تقسیم کے فوری بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم ہونے کے باوجود بھارت کی طرف سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی تھیں۔ بھارت کے پاس کشمیر کے پورے علاقے کا کنٹرول نہیں تھا تاہم پاکستان نے اور نہ ہی چین نے اپنے اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو آئینی طور پر اپنے ملک میں ضم کرنے کی کوشش کی۔
برطانیہ چاہتا تھا کہ یہ فیصلہ رجواڑے خود کریں کہ وہ بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان بیانات میں اکثر اس طرح کے اشارے بھی موجود ہوتے تھے کہ ان کی دلی خواہش ہے کہ رجواڑے بھارت یا پاکستان، دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کے ساتھ الحاق کر لیں۔ لیکن تقسیم کے وقت برطانیہ کی طرف سے اس شق کی وضاحت نہ کی گئی کہ کشمیر کو بھارت یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ الحاق پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ اسی ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لارڈماؤنٹ بیٹن جو نہرو کے دوست تھے، نے نہرو کی ایما پر وزیراعظم برطانیہ پرزور دیا اور شقوں کی وضاحت نہیں کرنے دی جس کے نتیجے میں بھارت نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ جو خودمختار کشمیر کے خواہشمند تھے، پر دباؤ ڈالا اور ان کو مجبوراً بھارت کے ساتھ الحاق کرنا پڑا جبکہ پاکستان نے کشمیری خود مختاری اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا احترام کیا ۔
اکتوبر1949 ء میں جموں کشمیرکے خصوصی حقوق کو انڈین آئین کی دفعہ 370 کے تحت تسلیم کیا گیا تھا جس کی رو سے جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین اور علیحدہ پرچم تھا، جو بھارتی پرچم کے ہمراہ سرکاری عمارات اور گاڑیوں پر لگایا جاتا تھا۔ لیکن 5 اگست 2019 کو بھارت کی پارلیمنٹ میں وزیرداخلہ امیت شاہ نے آئین کی اسی دفعہ کو ختم کرنے اور ریاست کو دو الگ الگ مرکزی انتظام والے علاقوں میں تقسیم کرنے کا بل پیش کیا جو اکثریتی رائے سے منظور ہو گیا۔ اب جموں کشمیر علیحدہ اور لداخ علیحدہ خطہ ہے اور دونوں پر دِلّی کا براہ راست کنٹرول ہے۔ اس شب خون پر بھارتی انتہا پسند اور غاصبانہ ذہنیت کا مزید واویلا یہ تھا کہ کشمیر ایشو سے ''پاکستان فیکٹر ''کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ یہ پراپیگنڈا ایک ایسی چال تھی جس کی آڑ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا گلا گھونٹنا اور تحریک کو طاقت دینے والی آواز کو دبانا مقصود تھا ۔ ہمیشہ سے بھارت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ کشمیر ایشو محض پاکستان کا پیدا کیا گیا ہے ورنہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور کشمیری عوام کی امنگیں اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ بھارتی غاصبانہ ذہنیت کی منافقت ساری دنیا پر اس دن مزید عیاں ہوئی جس دن بھارتی انتہا پسند حکومت کی طرف سے اپنے ہی آئین کی شق 370 کو منسوخ کیا گیا۔ غاصب بھارتی ذہنیت کا خیال تھا گویا اس کاغذی تبدیلی سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان بھلا دی جائے گی اور کشمیریوں کے بے گناہ خون کے نشان مٹا نے ممکن ہوں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ خون ناحق کبھی رائیگاں نہیں جاتا ۔ آج بھی کشمیر کی ماؤں کے چھلنی جگر اور کشمیری یتیم بچوں کی ویران آنکھیں بھارتی دہشت گردی پر نوحہ کناں ہیں ۔ جیسے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ
وطن ہمارا تو اب کربلا بنا ہوا ہے
یزید وقت یہاں پر خدا بنا ہوا ہے
ہماری آنکھوں میں اندوہ ہے اسیری کا
ہماری ماؤں کے سینوں میں دکھ بھرا ہوا ہے
یہی ہے جرم کہ ہیں اہل خطہ کشمیر
ہمارے واسطے جینا سزا بنا ہوا ہے
نہ ہم میں دکھ کی سکت ہے نہ زندگی کی ہے
اور اس پہ شہرِ منافق بلا بنا ہوا ہے
ہماری لاشیں گرا کر ہٹا رہے ہو دھیان
چھپا رہے ہو جو تیرا کیا دھرا ہوا ہے
چمک رہی ہے سیاست ہمارے زخموں پر
ترا منافع یہیں پر کہیں چھپا ہوا ہے
اسے نکالنا اتنا کٹھن ہے تیرے لیے
ہمارا کانٹا ترے تخت میں چبھا ہوا ہے
بدن یہاں ہیں مگر دل ہیں پاک دھرتی پر
ہماری روحوں پہ نقشہ یہی کھنچا ہوا ہے
میں کتنی بار کراہوں میں کتنا چِلاؤں
فسانہ غم دل آپ نے سنا ہوا ہے
کشمیر بلکہ پورے بھارت میں شق 370 کی منسوخی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور مسلسل جاری مذمت نے مودی حکومت کو بتا دیا ہے کہ آزادیِ کشمیر کی جدوجہد، ظلم اور تشدد سے دبانا کسی ظالم حکمران کے بس کی بات نہیں ۔
