ریحان ساتویں جماعت کا ایک عام ساطالب علم تھا۔ وہ سکول میں کسی بھی مقابلے میں حصہ لینے سے گھبراتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اس کا کوئی دوست بھی نہیںتھا۔
’’ میرا کوئی دوست نہیں کیونکہ میں خاص نہیں ہوں۔ میں زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ لائبریری میں داخل ہوتے ہوئے اس نے اداس لہجے میں خود کلامی کی تو اس کے کلاس ٹیچر چونک گئے ۔
’’اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ تمہاری اصل پہچان کیا ہے تو اپنی تاریخ پڑھو ۔ہمارے عظیم قائدین نے اپنے اعتماد اورجرا ت سے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ اس زمین کی مٹی میںلاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہے ۔ اس کی آنے والے نسلیں کبھی کمزور نہیں ہو سکتیں۔‘‘
ریحان نے سر ہلاتے ہوئے کتاب تھام لی جس میں پاکستان کی تاریخ روشن لفظوں میں لکھی تھی۔چند دن بعدیومِ پاکستان کی تقریب تھی جس میںبچوںکو مختلف پروگراموں میں حصہ لیتے دیکھ کر وہ پھر اداس ہوگیا تھا۔
’’ واقعی میں عام سا بچہ ہوں۔ دیکھو! یہ سب بچے کیسے اعتماد سے اسٹیج پر اُتر اور چڑھ رہے ہیں اور ایک میں...‘‘ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ہیڈماسٹر صاحب کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم سب آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پورے ہال سے سوال کیا۔ بچے کھڑے ہوکر مختلف جوابات دینے لگے۔ریحان اس سوال کا جواب جانتا تھا۔ وہ اُٹھ کر جواب دینے کے لیے اپنی توانائیاں جمع کرنے لگا۔ ’’آج میں بھی اُٹھ کر جواب دوں گا۔اب میں بھی عام نہیں رہوں گا۔‘‘ یہی سوچتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’جی بیٹا! آپ بتائیے۔ ‘‘
ریحان مائیک ہاتھ میں تھام کربڑے اعتماد سے بولنے لگا۔
’’ 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جسے قرارداد لاہور یا قرار داد پاکستان کہتے ہیں۔ اس تاریخ ساز جلسے میں علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ جس جگہ یہ عظیم جلسہ ہوا اس کی یاد میں مینارِ پاکستان کی تعمیر ہوئی۔ آج کے دن ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم سب پاکستان کا مستقبل ہونے کے ناتے اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔‘‘
ریحان نے جونہی اپنی بات ختم کی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ وہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گیا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ پاکستان کی جادوئی تاریخ نے اس کی عام سی قسمت کوآج خاص بنا دیاہے ۔
تبصرے