چھٹی کا دن تھا۔ گھرمیںکافی چہل پہل تھی۔سارے بچے بہت خوش تھےکیونکہ ابّونےوعدہ کررکھا تھا کہ وہ آج انہیں چڑیا گھرکی سیرکروائیں گے۔
صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد سبھی بچے چڑیا گھرجانے کے لیے تیار تھے۔ آمنہ،حنااوراُن کے بھائی حمزہ کی خوشی دیدنی تھی۔اتنے میں امی جان نےایک ٹوکری میں کچھ کھانے پینےکا سامان رکھا اور پھر وہ سب گاڑی میں چڑیا گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
چڑیا گھران کے گھرکےقریب ہی تھا۔ اگلےدس منٹ میںوہ وہاں پہنچ گئے۔ابونے سب کے لیے داخلہ ٹکٹ خریدے اور وہ سب اندرداخل ہوگئے۔
آمنہ،حنااورحمزہ چڑیا گھر میں موجود جانور اور پرندے دیکھ کربہت خوش ہوئے۔چلتے چلتےان کی نظر ایک سفید شیرپرپڑی۔ وہ تیزی سےاس کے پنجرے کی طرف بڑھے۔
حمزہ نے پہلی بارسفیدشیردیکھا تھا۔ اس لیے وہ بہت زیادہ پُرجوش تھا۔ اس نے تجسس سے پوچھا۔ ’’ابو! کہیں اس شیر پر سفید رنگ تو نہیں کیا گیا؟‘‘
ابو نے اس کی بات سنی تو وہ مسکرا دیے۔’’بیٹا!دراصل یہ اسی رنگ کا ہوتاہے۔ یہ شیروں کی ایک نایاب نسل ہےجوجنگلوں میں بہت کم پائی جاتی ہے،کیونکہ لوگ اس کا شکار کرلیتے ہیں۔ یہ بہت قیمتی ہے۔‘‘
بچوں نے سفید شیر کی خوبیاں سنیں تو اس کے ساتھ سیلفیاں لینے کی ضد کرنے لگے۔ابو نے انہیں وہاں لکھی ہوئی ہدایات پڑھ کرسناتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ بچے خاموش ہو گئے تو وہ سب آگے بڑھے۔ وہاں ایک بڑا سا پنجرہ تھا جس میں بے شمار بندر اٹھکیلیاں کررہے تھے۔ ان کی شرارتیں دیکھ کر بچے بہت خوش ہوئے۔
حمزہ نے بندر کو آنکھیں دکھائیں تو اُس نے بھی نقالی کرتے ہوئے حمزہ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں، گویا غصے کا اظہار کررہا ہو۔یہ دیکھ کر ابو کہنے لگے:
’’بندرایک ایسا جانور ہے جو ہوبہو انسانوں کی نقل کرسکتا ہے۔آپ اس کے ساتھ جیسا رویہ اختیار کریں گے یہ بھی ویسا ہی کرے گا۔‘‘
ان کا اگلا ہدف مور کا پنجرہ تھا۔ یہاں ایک موراپنےخوبصورت پنکھ پھیلائے کھڑا تھا۔ یہ بہت دلکش منظر تھا۔ بچے مور کو دیکھ کربہت خوش ہوئے۔
اس کے دوسری جانب پانڈے کا پنجرہ تھا۔ حمزہ نے اسے دیکھا تو اس طرف دوڑ لگا دی۔ اسے دیکھنے کے بعد وہ زیبرے کی طرف بڑھے اور پھرریچھ دیکھا۔
اگلی باری طوطے دیکھنے کی تھی۔ وہ ایک پنجرے کے پاس آئے جس میں خوبصورت رنگ برنگے طوطے میٹھی بولیاں بول رہے تھے۔ ساتھ ہی کبوتروں کا پنجرہ تھا۔اتنے معصوم اور خوبصورت پرندوں کو وہ حیرت سے دیکھتے ہی رہ گئے۔ آگے چلے تو ایک زرافہ اپنی لمبی گردن لیے گھوم رہا تھا۔آمنہ نےاپنے ابّو سے اس کی لمبی گردن کے بارے میں سوال کر دیا کہ اس کی گردن باقی جانوروں کی نسبت اتنی لمبی کیوں ہوتی ہے۔ ابو کہنے لگے، ’’بیٹا! اللہ تعالیٰ نے زرافے کی لمبی گردن بنا کراس کو یہ خوبی عطا کی ہے کہ وہ اس سے درختوں کی اونچی شاخیں توڑ کرکھا سکتاہے۔اس کےعلاوہ یہ اپنی لمبی گردن کی بدولت دورتک دیکھ سکتاہے۔‘‘
کافی سارے جانور دیکھ لینے کے بعد بچے تھک چکے تھے اورانہیں بھوک بھی لگی تھی۔ امی ابو نے قریب ہی ایک جگہ منتخب کی،وہاں دسترخوان لگایا اوروہ سب کھانا کھانے لگے۔
کھانا کھانے کے بعد بچے ہاتھی کی سواری کی ضد کرنے لگے۔آمنہ نے ہاتھی دیکھا تو کہنے لگی،’’ابو جان! یہ ہماری کتاب میں تو بہت چھوٹا نظر آتا ہے،یہاں توبہت بڑا ہے؟‘‘ اس کی بات پر سب مسکرا دیے۔ سب بچوں نے ہاتھی کی سواری کی۔نیچے اترے تو ابو انہیں ہاتھی کی کچھ خصوصیات بتانے لگے:
’’بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ ہاتھی کا وزن ٹن کےحساب سےہوتاہے۔یہ زیادہ ترافریقہ کے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں لوگ ان کی ہڈیوں اور دانتوں سے مختلف زیورات اور برتن بناتے ہیں۔ ہاتھی دانت کے بنے ہوئے زیورات نہایت قیمتی اور دنیا بھر میں مشہور ہیں۔‘‘ ابونے ہاتھی کی طرف اشارہ کرکے انہیں بتایا کہ ہاتھی دانت کا مطلب ہے سامنے والے دو دانت۔ یہ اس کے کھانے کے دانت نہیں ہوتے بلکہ قدرت نے اسے خوبصورت بنانے کے لیے یہ دانت لگائے ہیں۔
ہاتھی کے دانتوں کو دیکھتے ہی آمنہ کو ایک محاورہ یاد آگیا۔ وہ فٹ سے بولی:’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور...‘‘
’’بھئی بہت خوب!‘‘ابو سے داد ملنے پر آمنہ پھولے نہیں سما رہی تھے۔
چڑیا گھر میں آئے ہوئے انہیں کافی وقت گزر چکا تھا۔ بچےمختلف جانوروں اور پرندوں کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوئے۔ اس طرح ان کی سیر ہو گئی اور انہیں مختلف پرندوں اور جانورں کے بارے میں بہت سی معلومات بھی مل گئیں۔ وہ چڑیا گھر کی معلوماتی اور تفریحی سیر ختم کر کے خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیے۔
تبصرے