وہاں ہمارا گھر بھی بہت سے گھروں کی طرح اونچائی پر واقع تھا ۔ سبزہ زاروں میں گھرے ہمارے علاقے کےارد گرد اونچے پہاڑ،اس کی رونق میں اضافہ کر رہے تھے ۔ ایک طرف گرتا ہوا جھرنا کشمیری گیتوں کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیتا تھا۔
میں وہیں کھڑی ابا کا انتظار کر رہی تھی ۔ میرا پالتو سفید خرگوش قریب ہی اٹھکیلیاں کر رہا تھا اور میری پیاری مرغی کے چُوزے بھی آس پاس دوڑ رہے تھے۔ میں نے ان سب کے الگ الگ نام رکھے ہوئےتھے ۔ وہ میری ایک آواز پر بھاگے چلے آتے تھے۔ مجھے خوف نہیں تھا کہ کوئی بلی ان کا شکار کرلے گی۔
اماں گھر کے وسیع صحن میں بیٹھ کر ایک چادر پر شاندار کڑھائی کرنے میں مصروف تھیں۔سورج اس قدر خوبصورت رنگوں کی کرنیں نچھاور کر رہا تھا کہ ایسے رنگ،رنگوں میں نہیں ملتے اور مزے دار کشمیری پلائو بس پکنے کو تھا ۔ ہم جنتِ نظیر میں رہ رہے تھے۔ مجھے عالمی ادب سے بہت لگائو تھا کہ سالوں پہلے پڑھے گئے ولیم بلیک کے کچھ اشعار یاد آ گئے:
To see a world in a grain of sand
And a heaven in a wild flower
Hold infinity in the palm of your hand
And eternity in an hour
ریت کے ذرے میں کائنات دیکھ لینا
اور ایک جنگلی پھول میں بہشت کا نظارہ کرنا
ابدیت کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں تھام لینا
اور ہمیشگی کو ایک گھنٹے میں جی لینا
میں مسکرا اٹھی تھی۔اپنا حال بھی اسی سے موافقت رکھتا ہوا لگ رہا تھا ۔ابا بس آنے والے تھے اور آج ہم نے دریائے نیلم کے اس پار جاکر چچا جان سے ملنا تھا۔ ابا چونکہ بہت برسوں سے اپنے چھوٹے بھائی سے نہیں ملے تھے اس لیے انہیں گلے لگانے کو بے تاب تھے ۔ وہ اکثر اپنے بچپن کے قصے سناتے ہوئے کبھی ہنس پڑتے اور کبھی رو دیتےتھے۔ میری چچی میری خالہ بھی تھیں اس لیے امی کی آنکھیں بھی اپنی بہن کی محبت میں بار بار بھیگ جاتی تھیں حتیٰ کہ نانا ابو بھی ہماری راہ تکتےرہتے تھے۔مگرمیرے ذہن میں ان کا کوئی دھندلا سا عکس بھی نہیں تھا کیونکہ میری ان کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور امی کے پاس جوتصویریں تھیں ان پر سب نقش ہلکے پڑ چکے تھے۔
میں دیکھ رہی تھی کہ امی جان کالے رنگ کی کشمیری چادر پر محبت سے بار بار ہاتھ پھیرتیں۔
’’ اچھا تو یہ چادر آپ نے اپنی بہن کے لیے تیار کی ہے! ‘‘ میں نے امی کے دل کی بات جان لی تھی اس لیے وہ مسکرا اٹھیں۔
ہم نے ضرورت کا سارا سامان بھی رکھ لیا تھا ۔ کبھی خیال آتا یہ سفر شاید کبھی نہ کٹ پائے، شایدابا کشتی چلاتے چلاتے تھک جائیں۔ میں نے کرب سے آنکھیں مُوند لیں، شام پڑ چکی تھی اور کُہر جمنے لگا تھا۔ قلم کی سیاہی ختم ہو چکی تھی ۔ سردی کی شدت سے سانس کے جو نشانات کھڑکی پر بن رہے تھے ان پر میں اپنی انگلیوں کے پوروں سے شاید’آزادی‘ لکھ رہی تھی۔
امی نے مجھے آواز دی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں اورخیالات کی ڈور ٹوٹ گئی۔ حقیقت کی دنیا تلخ تھی...بہت تلخ !
گھر میں چاول کی بس آخری بوری بچی تھی اور ابا کئی دنوں سے زخمی حالت میں پڑے تھے۔ کچھ دن پہلے بھارتی فوج کی فائرنگ سے ابا اس حال کو پہنچے تھے۔ علاج کے اسباب تو دور کی بات ، ہمارے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ہماری نظروں کے سامنے تو ہیں۔ورنہ کئی بہنیں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے غم میں مبتلا تھیں۔
میں نے ’قرنطینہ‘ کی اصطلاح دو تین سال قبل سنی تھی ، تب یہ لفظ میرے لیے نیا تھا ، بالکل نیا۔یہ بھی سنا تھا کہ دنیا کو کسی وبا نے آن گھیرا ہے ۔ سب اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور ادھر ہمارے کشمیر میں بھارتی فوج سے بڑی کوئی ’’وبا‘‘ نہیں۔اس کی بدولت یہاں کے ہر شہری کا ہر دن قرنطینہ میں گزرتا ہے۔ اکثر اس حالت میں بھی بھارتی فوجی ’تلاشی‘ کے بہانے گھروں میں گھس آتے ہیں۔ عورتوں پر تشدد اور جوان بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم ہرروز اپنے گھروں میں محصور ہوتے ہیں اور اگر کوئی بچہ کھیلنے کی غرض سے اس حصار کو توڑ ڈالے تو پیلٹ گنوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ کیا کبھی دنیا ہماری آواز سنے گی؟یہ سب باتیں جو میں نے پہلے آپ سے کیں یہ میرے اس حسین تصور کا حصہ ہیں جو شاید کبھی حقیقت کے روپ میں ڈھل سکے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن آنکھ کھولوں گی تو مقبوضہ کشمیر میں سورج کی کرنیں ہمیں آزادی کا پیغام سنارہی ہوں گی ۔ مقبوضہ کشمیر کا ہر بچہ یہی خواب دیکھتے دیکھتے سوجاتا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیریوں کے عزم کے سامنے ہر طاقت زیر ہوجائے گی اور پوری وادی آزادی کے سورج کی روشنی سے منور ہوجائے گی!
تبصرے