ماحولیاتی آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء شامل کرنا ہے جن کی وجہ سے ماحول میں منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں واقع ہوں۔ آلودگی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت ہوتی ہے ۔ یہ عام طور پر صنعتی ، کیمیائی مادوں اورتوانائی ) شور ، حرارت یا روشنی) کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کی مختلف اقسام میں فضائی آلودگی ، آبی آلودگی ، صوتی آلودگی اور مٹی کی آلودگی وغیرہ شامل ہیں ۔
فضائی آلودگی کے باعث ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ستر لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں اور معیشت کو پچاس کھرب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے ، گلے اور سانس کی بیماریاں ، فالج اور آنکھوں کی بیماریوں کی بنیادی وجہ بھی فضائی آلودگی ہے ۔
پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کی آبادی دو اعشاریہ چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور آبادی کے بڑھنے کا براہ راست اثر ماحولیات پر بھی ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ماحولیات کے حوالے سے دو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اول ، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں اور جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اگرچہ پاکستان شدید ترین ماحولیاتی مسائل کا سامنا کر رہا ہے لیکن پھر بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے اور متعدد پالیسیساں وضع کی گئی ہیں ۔
پاکستان میں کام کرنے والے ماحولیاتی ادارے
1975 میں پاکستان میں انوائرنمنٹ اینڈ اربن افئیرز ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ملک میں جاری ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا تھا ۔
1987 میں صوبائی پروٹیکشن ایجنسیاں ای پی ایز قائم کی گئیں تاہم یہ وفاق کے ماتحت تھیں۔ اس کے بعد اس شعبے میں کئی اصلاحات لائی گئیں اور پہلی بار باقاعدہ وزارت ماحولیات قائم کی گئی ۔
1997 میں پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل اور پاکستان انوائرئمنٹ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
2019 میں بلین ٹری منصوبے کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھرمیں دس ارب درخت لگانے کا فیصلہ ہوا ۔ اس عرصے کے دوران تقریباً دس ہزار مقامات پر تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار ایکٹر رقبے پر ایک اعشاریہ چار ارب درخت لگائے گئے ۔
پاکستان ہر سال پانچ جون کو عالمی یوم ماحولیات مناتا ہے ، اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ آج سے 51 برس قبل اقوام متحدہ نے 15 دسمبر 1972 کو کیا ۔
2021میں پاکستان کو اقوام متحدہ میں عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا ، یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ دنیا بھر نے پاکستان کی جانب سے بلین ٹری منصوبے کو سراہا اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اسکی کوششوں کا اعتراف کیا ۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کی جانب سے آئندہ دس برس کو ماحولیاتی نظام کاعشرہ قرار دیا گیا ۔
2021 میں ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی ایک ویڈیو کے توسط سے ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے پاکستان کی خدمات کو سراہا کہ پاکستان تین طرح سے ان مسائل سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان نے کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے تمام منصوبے منسوخ کر دئیے ہیں اور اسکی جگہ پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے ۔
2030 تک پاکستان ساٹھ فیصد بجلی قابل تجدید وسائل سے حاصل کرے گا۔ پاکستان درخت لگانے کا عمل شروع کر کے جنگلات کا تحفظ یقینی بنا رہا ہے ۔ پاکستان نے پودوں کی دیکھ بھال سے لے کر جنگلات کی حفاظت تک پچاسی ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا کیں اور پانچ ہزار نوجوانوں کو نیچر گارڈین کے طور پر تیار کیا ہے ۔ پاکستان گرین سپیس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ، اب تک 15نئے نیشنل پارک بنانے میں ایک سو اسی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرچکا ہے ۔پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالر کے یورو بانڈز جاری کیے ہیں جو کہ گرین سپیس کو مالیاتی ویلیو فراہم کریں گے ۔
