(سیاچن کے یخ بستہ اور بلند محاذ پر خدمات سرانجام دینے والے کیپٹن اقبال کی شہادت کے تناظر میں لکھی گئی تحریر)
وادیٔ شگر کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کے پھڑپھڑانے کی مدھم آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر دور افق پر ہیلی کاپٹروں کی کنوپی پر لگی سرخ جلتی بجھتی روشنیوں سے اندازہ ہوا کہ وہ اب جلد پہنچ جائیں گے۔
آج اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو رہا تھا جو پچھلے بیس دنوں سے سیاہ کانگڑی ، گوڈون آسٹین گلیشیئر اور سکردو میں جاری تھا۔ ہیلی کاپٹر جب سکردو ایوی ایشن بیس پر اترے تو مغرب کی اذانوں کی آوازیں اطراف کے برف پوش پہاڑوں سے ٹکرا کر باز گشت کی صورت میں واپس آ رہی تھیں اور ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔شہیدوں کے جسم لامہ ہیلی کاپٹروں کے لینڈنگ والے فریم کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ پائلٹوں نے انجن سوئچ آف کئے تو ہم نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور انہیں اس مشن کو کامیابی سے سرانجام دینے پر شاباش دی۔ کیپٹن اقبال اور کیپٹن ڈاکٹر علی، ان دونوں نوجوان افسروں کی وجہ سے ہی شہیدوں کو واپس لانا ممکن ہوا تھا۔
شہیدوں کے اجسام سلیپنگ بیگز میں لپٹے ہوئے تھے ان کو نہایت احترام سے ہیلی کاپٹروں کے فریم سے علیحدہ کر کے سٹریچروں پر رکھا گیا۔ ڈاکٹر نے بیگ کھول کر ان کے چہروں کو آشکار کیا تاکہ جسموں کی حالت کا اندازہ ہو سکے۔ یہ تمام شہدا پچھلے بیس دن منوں برف کے نیچے دفن رہے تھے۔ جب ان کے چہرے کھولے گئے تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ تمام شہیدوں کے ناک اور منہ سے تازہ خون جاری تھا اور سب چہرے پرسکون تھے۔ کسی چہرے پر تکلیف یا ملال کے آثار نہیں تھے۔ یوں محسوس ہوا جیسے سب شہید وطن کی خاطر سرمایہ تن ٹھکانے لگنے پر مطمئن تھے۔ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی آوازیں ٹارمک پر گونجنے لگیں۔
اسی اثنا میں دیوسائی کے جنگلی پھولوں کی خوشبو سے لدی ایک ہوا سدپارہ جھیل کے پانیوں سے ٹھنڈک لے کر سکردو کی وادی میں اتری اور شہیدوں کے جسموں سے لپٹ گئی۔ پھولوں کی خوشبو ان کے پاس چھوڑ کر اور لہو کی خوشبو ساتھ لے کر آسمانوں میں چڑھ گئی۔ اسی طرح کی ایک ہوا یوم عاشور کو عصر کے بعد کربلا کے میدان میں بھی اُتری تھی اور شہیدوں کے خاک و خون میں ڈوبے جسموں سے لپٹ کر ان کے لہو کی خوشبو ساتھ لے کر آسمانوں پر چلی گئی تھی۔ جب تک شہیدوں کے تابوت تیار ہوتے ہم نے مغرب کی نماز ادا کرلی اور پھر نماز جنازہ کا اعلان کر دیا گیا۔ نماز جنازہ کے بعد ایک چاق چوبند دستے نے شہیدوں کو سلامی دی اور پھر تمام شہیدوں کو پہلے سے تیار ایمبولینسوں میں رکھ کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کے گھروں کو روانہ کر دیا گیا۔
