دادی جان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا نہ تھا، اِس لیے کہ نازیہ کراچی سے اور شازیہ اسلام آباد سے بچوں سمیت عید منانے لاہور آرہی تھیں۔ اِس بار اُن کے سب بچے اکٹھے ہورہے تھے۔ امن، کرن، عابش اور موسیٰ بھی دونوں پھوپھوئوں کے آنے پر خوش تھے اور فوراً پلان بنانے میں مصروف بھی ہوگئے کہ کرنا کیا کیا ہے۔
’’رمضو چاچا! تابی آرہی ہے۔‘‘ کرن خوشی سے رمضو چاچا کو بتا رہی تھی۔
’’چابی؟ کس کی چابی آرہی ہے؟‘‘ رمضو چاچا جوباورچی تھے اور اُونچا سنتے تھے تابی کو چابی سمجھے۔
’’چھوڑیں آپ چابی ہی سمجھیں۔‘‘ کرن بولی۔
شام کی ٹرین سے تابی، اُسامہ اور عینی اپنی ماما کے ساتھ پہنچ چکے تھے۔ فری، مونا اور عمیر رات کی ٹرین سے پہنچے تھے۔ گھر ایک دم سے لوگوں سے بھر گیا تھا۔ دادی جان اپنے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو دیکھ کر بہت خوش تھیں۔
’’فری! تم مونا کے ساتھ ساتھ رہنا یہ تم سب بچوں میں شرارتی اور چھوٹی ہے۔‘‘ شازیہ پھوپھو نے اپنے بچوں کو تاکید کی۔
’’میں چھوٹی تو نہیں۔ ‘‘ چار سالہ مونا بسوری۔
’’ہاں بھئی! تم تو بہت بڑی ہو...‘‘ عمیر نے اُسے گُد گُدی کی۔
’’چاچا! افطار میں آلو کے پکوڑے بنیں گے دادی جان کہہ رہی ہیں۔‘‘ موسیٰ نے چاچا کو پیغام دیا۔
’’بھئی، بھالو کے پکوڑے کون سے ہوتے ہیں، آلو کے ہوتے ہیں، تم بچے بہت شیطان ہو۔‘‘ چاچا ہنسے۔
’’آلو ہی کہا ہے چاچا‘‘ موسیٰ قدرے بلند آواز سے بولا۔
’’یہ بھالو کے پکوڑے کیسے ہوں گے؟‘‘ عینی ہنستے ہوئے بولی۔
ویسے چاچا کو پچھلے رمضان جو آلہ سماعت (Hearing aid) لے کر دیا تھا، وہ کہاں گیا؟ ‘‘ تابی نے پوچھا۔
’’چاچا اپنے گاؤں گئے تھے ، نہر میں نہانے گئے خود تو باہر نکل آئے مگر آلہ سماعت وہیں گر گیا۔‘‘ عابش نے بتایا۔
’’مطلب اب نہر پہلے سے زیادہ اچھا سن رہی ہو گی۔‘‘ اُسامہ ہنسا۔
رمضان کا آخری عشرہ تھا اور عید کی تیاریاں بھی زَوروں پر تھیں۔ سب بچے لاؤنج میں بیٹھے کھیل رہے تھے جب عابش بولا۔ ’’یار! تم لوگ دادی جان کےراجہ رانی سے ملے ہو؟‘‘
’’کون راجہ رانی؟‘‘ سب اکٹھے بولے۔
’’دادی جان کے مرغا مرغی؟‘‘ امن بولی۔
’’ہیں کدھر؟ دکھاؤ دکھاؤ‘‘ سب جوش سے کھڑے ہوئے۔ سب بچے گھر کے پچھلے حصّے میں چلے آئے جہاں شہتوت کی خشک ٹہنیوں سے بنا ایک بڑاسا ٹوکرا اُلٹا پڑا تھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اُسامہ نے ٹوکرا اُٹھایا اور ٹوکرا اُٹھاتے ہی اندر سے دو خوبصورت سنہری، لال اور ہرے رنگ کے مُرغا مُرغی برآمد ہوئے۔
’’اُف! یہ کتنے حسین ہیں!‘‘ اب کی بار فری چلائی۔
’’بہت پیارے ہیں!‘‘ تابی کو بھی پسند آئے۔ یہ راجا ہے۔ موسیٰ نے مرغے کی طرف اشارہ کیا اور یہ رانی‘‘ موسیٰ نے مُرغی پکڑلی۔ ’’اور دھیان رہے یہ دادی جان کے بہت لاڈلے ہیں۔‘‘
