زیروویسٹ لائف اسٹائل کے ذریعے ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرااور خوشگوار بناسکتے ہیں۔اس حوالے سے شاہ ویز ماہین کی سبق آموز تحریر
آج اسلام آباد آئے ہوئے ان کا دوسرا دن تھا۔تمام بچے اپنی خالہ جان کے ہاں کچھ دن گزارنے کے لیے آئے تھے۔ موسم بھی خوشگوار تھا ۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو سب بچوں نے سیر پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ خالہ جان نے یہ سنا تو جلدی سے ضروری سامان،پانی کی بوتلیں،چٹائی اور پھل گاڑی میں رکھے اور وہ سب اسلام آبادکے تفریح مقام کی طرف چل پڑے ۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ شکر پڑیاں کے احاطے میں موجود تھے۔
’’بچو! وہ رہا پاکستان مانومنٹ ۔ ‘‘ خالہ جان نے اشارہ کیا تو تمام بچوں نے اس طرف دوڑ لگا دی۔
پھول کی پتیوں کی مانند بنے پاکستان مانومنٹ کو دیکھنے، اس کی تاریخی اہمیت کو جاننے، وہاں پر کچھ تصویریں لینے اور کافی اچھل کود کرنے کے بعدبچے تھک چکے تھے۔ انہیں تازہ دم ہونا تھا جس کے لیےانہوں نے سیڑھیوں کے دامن میں پہنچ کر ایک جگہ منتخب کر کے چٹائی بچھائی اور بیٹھ گئے۔ کھانے پینے کا دور چلا جس کے بعد بچوں نے کولڈ ڈرنکس پر خوب ہاتھ صاف کیے۔
کھانا کھانے کے بعد ہانیہ نے اپنے چھوٹے سے پرس سے ایک ٹافی نکال کراپنے منہ میں ڈا لی اور اس کا ریپر ایک طرف پھینک دیا۔اس کے دیکھا دیکھی باقی بچے بھی ایسا ہی کرنے لگے تو خالہ جان ان کی حرکات نوٹ کرتے ہوئے بولیں:’’ بچو! آپ سب اس خوبصورت جگہ پر بیٹھے موسم، قدرتی نظاروں اور کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ قدرت نے اس جگہ کو کتنا خوبصورت بنایا ہے مگر یہاں کچرا پھیلا کر اس کی خوبصورتی کو ختم کر نا کس قدر بری بات ہے۔ کچرا پھیلانا صرف اس جگہ کے لیے ہی اچھا نہیں ہے بلکہ اس کےمنفی اثرات تمام انسانوں پر بھی پڑتے ہیں۔‘‘
ہانیہ نے خالہ جان کی بات سنی تو پریشان ہو گئی ۔ ساتھ بیٹھے خالو جان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے:’’بچو! کچرا انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔اگراسے مناسب طریقے سے تلف نہ کیا جائے تو یہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن کر انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں صدیوں قبل بھی لوگ صحت اور صفائی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرتےتھے۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب اورٹیکسلا جیسے قدیم شہروں میں بھی سیوریج کے بہترین نظام کے آثار ملتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے گلی محلوں کوصاف ستھرا رکھتے تھے۔ گلیاں کشادہ اور گھر ہوا دار ہوا کرتے تھے۔وادی سندھ کی تہذیب جس کا مرکز موہن جو داڑو تھا، اس میں بھی سیوریج کا بہترین نظام بنایا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم ہی سے انسان کو صحت اورصفائی کی اہمیت سمجھ آگئی تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ ایسے پہلو تہذیبوں کے اہم عناصر ہو تے ہیں۔ آج دنیا میں جس طرح نئی نئی اشیا بن رہی ہیں، کچرا بھی اتنا ہی زیادہ پیدا ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اب اس کو تلف کرنے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر سائنسی اصول اپنائے جارہے ہیں کیونکہ تھوڑی سی غفلت موسمی تبدیلی پر بری طرح اثرانداز ہوسکتی ہے۔‘‘
سب بچے انہماک سے خالو جان کی باتیں سن رہے تھے۔خالو جان نے اس موضوع پر بچوں کی دلچسپی دیکھی تو ایک قصہ سنانے لگے: ’’بچو!1978 میں شمالی کوریا کے دارالحکومت سیول(Seoul) میں واقع دریائے ہن(Han River) کے ایک جزیرے کو کچرا پھینکنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوبصورت جزیرہ کچرے سےبھر گیا۔ پھر وہاں کی انتظامیہ نےنئی ماحولیاتی پالیسی بنائی اور اگلے پانچ سال میں اس جزیرے کو سرسبز باغ میں تبدیل کر دیا۔ چونکہ وہاں زیر زمین کچرا ابھی بھی موجود تھا اس لیے خدشہ تھا کہ اس سے پیدا ہونے والی میتھین گیس انسانوں، نباتات اور حیوانات کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میتھین گیس کو نکالنے کے لیے کنویں بنائے گئے جن سے برآمد شدہ گیس گھروں اور دفاتر کو استعمال کے لیے فراہم کی جانے لگی۔اس طرح زیروویسٹ لائف اسٹائل سے تھوڑے عرصے میں ہی انہوں نے اس جگہ کو کچرے سے پاک کردیا۔ اب سیول میں کچرے کو تلف نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہے۔ اس حکمت عملی کا بنیادی تصور یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بیکار نہیں ہے بلکہ ہر چیز کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔‘‘
’’خالو جان!کیا ہم بھی زیروویسٹ لائف اسٹائل کے ذریعے اپنے ملک سے کچرا ختم کرسکتے ہیں۔‘‘ثنا نے سوال کیا۔
’’بالکل بیٹا!ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں کافی شعور پیدا ہوا ہے۔ لوگ کچرے کو دوبارہ استعمال کررہے ہیں یا ری سائیکل کرکے نئی اشیا بنا رہے ہیں۔ اس سے کچرا ضائع ہونے کے بجائے دوسری اشیا بنانے میں کام آجاتا ہے۔ ہم سب سنجیدگی سے یہ لائف اسٹائل اپنا لیں تو اس سے ماحول پر اچھا اثر پڑے گا۔‘‘
خالو جان کی باتوں نے بچوں پر گہرا اثر کیا۔ ہانیہ چپکے سے اُٹھی، اس نے ٹافیوں کے ریپرز اٹھائے اور ڈسٹ بن میں ڈال دئیے۔ دوسروں نے بھی اس کی تقلید کی اور کولڈڈرنکس کی خالی بوتلوں کو بھی مخصوص کچرادانوں میں پھینک دیا۔ شام کو جب وہ گھر کی طرف روانہ ہورہے تھے تو خالو اور خالہ بہت خوش تھے کیونکہ آج بچوں نے سیر بھی کی تھی اور زندگی کا ایک اہم سبق بھی سیکھا تھا۔
تبصرے