واپسی پر کیپٹن اقبال اور کیپٹن علی بھی میرے ساتھ چلے آئے اور راستہ بھر اس ریسکیوکے بارے میں حیران کن باتیں بتاتے رہے۔ میں نے اقبال اور علی کو میس چھوڑا اور اگلے دن اپنے دفتر آنے کا کہا تاکہ تفصیل سے بات ہو سکے۔سکردو کا بریگیڈ ہیڈکوارٹر K2 اور سیاچن کے محاذ کے دفاع کا ذمہ دار ہے اور یہاں کے انتظامی اُمور کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ یہاں ہماری لڑائی دشمن کے ساتھ ساتھ موسم سے بھی ہے۔ دشمن کے عزائم کی تو ہمیں خبر رہتی تھی لیکن موسم بعض اوقات ایسا وار کر جاتا جس کی نہ توقع ہوتی اور نہ ہی تیاری، اسی لیے میں جب رات کو سونے کے لیے لیٹتا تو ٹیلی فون میرے سرہانے دھرا رہتا۔ میں نے اپنے دماغ کی ایسی تربیت کر لی تھی کہ مکمل نیند کے دوران بھی ایک آدھ چینل کھلا رہتا کیونکہ کسی بھی وقت کسی بھی طرح کی اطلاع آ سکتی تھی۔
یہ ایسی ہی ایک رات تھی جب تقریباً اڑھائی بجے فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت بجنے والی گھنٹی عموماً خطرے کی ہوتی تھی۔ میں نے فون اٹھایا تو آفیسر کمانڈنگ ذلو کمپنی جو بلتورو سیکٹر کے انچارج تھے لائن پر موجود تھے۔ ان کے سلام کرنے کے انداز سے بے چینی ٹپک رہی تھی۔ میں نے انہیں بولنے دیا۔ وہ بتانے لگے کہ تقریباً پندرہ منٹ پہلے اقبال پوسٹ پر برف کی ایک بہت بڑی سلائیڈ گری ہے اور تب سے اس پوسٹ پر موجود این ایل آئی کے جوانوں سے رابطہ منقطع ہے۔
ایک سرچ پارٹی جائے وقوعہ پر مزید معلومات لینے کے لیے بھیج دی گئی ہے۔ میں نے اس حادثے کے متعلق دستیاب معلومات کا متعلقہ لوگوں کے ساتھ تبادلہ کیا اور آفیسر کمانڈنگ ایوی ایشن اسکواڈرن کو بتایا کہ صبح کی پہلی روشنی کے ساتھ موسم کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک مشن اقبال پوسٹ کی طرف روانہ کریں تاکہ حالات کا جائزہ لیا جا سکے۔
مختلف انتظامی امور کا جائزہ لیتے ہوئے صبح ہو گئی۔ میں نے ناشتہ کیا، یونیفارم پہنا اور سکردو ایوی ایشن بیس پہنچ گیا جہاں ایک لامہ ہیلی کاپٹر جسے میجر جعفر اڑا رہے تھے، اقبال پوسٹ جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ ہم نے ٹیک آف کیا اور وادیٔ شگر میں اتر کر دریائے شگر کے اوپر پرواز کرنے لگے۔اشکولے کی آخری انسانی آبادی سے گزر کر اردو کس پہنچے تو پہاڑ کی چوٹی پر جہاں سے برف شروع ہوتی تھی، چھ سات دھبے حرکت کرتے نظر آئے۔ ہم ذرا نزدیک ہوئے تو وہ مارخور تھے جو خوراک کی تلاش میں برفوں سے نیچے اتر آئے تھے۔
گورے ٹو کے نزدیک بالتورو گلیشیئر کی مورین پر کافی تعداد میں کوہ پیما اور ٹریکر، جن کا تعلق علاقے میں موجود مختلف مہمات سے تھا، رواں دواں نظر آئے۔ گورے ٹو پر رک کر ہم نے اضافی سیٹوں ، سامان اور ٹیکنیشن کو اتار دیا کیونکہ جس بلندی پر ہم پرواز کرنے والے تھے وہاں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوا بہت پتلی ہو جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر کو مطلوبہ طاقت مہیا نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام غیر ضروری بوجھ اتار کر ہم نے دوبارہ اڑان بھری اور بالتورو گلیشیئر پرپرواز کرتے ہوئے کنکورڈیا پہنچے جہاں K2 کی خوبصورت چوٹی اپنی پوری ہیبت کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ یہاں سے ہم دائیں مڑ کر گوڈون آسٹین گلیشیئرپر محو پرواز ہوئے۔