’’ارے بچو! شرارتیں مت کرو بڑی بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا کہ تم سب یہاں ہو تو ناراض ہوں گی۔ یہ ان معصوموں کے کھانے کا ٹائم ہے۔ کھیلنے کا وقت بعد کا ہے۔‘‘ رمضو چاچا نے مرغامرغی کو تازہ دھنیا ڈالتے ہوئے کہا۔
’’چاچا! آج روسٹ بنے گا اور وہ بھی راجہ اوررانی کا...‘‘ اُسامہ چہکا۔
’’ راجہ رانی کا؟‘‘ توبہ توبہ! پچھلی بار بھی بیگم صاحبہ کے ایک مرغے کا یہی حشر کیا تھا تم سب شرارتی بچوں نے... اِس بار میں تمہاری باتوں میں نہیں آؤں گا۔‘‘ چاچا بولے۔
’’چاچا ! دادی جان نے کہا ہے کہ آج روسٹ ہی بنے گا کیونکہ پھر سب نے عید کی خریداری کے لیے جانا ہے۔ جاکر خود پوچھ لیں۔‘‘ عابش بولا۔
اُسی وقت دادی جان باہر آئیں۔
’’دادی جان! آج کھانے میں روسٹ بنے گا یا نہیں چاچا رمضو مان ہی نہیں رہے۔‘‘ عابش سب کو اشارہ کرتا دُور سے ہی بلند آواز میں دادی جان سے پوچھ رہا تھا۔
’’بالکل بنے گا اور ذرا چٹ پٹا بنانا بچوں کو پھیکا نہیں پسند۔‘‘ دادی جان چشمہ برابر کرتی باہر پڑی میز سے اخبار اُٹھا کر اندر چل دیں۔
عشاء کی نماز اور تراویح کے بعد جب سب کھانے کی میز پر بیٹھے تو دھما چوکڑی مچ چکی تھی۔ کھانے کی میز پر دھواں اُڑاتے دو مرغ پڑے تھے۔ خوشبو تھی کہ سب بغیر کہے ہی کھانے کی میز پر اکھٹے تھے۔
’’واہ کیا خوشبو ہے!‘‘ دادی جان بولیں۔
’’جی بڑی بیگم! اس کی بات ہی کچھ اَور ہے۔ جس پیار سے آپ انہیں دانہ ڈالتی تھیں، اسی پیار سے میں نے انہیں بارہ مصالحے لگائے ہیں۔‘‘ اُونچا سننے کے باوجود تعریف دھیمی آواز میں بھی چاچا کو سنائی دے جاتی تھی۔
’’ مطلب؟‘‘ دادی جان نے پوچھا۔
’’یہ راجا اور رانی ہیں، نانی جان!‘‘ مونا بولی۔
’’کیا! ‘‘ دادی جان کی پلیٹ نیچے جاگری ۔
چاچا سمیت سب کو اس حرکت پر نانا جان سے خوب ڈانٹ پڑی تھی۔
.....
’’دادی جان بہت اُداس ہیں‘‘ عابش بولا۔
’’کوئی تمیز کی شرارت کرنی تھی نا۔ ‘‘ تابی بولی۔
’’شرارت بھی کبھی تمیز کی ہوتی ہے؟‘‘ موسیٰ نے سوال کیا۔
’’نانی! بہت اُداس ہیں اور یہ بہت بُری بات ہے۔‘‘ امن بولی۔
.....
’’یہ بچے کیا حرکتیں کررہے ہیں؟‘‘ نازیہ، شازیہ سے کہہ رہی تھیں۔
’’امن، کرن، عابش اور موسیٰ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس نئے کپڑے بہت ہیں۔ ہمیں عید کے کپڑوں کے بجائے پیسے دے دیں۔‘‘
’’ تابی، اسامہ اور عینی بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں۔‘‘ بھابھی بولیں۔
’’اِس میں کوئی حرج نہیں ... دے دیں، بچوں پر بھروسہ کریں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔‘‘ نانا جان بولے۔
.....