اب تو خود بھارت کے اندر یہ رائے جڑ پکڑ چکی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندو انتہا پسندی کو ہوا دے کر بھارتی سیکولرازم کے تاثر کو نقصان پہنچایا۔ بھارتی اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھارتی نیک نامی کا کریا کرم جتنا نریندر مودی نے کیا ہے اتنا کوئی اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کے بھی نہیں کر سکتا ۔ ہر چوتھا بھارتی دانشور کہتا پایا گیا ہے کہ نریندر مودی نے ہندوتوا کا نعرہ لگا کر اکھنڈ بھارت اور بھارت کے سیکولر جمہوری ملک ہونے کا پول بھی خود ہی کھول کے رکھ دیا ہے ۔ نریندر مودی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ دنیا کے بدلتے ہوے اکنامک ورلڈ آرڈر میں آج امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو بھارت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے اور یہ کہ کشمیر ایشو روس یوکرین اور حماس اسرائیل جنگ کے مسئلے میں دب کر رہ جائے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی توڑ پھوڑ کی کوششیں بڑھا دیں کہ کوئی ان کا نوٹس نہیں لے گا لیکن اس کی مذموم کوششیں اور سارے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں ۔
کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی دیگر رہنماؤں پر مشتمل نئے سیاسی اتحاد نے الیکشن سے قبل ہی ایک وائٹ پیپر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ بھارت کا قومی نشان اشوک چکر ہے، اور اس پر لکھا ہوا ہے کہ صرف سچ کی جیت ہوتی ہے۔ اس نشان کو باقاعدہ آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم اسی سچ کی بحالی چاہتے ہیں کیونکہ2019 میں 370 کی شق کو منسوخ کر کے آئین کے اسی تقدس کو جھوٹ سے روندا گیا۔
ایک طرف بھارتی غاصب کشمیرکے حوالے سے سے پاکستانی فیکٹر کے خاتمے کا وایلا مچا رہے ہیں اور دوسری طرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں کیا تو ہمیں انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج غزہ اور فلسطینیوں کوہے۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق فاروق عبداللہ نے بھارت کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''میں نے ہر بار یہ ہی کہا ہے۔ واجپائی جی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے۔ ہم پڑوسیوں کے ساتھ مل کر رہیں گے تو دونوں ترقی کریں گے۔ اگر ہم دشمنی نبھاتے رہے تو تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔'' فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ مودی جی نے بھی حال ہی میں یہ کہا تھا کہ جنگ کوئی حل نہیں ہے، مسائل کو بات چیت سے حل کرنا ہوگا ، وہ بات چیت کہاں ہے؟ نریندر مودی کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا ہے کہ بھارت کے تعلقات امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے مزید بہتر ہوئے ہیں ۔ کینیڈا میں بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی 'را' کے ہاتھوں کینیڈین شہریوں کے قتل کے معاملے پر کینیڈا ، امریکہ اور برطانیہ تینوں ممالک کا شدید احتجاج سامنے آیا ہے ۔ یہاں تک کہ تجارتی تعلقات تک ختم کرنے کی آوازیں سنائی دی ہیں۔ انہیں حالات میں برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں کی میرپور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے دوروں اور ان کے کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار سے اگر ایک طرف بھارت کو شدیدتکلیف پہنچی ہے تو دوسری طرف کشمیر کے ساتھ ریاست ِ پاکستان اور پاکستانیوں کے اظہار یکجہتی نے اب بھی غاصب بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ ہرسال 5 فروری کا دن کشمیریوں سے یکجہتی کی علامت بن چکا ہے ۔ اس روز سارا پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں تجدید عہد کرتا ہے۔ پوری دنیا میں رہنے والے پاکستانی اور کشمیری جدوجہد آزادی کی تنظیموں کے شانہ بہ شانہ آزادی کے لیے جان و مال ، عزت و آبرو کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھارت کی طرف سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پاما لیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اس دن ہر سال مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ جدوجہد آزادی میں تنہا نہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام اپنی پوری محبت ، خلوص ِ دل ، جذبے اور توانائی سے ان کے ساتھ ہیں اور کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کشمیریوں کو بھارتی غاصبوں سے مکمل طور پر آزادی نہیں مل جاتی۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے