” امی! آپ میری آنکھوں پر روزانہ بوسہ کیوں دیتی ہیں ؟“صارم نے تجسس سے اپنی امی سے پوچھا۔
” کیونکہ مجھے میرے بیٹے کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ “ صارم اپنی امی کی بات سن کر مسکرانے لگا۔
” امی! میرے ہم جماعت بھی یہی کہتے ہیں اور میرے اساتذہ تو کہتے ہیں کہ صارم! تمہاری آنکھوں میں کچھ کر دکھانے کا عزم جھلکتا ہے اور امی جانتی ہیں مجھے اپنی آنکھیں کیوں پسند ہیں ...“
” کیوں... ؟ “ امی کی آنکھوں میں تجسس تھا۔
” کیونکہ میری آنکھیں مجھے میرے بابا کی یاد دلاتی ہیں۔ “
” امی! بابا جان کی آنکھیں بھی نیلی تھیں نا؟ “
” جی صارم! تمہارے بابا کی بھی آنکھیں تمہاری آنکھوں کی طرح گہری اور نیلی تھیں۔ “ صارم کے بابا کے تذکرے پر اس کی امی کی آنکھیں بھرآئیں۔ انہیں اپنے شوہر کی یاد ستانے لگی جنھیں بھارتی فوج پندرہ سال پہلے آزادی کا نعرہ بلند کرنے کے جرم میں اٹھا کر لے گئی تھی اور جن کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ جام شہادت نوش کرچکے ؟
ابھی صارم اور اس کی امی کے درمیان یہ بات چیت جاری ہی تھی کہ پڑوس سے آہ وبقاء کی آوازیں آنے لگیں ۔
” اللہ خیر! ‘‘امی اور صارم دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ سامنے جو منظر تھا وہ دل دہلا دینے والا تھا ۔
دس سال کی معصوم حبا چیخ رہی تھی۔ ”امی! میری آنکھیں جل رہی ہیں۔ کچھ کریں... امی جان کچھ کریں... مجھے کچھ نظر نہیں آرہا... میرے سامنے اندھیرا پھیل گیا ہے۔ “ حبا کی امی بے بسی کے انداز میں کھڑی تھیں۔ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک کر بہہ رہے تھے۔
حبا پڑوس کے گھر میں رہتی تھی۔ صبح جب وہ اپنی امی کے ساتھ بازار جارہی تھی تو ہشاش بشاش تھی۔
جب وہ بازارسے واپس آرہی تھی تو بھارتی فوج نے اچانک دکانداروں پردھاوا بول دیا۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں پر تشدد کیا اور دکانوں کا سامان الٹ پلٹ کرنا شروع کردیا۔ چند نوجوانوں نے ردعمل دکھایا تو ان پر فائرنگ شروع کردی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھارتی فوج کے اَور ٹرک بھی آگئے۔ ان کے ہاتھوں میں ایسی گنیں تھیں جو چھوٹی چھوٹی گولیوں کی بوچھاڑ سے لوگوں کے جسم چھلنی کردیتی تھیں۔انہیں پیلٹ گنیں کہا جاتا ہے۔ حبا بھی ان کی زد میں آگئی۔ اس کی معصوم آنکھوں میں گولیاں پیوست ہوچکی تھیں۔ چہرہ بھی چھلنی تھا۔ اس کی ماں اسے اپنے ہاتھوں میں لیے بڑی مشکل سے گھر پہنچی تھیں اور اب بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھیں۔
” حبا! مَیں صارم ہوں۔ تم مجھے بھائی کہتی ہو نا تو تم میری بات سنو !‘‘ صارم نے آگے بڑھ کر اسےکہا۔
” حبا! تم کشمیر کی بہادر بیٹی ہو، حوصلہ کرو، دشمن ہم پر پیلٹ گنوں کا استعمال ہی اس لیے کرتا ہےتا کہ ہمارے حوصلے پست ہو جائیں۔ ہم ڈرنے والے نہیں۔ ہم اپنی آزادی لے کر رہیں گے۔ “
صارم کی بات سن کر حبا کو کچھ حوصلہ ملا اور اس نے تکلیف کے باوجود رونا بند کردیا ۔ حبا کی حالت دیکھ کر وہاں موجود ہرکسی کا خون کھول اُٹھا تھا۔
صارم نے اپنا بازو ہوا میں لہرایا اوراحتجاج کی صدا بلند کردی۔ وہ بے خوف و خطر بازار کی طرف نکل گیا۔ اس کے ساتھ بہت سے دوسرے کشمیری بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جوں جوں وہ بازار کی طرف بڑھ رہے تھے، لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ بازار میں بھارتی فوج کرفیولگائے، گنیں اٹھائے ہوئے کھڑی تھی۔ کشمیری نہتے تھے مگر کسی کے دل میں کسی قسم کا خوف نہ تھا۔
صارم سب سے آگے تھا۔ لوگوں نے کشمیر اورپاکستان کے جھنڈے بھی نکال کرلہرانے شروع کردیے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘، ’’لے کے رہیں گے آزادی‘‘ ، ’’توڑ کے رہیں گے جبر کی زنجیریں‘‘کے نعرےبلند کرتے وہ سب بازار میں داخل ہوگئے۔
بازاربالکل سنسنان تھا۔ صرف بھارتی فوج کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ ریلی جونہی وہاں پہنچی بھارتی فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جس کی وجہ سے بہت سے کشمیری نوجوان شہید اور زخمی ہوگئے۔ صارم کی نیلی آنکھیں بھی پیلٹ گنوں کی بوچھاڑ سے چھلنی ہوگئیں۔ وہ نیچے گرا لیکن اس آنکھوں میں آزادی کی روشنی کم نہ ہوئی ۔ وہ روشنی جسے بھارتی فوج گزشتہ سات دہائیوں سے ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے، اتنے مظالم کے باجود اس کی تابناکی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہاہے۔
دشمن جتنے بھی کر لے ہم پر ستم
پست نہیں کرسکتا ہمارے عزم
آنکھوں کا نور تو ہے معمولی چیز
آزادی پر وار دیں گے اپنی جانِ عزیز
پیارے بچو!بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہر کشمیری کا یہی عزم ہے۔ دنیا کا کوئی جبر اور ہتھکنڈہ انہیں اپنے اس عزم سےکبھی ہٹا نہ سکے گا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہم سب ان کی جدوجہد آزادی کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہمیں معصوم حبا سے لے کر نیلی آنکھوں والے صارم جیسے ہزاروں بہادر کشمیری بچوں کی قربانیوں کا احساس ہے۔ان سے یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے ہم سب پاکستانی یہ عزم کرتے ہیں کہ ان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ انشا اللہ! کشمیر بنے گا پاکستان۔
تبصرے