جوں جوں ہم بلندی پر جا رہے تھے، ہیلی کاپٹر کی طاقت میں کمی آ رہی تھی۔ کانوے سیڈل پر پہنچے تو ہم دشمن کی نگاہ میں بھی آ چکے تھے۔ بائیں جانب سیاہ کانگڑی کی وہ ڈھلوان نظر آ رہی تھی جہاں اقبال پوسٹ قائم تھی۔ وہاں تازہ سلائیڈ کے نشانات تو تھے مگر کسی قسم کی زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔حتیٰ کہ اقبال پوسٹ کی اصل جگہ کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ہم نے ہر ممکنہ زاویے سے جائے وقوعہ کو دیکھا ،مگر بے سود۔ زیادہ دیر تک ہوا میں دشمن کے سامنے رہنا بھی خطرناک ہو سکتا تھا اس لیے ہم واپس گورے ٹو آگئے جہاں ہیلی کاپٹر میں سیٹیں وغیرہ دوبارہ لگائی جانی تھیں۔ اس دوران ہم اگلو میں آ کر بیٹھ گئے اور مٹی کے تیل پہ تیار کی گئی چائے ہمیں پیش کر دی گئی۔
کانوے سیڈل سے جو سرچ پارٹی بھیجی گئی تھی اس کی رپورٹ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ اقبال پوسٹ اور اس تک جانے والے راستوں کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ اگلے دن بریگیڈ کمانڈر کے ساتھ اگلے لائحہ عمل کے بارے میں گفتگو کے بعد طے یہ پایا کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ برف میں دبے شہیدوں کو بیس پچیس فٹ برف کھود کر نکالا جائے۔ کسی قسم کی مشینری وہاں لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سارا کام ہاتھ سے ہونا تھا اور سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس کام کی نگرانی کون کرے گا۔
اس وقت پورے محاذ پر سب سے بہترین کوہ پیما کیپٹن اقبال تھے اور ان کو سیاچن کے محاذ پر مختلف آپریشنز میں عمدہ کارکردگی پر تمغۂ بسالت بھی مل چکا تھا۔ اقبال پوسٹ انہوں نے ہی پچھلے سال قائم کی تھی۔ ان دنوں وہ اپنی یونٹ کے ساتھ اول تھنگ تھانگ کے علاقے میں تعینات تھے۔ فوراً ہی ان کو بلاوا بھیجا گیا اور کام کی نوعیت کے بارے میں بھی بتا دیا گیا تاکہ اگلی صبح وہ اپنا پلان پیش کر سکیں۔ اسی دوران جائے حادثہ تک جانے کا راستہ بھی بنا دیا گیا۔ اگلے دن کیپٹن اقبال نے ایک قابل عمل پلان پیش کیا اور وہ اس کام کے لیے بہت پرعزم دکھائی دیتے تھے کیونکہ انہیں اس بات کا ملال بھی تھا کہ ان کی بنائی ہوئی پوسٹ پر لوگوں کی شہادت ہوئی۔