سب عید کی تیاریوں میں مگن تھے۔ بچیاں اپنی مہندی، چوڑیاں اور رنگ برنگی پونیاں لے کر خوش تھیں۔مگر لڑکے کچھ خفیہ سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
’’یہ مونا پھر نہیں نظر آرہی؟‘‘ فری بولی۔
مونا کو ڈھونڈتے ہوئے سب لان میں پہنچے۔ اُس کے سب کپڑے مٹی سے بھرے ہوئے تھے اور وہ زمین کھود کر اس میں کچھ دبا چکی تھی۔
’’کیا دبایا ہے اِس میں؟‘‘ سب چیخے۔
’’نانی جان کے دانت۔‘‘ مونا معصومیت سے بولی۔
’’کیا! دادی جان کی بتیسی مٹی میں دبا دی؟‘‘
’’کسی پودے کا بیج دباتیں تو وہ اُگ بھی جاتا۔‘‘
’’ نانی جان کے دانت بھی توبیج کی طرح ہیں۔‘‘ مونا بولی۔
سب جلدی جلدی مٹی کھود نے لگے۔ کسی بھی بڑے کو پتا چلنے سے پہلے دانتوں کا برآمد ہونا ضروری تھا۔
.....
عیدالفطر کا چاند نظر آگیا تھا۔ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ اچانک موسیٰ بولا،’’ہم سب کی طرف سےآپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ عمیر نے لاؤنج میں پڑا بڑا سا ٹوکرا اُٹھایا۔
’’یہ رہی دادی جان کی ہماری طرف سے عیدی!‘‘ کرن چلائی۔
’’ یہ راجا رانی ،یہ بیلی اوریہ رہا پنکی ۔‘‘ عابش نے بے حد خوبصورت مرغا، مرغی اوردو ننھے منے سے چوزوں کا تعارف کروایا۔
’’اور یہ رہا چاچا کا نیا آلہ سماعت۔‘‘ فری نے چاچا کی طرف آلہ سماعت بڑھایا۔ اور ہم نے باقی سب بچوں میں بانٹنے کے یہ گُڈی بیگز بھی بنائے ہیں جو کل عید کی نماز کے بعد باہر کھڑے بچوں کو دیں گے۔‘‘ کرن نے بتایا۔
’’واہ! اِس میں تو بہت کام کی چیزیں ہیں۔ دو چاکلیٹ، ایک کیک، بسکٹ، کلر پنسل اور کلرنگ بُک۔‘‘
’’ شاباش میرے بچو!‘‘ دادی جان خوش ہوکر بولیں۔ جس طرح رمضان المبارک صبر، شکر اور قربانی کا مہینہ ہے اور اِسی طرح عید بھی خوشیوں کا دن ہے اور اصل خوشی وہی ہے جس میں ہم اپنوں کے ساتھ ساتھ اپنے اِردگرد کے لوگوں کو بھی بھرپور طریقے سے شامل کریں۔‘‘ دادی جان کی بات پر سب کے چہرے بھی خوشی سے چمک اُٹھے۔
رمضان المبارک کا انعام عید الفطر
مسلمان رمضان المبارک کے روزے مکمل ہونے کی خوشی میں یکم شوّال المکرّم کو عید الفطر مناتے ہیں۔ عید الفطر رمضان المبارک کے روزوں کا انعام ہے۔مسلمان عیدالفطر کا تہوار مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
عیدالفطر غریبوں اور مسکینوں کی امداد کا ذریعہ بھی ہے۔ نمازِ عید سے قبل مسلمان فطرانہ ادا کرتے ہیں۔یہ غلہ یارقم بطور صدقہ یکم رمضان سے عید کی نماز سے پہلے تک کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے تاکہ غریب، مسکین اور نادار لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
عید کے آداب:
عید کے دن نہا دھو کر نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنیں اور خوش بو لگا ئیں۔
عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے پہلے میٹھی چیز کھانا سنت ہے۔
نماز عید کے لیے جاتے اور واپس گھر لوٹتے ہوئے الگ الگ راستہ اختیار کریں۔
عید گاہ کی طرف جاتے اور واپس آتے ہوئے بلند آواز سے تکبیرات پڑھنی چاہئیں۔
عید کی تکبیرات:
عید منائیں!
ضیا اللہ محسن
خوشیاں منائیں دھوم مچائیں
آئو مل کر ہم عید منائیں
جتنے اچھے بچے ہیں
اُن سب نے روزے رکھے
سحری اور افطاری میں
ہر طرح کے میوے چکھے ہیں
دیکھو عید اب آئی ہے
کتنی خوشیاں لائی ہے
آئو، سب عید منائیں
دھوم مچائیں، مل کر گائیں
آئو مل کر، ہم عید منائیں
تبصرے