرہ ملتا ہے ، یہی زمین ہمیں پینے کا پانی دیتی ہے، اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف دھاتوں اور معدنیات کا نکلنا بھی قدرت کی ہی تقسیم ہے ۔کہیں زیر زمین کوئلہ ہے ،توکہیں گیس،کہیں تیل ہے تو کہیں معدنیات...یہ سب چیزیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تلاش کرنے پر ملتی ہیں ۔‘‘
’’بابا جان ! زمین کے بارے میں ہمیں مزید کچھ بتائیے ناں ۔‘‘
عاصم نے اس موضوع پر دلچسپی کا اظہار کیا تو بابا جان نے سب بچوں کو پاس بلا کر بٹھا لیا ۔ پھر انھیں تفصیل سے بتانے لگے ۔
’’بچو!ہماری زمین ایک اندازے کے مطابق6ہزار کلومیٹر گہری ہے ۔ یہ صرف سائنس دانوں کا تحقیقی اندازہ ہے ۔زمین کو ماہرین نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔سب سے اوپر والی تہہ جس پر ہم چلتے ہیں ، فصلیں اُگاتے ہیں،اناج پیدا کرتے ہیں ،اسے ہم کرسٹ (The Crust) کہتے ہیں ۔ اس کے نیچے والا حصہ مینٹل کور(The Mantle)کہلاتاہے۔اس سے نیچے والے حصے کو آئوٹر کور (Outer core)کہتے ہیںاور زمین کے سب سے نیچے والے حصے کو اِنرکور(Inner core)کہا جاتا ہے۔سب سے نیچے والا زمین کایہ حصہ ایک اندازے کے مطابق دس ہزارآٹھ سو فیرن ہائٹ تک گرم ہوتا ہے۔اتنی گرمی تو صرف سورج پر ہوسکتی ہے ۔ ‘‘بابا جان نے بتایا ۔
’’باباجان ! اس کا مطلب ہے کہ زمین کے نیچے بھی شدید گرمی ہے؟‘‘اعظم نے سوال کیا تو بابا جان نے بتایا کہ ناصرف گرمی بلکہ بہت زیادہ پریشر بھی ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے ہم نیچے جائیں گرمی اور پریشر بڑھتا جاتا ہے۔جیالوجی کے ماہرین ابھی تک زمین کی بارہ کلومیڑ تک ہی کھدائی کرپائے ہیں ۔یہ ڈرلنگ 1970ء میں روس میں کی گئی تھی ۔ زمین کے نیچے بارہ کلومیڑ تک اتنا پریشر موجود تھا کہ جیسے انسان کے سر پر 125ہاتھی کھڑے کر دیے جائیں ۔ ‘‘
بابا جان نے تفصیل بتائی تو بچوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔کچھ دیر وقفے کے بعد انھوں نے بچوں کو دوبارہ بتانا شروع کیا کہ سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق زمین کے 660کلومیٹر نیچے تک بڑے بڑے پہاڑ موجود ہیں ۔یہ زمین کے اس حصے میں ہوسکتے ہیں جسے ہم مینٹل کہتے ہیں ۔ ماہرین نے سائونڈویوز کے ذریعے ان پہاڑوں کا پتا چلایا ہے ، مگر یہ حتمی نہیں ہے ۔ ‘‘ بابا جان نے تفصیل بتائی تو بچوں نے ان باتوں کا خوب لطف اُٹھایا ۔
’’بابا جی ! ہم نے سنا ہے کہ ماہرین کے مطابق ہماری زمین کے ماحول کوخطرہ ہے ، مگر کس چیز سے خطرہ ہے ،یہ تو ذرابتائیے ؟‘‘
’’بیٹا…! ہماری زمین کو بڑھتی ہوئی آبادی،کم ہوتے وسائل اور آلودگی سے خطرہ ہے ۔زمین پر موجود تمام قدرتی اشیا ء جیسے جنگل ، حیوانات، پہاڑ ، دریا ، سمندر ،صحرا وغیرہ مل کر قدرتی ماحول بناتے ہیں ۔ ان تمام چیزوں کی اصل حالت میں تبدیلی سے زمین کو خطرہ ہے۔ ‘‘
’’اس خطرے کو ہم کیسے ختم کرسکتے ہیں بابا جان؟‘‘مدیحہ نے سوال پوچھا۔
’’بیٹی! پانی کو صرف ضرورت کے تحت استعمال کریں ، یعنی ضائع نہ کریں ، کوڑا کرکٹ درست جگہ پر ٹھکانے لگائیں ، دھوئیں اور خطرناک گیسوں والے صنعتی پلانٹ لگانے سے گریز کریں ۔پولی تھین لفافوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کریں ، مختلف اشیاء خصوصاََ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کرکے انھیں دوبارہ قابل استعمال بنائیں ،تب جا کر ہماری زمین کا ماحول اپنی اصل حالت برقرار رکھ پائے گا ۔ ‘‘بابا جان نے بتایا تو بچوں نے آئندہ ان تمام باتوں پر عمل کرنے کا عزم کرلیا تاکہ وہ اپنی دھرتی ماں اور اس پر بسنے والوں کا تحفظ یقینی بنا سکیں ۔
تبصرے