کپٹن اقبال کو اسی دن گورے ٹو بھجوا دیا گیا۔ یہاں چند دن قیام کے بعد انہوں نے جائے حادثہ پر جانا تھا۔ براہ راست بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر جانا سیریبرل اور پلمونری اوڈیما جیسی جان لیوا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس دوران کیپٹن علی اور دوسرے جوانوں نے کھدائی کا کام جاری رکھا۔ یہ کام چھوٹے چھوٹے وقفوں میں کیا جاتا تھا کیونکہ آکسیجن کی کمی چند ہی منٹوں میں کام کرنے والوں کو تھکاوٹ سے نڈھال کر دیتی اور سانس اکھڑنے لگتااور پھر کیپٹن اقبال بھی موقع پر پہنچ گئے اور کام میں تیزی آ گئی اقبال نے شہدا کو برف سے نکالنے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ ہر طرح کے موسمی حالات میں کھدائی کا کام جاری رکھا۔ ایسے مواقع بھی آئے جب جوان ہمت ہار گئے لیکن کیپٹن اقبال اور کیپٹن علی ڈٹے رہے اور بالآخر اس حادثے کے چودھویں دن خبر ملی کہ ہم شہداء کے خیمے تک پہنچ گئے ہیں۔ اگلے دو دنوں میں تمام شہداء کو برف سے نکال لیا گیا۔
جائے حادثہ سے شہداء کو ایسی جگہ منتقل کرنا تھا جہاں ہیلی کاپٹر لینڈ کر سکے۔ ڈھلوان کی وجہ سے برف پر پاؤں جمانا بھی مشکل تھا۔ کیپٹن اقبال نے تمام شہیدوں کو سلیپنگ بیگز میں لپیٹا انہیں رسیوں سے باندھا اور پھر باری باری آہستہ آہستہ شہیدوں کے جسموں کو ڈھلوان پر لٹکا کر رسی خود تھامی اور ایک ایسے راستے پر چلتے ہوئے جس کی چوڑائی بمشکل چند انچ تھی اور جس کے نیچے سے برف ہمہ وقت سرک رہی تھی، ایک محفوظ مقام پر لے آئے۔ اس کام میں مزید تین دن لگے اور پھر یہاں سے شہیدوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سکردو منتقل کر دیا گیا۔
کیپٹن اقبال اور کیپٹن علی جب سکردو واپس آئے تو ان کے چہرے اور کپڑے دھوپ میں جھلسنے اور اگلو میں جلنے والے مٹی کے تیل کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے تھے اور ہاتھ زخموں سے بھرے ہوئے تھے۔ اقبال نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک ایسا کام سرانجام دیا تھا جو شہیدوں کے ورثا اور فوجی جوانوں کے مورال کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ سب لوگوں نے کیپٹن اقبال اور ان کی ٹیم کی بہت تعریف کی۔بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی جانب سے خصوصی تعریفی خط اقبال کی یونٹ کو بھجوایا گیا۔ انہی دنوں آرمی چیف جب سکردو کے دورے پر آئے تو انہوں نے بھی خصوصی طور پرکیپٹن اقبال سے ملاقات کی اور ان کے کام کی تعریف کی۔
اسی دوران مجھے پاکستانی دستے کے ساتھ بوسنیا میں امن مشن پر بھیج دیا گیا اور پھر مختلف جگہوں پر کام کرنے کے بعد میری ترقی ہو گئی اور مجھے گلگت تعینات کر دیا گیا۔ یہاں میری ذمہ داری انتظامی امور کی تھی۔ سکردو کی طرح یہاں بھی اللہ نے مجھے شہیدوں کی خدمت کا دوبارہ موقع دیا۔ شہیدوں کے کفن دفن، جنازے اور شہیدوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا یہ سب سعادت میرے حصے میں آئی۔ سکردو اور گلگت میں تعیناتی کے دوران مشکل سے ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو گا جب کہیں نہ کہیں کسی نے جام شہادت نوش نہ کیا ہو۔
ان دنوں مجھے بہت سے شہیدوں کو قریب سے دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ایک سال تک برف میں دبے رہنے والے مسکراتے چہروں والے شہید جیسے نہایت اطمینان سے سو گئے ہوں۔
ایک بات جو سب شہیدوں میں مشترک دیکھی وہ یہ کہ سب کے چہرے ایک گہرے اطمینان میں تھے جیسے روزہ کھل گیا ہو، منزل مل گئی ہو، بھوک مٹ گئی ہو، درد تھم گیا ہو اور نیند آگئی ہو۔
''اور شہیدوں کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور رب کے حضور اپنا رزق پاتے ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں(2:154)''
ایک دن میں اپنے دفتر میں دن کے کاموں میں مشغول تھا کہ کیپٹن اقبال آ گئے اور بہت گرم جوشی سے ملے۔ہم چائے کے ساتھ پرانی باتیں کرنے لگے۔ اقبال نے بتایا کہ انھیں گلگت سکاؤٹس میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے K2 سر کرنے کی شدید خواہش کا بھی اظہار کیا۔میں نے ان کی خوب ہمت بندھائی۔ مجھے یقین تھا کہ کیپٹن اقبال میں وہ اہلیت ہے جو نذیر صابر، اشرف امان اور حسن سدپارہ جیسے معروف کوہ پیماؤں میں تھی۔
'2002' کو بین الاقوامی طور پر پہاڑوں کا سال قرار دیا گیا تاکہ پہاڑوں کے نازک اور حساس ماحولیاتی نظام کو نہ صرف بچایا جائے بلکہ اس کو بہتر کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں بہت سی سرگرمیاں ترتیب دی گئیں جن میں ٹریکنگ، کوہ پیمائی اور نمائشیں وغیرہ شامل تھیں۔ پاکستان اور چائنا نے بھی K2 سر کرنے کے لیے ایک مشترکہ مہم ترتیب دی اور کیپٹن اقبال بھی اس مہم کا حصہ تھے۔ جانے سے پہلے وہ مجھے ملنے آئے تو بہت پر جوش تھے۔ دیر تک میرے دفتر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ان کے چہرے پر جو چمک تھی وہ میرے لیے نئی نہیں تھی۔ سیاچن کے محاذ پر رضاکارانہ طور پر آنے والے نوجوان افسروں کو جب میں بریفنگ کے دوران بتاتا کہ آپ میں سے کچھ لوگ زندہ واپس نہیں جائیں گے تو کچھ چہرے چمکنے لگتے اور ان کی آنکھیں ستارہ ہو جاتیں۔ آج اقبال کی آنکھیں میں بھی ستاروں جیسی چمک تھی۔
کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز جون کے پہلے ہفتے میں ہوا۔ یہ لوگ کے ٹو کو آبروزی روٹ سے فتح کرنے نکلے تھے۔ اس مہم میں سولہ لوگ شامل تھے جن میں بارہ چینی اور چار پاکستانی تھے۔ مہم کی قیادت مسٹر سیم ڈرگ کر رہے تھے۔ بیس کیمپ سے لے کر کیمپ نمبر دو تک معاملات اچھے رہے اور موسم بھی سازگار تھا۔ کیمپ نمبر دو سے آگے بلیک پیرامڈ کے علاقے میں موسم خراب ہونے لگا تھا لیکن ٹیم کیمپ نمبر تین تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔یہاں اچانک برفانی طوفان نے شدت اختیار کرلی اور ٹیم کے دو ممبر بیمار پڑ گئے۔اقبال نے ان لوگوں کو کیمپ نمبر دو تک اترنے میں مدد دی۔ اس دوران کچھ اور ممبران بھی بیمار پڑ گئے اور اوپر جانے کے قابل نہ رہے، کیپٹن اقبال ان کے ساتھ کیمپ نمبر تین پر رک گئے جبکہ باقی ممبران اپنی قسمت آزمانے کے لیے چوٹی کی طرف روانہ ہوئے لیکن چمنی سے نیچے طوفان اتنا شدید ہوگیا کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور سانس لینا مشکل ہو گیا۔ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹیم لیڈر نے مہم کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور جب ٹیم کیمپ نمبر تین سے نیچے اتر رہی تھی کیپٹن اقبال نے ایک رسے کے ساتھ اپنے آپ کو ہک کر لیا لیکن رسہ ٹوٹنے کی وجہ سے اقبال بہت بلندی سے نیچے جاگرے اور جاں بحق ہوگئے۔
میں ایک دفعہ پھر سکردو ایوی ایشن بیس پر کھڑا اقبال کا انتظار کر رہا تھا۔ اور پھر ہیلی کاپٹروں کی پھڑپھڑاہٹ اور کنوپی پر لگی جلتی بجھتی سرخ روشنیوں سے اندازہ ہوا کہ وہ پہنچنے والے ہیں۔ جب ہیلی کاپٹر لینڈ کیے تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ اقبال کا جسد خاکی ایک ٹینٹ میں لپٹا ہوا تھا جب اس کا چہرہ کھولا گیا تو اس کے چہرے پر وہی مطمئن مسکراہٹ تھی جو شہیدوں کے چہرے پر میں نے ہمیشہ دیکھی۔ اقبال کو ایمبولینس کے ذریعے گلگت منتقل کر دیا گیا جہاں اس کی بیوی اور بیٹیاں اس کی منتظر تھیں۔
عرصہ بعد فوجی ساز و سامان کی ترسیل کے سلسلے میں مجھے بلتورو سیکٹر جانے کا اتفاق ہوا تو میں اپنے کاموں سے فارغ ہوکر گلکی میموریل پر رک گیا۔ یہ میموریل کے ٹو بیس کیمپ کے نزدیک ایک یادگار ہے اور ایک مقبرہ ہے۔ دنیا بھر کے ان سر پھرے بہادروں کا جو اپنی زمینیں چھوڑ کر یہاں آئے اور اس پہاڑ پر چڑھے تاکہ اللہ کی زمین کا منفرد نظارہ کے ٹو کی چوٹی سے کر سکیں۔
یہ مقبرہ کسی جسم پر نہیں بنایا گیا بلکہ یہ روحوں کا مقبرہ ہے اور اس مقبرے کا تعلق کسی مذہب سے بھی نہیں کیونکہ یہاں جان دینے والے لادین بھی تھے اور ان کا تعلق مختلف مذاہب سے بھی تھا۔ ان بہادروں کا نوحہ اینجلز پیک اور مزتگ ٹاور سے اُترنے والی ٹھنڈی ہوائیں کرتی ہیں اور آسمان اس مقبرے پر برف پاشی کرتا رہتا ہے۔
گلکی میموریل ایک پتھروں کا ڈھیر ہے جسے کوہ پیما آرٹ گلکی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو 1953 میں کے ٹو پر ہلاک ہوگئے تھے۔یہاں ان تمام کوہ پیماؤں کے ناموں کی تختیاں آویزاں ہیں جو کے ٹو پر ہلاک ہوئے۔ کچھ تختیاں تو خصوصی طور پر بنائی گئی ہیں جن پر ان کوہ پیماؤں کی تصاویر بھی بنی ہوئی ہیں اور کچھ محض کسی دیگچے کے ڈھکن پر پتھروں کی ضرب سے نام لکھ کر۔ ایک جگہ مجھے کیپٹن اقبال کے نام کی تختی بھی نظر آگئی۔ وہ شاید ان کی یونٹ نے لگائی تھی یا پھر اس مہم نے جس کا وہ حصہ تھے۔ میں نے وہاں فاتحہ پڑھی اور ان تمام کوہ پیماؤں کے لیے دعا کی جو اس برفانی طلسم کدے کے عشق میں گرفتار ہو کر یہاں آئے اور ان پہاڑوں پر چڑھنے کی خواہش میں جاں بحق ہوئے۔
(اِنَّا لِلّہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)
تبصرے