کلین اینڈ گرین پاکستان میں مختلف سرگرمیاں شامل ہیں جیسے درخت لگانا ، عوامی مقامات کی صفائی ، پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنا اور ری سائکلینگ کو فروغ دینا ۔ حکومت نے لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے ملک گیر بیداری مہم بھی شروع کی ہے ۔ حکومت کی کاوشیں اپنی جگہ جاری و ساری ہیں لیکن بطور پاکستانی ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ آئندہ نسلوں کو کلین ، گرین اور صحت مند پاکستان دے سکیں ۔
مارچ 2023 میں بنائی جانے والی نیشنل ائیر کلین پالیسی کے تحت ملک میں ہوا کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کئے گئے ۔ پالیسی کے تحت بتایا گیا کہ ایک نیشنل ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کی معاونت ایک ٹیکنیکل کمیٹی کرے گی ، اس پالیسی کا مقصد شہریوں کو سانس لینے کے لیے صاف فضا کی فراہمی ہے ۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی) سابق وزارت ماحولیات (نے پالیسی میں یہ بھی تجویز کیا کہ ایندھن کے معیار کو یورو فائیو سے یورو سسکس ، صنعتوں کے اخراج کے لیے کڑے قوانین ، زراعت میں جدت اور فصلوں کے فضلے کے جلانے کے مؤثر تدارک ، کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کے عالمی سطح پر رائج طریقہ ٔکار اور کھانا پکانے میں کم گیسوں کے اخراج والے طریقہ کار کی پذیرائی کی جائے گی اور آئندہ دس سال میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں اوسطاً چالیس فیصد کمی آئے گی ۔
نیشنل ایکشن کمیٹی نہ صرف اس حوالے سے دوررس پالیسی رہنمائی فراہم کرے گی بلکہ ہر پانچ سال بعد پالیسی میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی ۔
قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے ذریعے سے پائیدار ترقی کو فروغ دیا جائے گا اور گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو بتدریج کم کیا جائے گا ۔
پاکستان کا ایک اہم موسمیاتی منصوبہ
Living Indus Initiative and Recharge Pakistan Programme بھی پاکستان کا ایک اہم موسمیاتی منصوبہ ہے جو اقوام متحدہ کے تعاون سے شروع کیا جانے والا پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔
پاکستان کی تین چوتھائی معیشت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے جس کے ماحولیاتی نظام سے کروڑوں لوگوں کی زندگی اور روزگار وابستہ ہے ، پاکستان کے دس بڑے شہروں میں سے نو دریائے سندھ کے کناروں سے 50 کلومیٹر کی حدود میں واقع ہیں جو ملک کی نوے فیصد آبادی کا مسکن ہیں ۔ ملک کی اسی فیصد سے زیادہ قابل کاشت اراضی اسی دریا کے پانی سے سیراب ہوتی ہے ۔
بڑھتی آبادی ، صنعتوں اور کئی طرح کی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی آلودگی اور اسکے موسمیاتی اثرات نے اس دریا کے لیے بہت سے خطرات پیدا کر دئیے ہیں ۔ اس طرح دریا کے اندر اور باہر قدرتی ماحول کے انحطاط کے براہ راست اثرات خوراک کی پیداوار پر مرتب ہو رہے ہیں ۔ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے اجلاس کوپ 28کا آغاز ہوا ۔اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 197 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ۔ یہ کانفرنس تیس نومبر سے بارہ دسمبر تک جاری رہی ۔ حکومت پاکستان نے اس کانفرنس کے مرحلے لیونگ انڈس اینشی ایٹو کے موضوع پر اپنے تحفظات واضح کیے یہاں دریائے سندھ کی اہمیت اور ری چارج پاکستان کے منصوبے کی تفصیلات بھی فراہم کی گئیں ۔
لیونگ انڈس انشیئٹو پروگرام کا مقصد دریائے سندھ کے اطراف کے قدرتی حسن اور آبی حیات کو بحال کرنا ہے ۔ اس منصوبے پر آئندہ پانچ سے پندرہ سال کے دوران گیارہ سے سترہ ارب ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ ہے ۔ ری چارج پاکستان نامی منصوبے میں پائیدار صحت مند ماحول کے قیام کو ترجیح دی جائے گی ، سندھ ، بلوچستان اور کے پی میں ماحولیاتی تحفظ کی بہتری کے لیے سات کروڑ اسی لاکھ ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو گا۔
پاکستان کون سے ماحولیاتی پروگرامز میں شامل اور دستخط کنندہ ہے ۔
پاکستان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے کئی بین الاقوامی اداروں کا رکن بھی ہے ۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کا رکن ہے جبکہ پاکستان مشترکہ ماحولیاتی پروگرام برائے جنوبی ایشیا ایس اے سی ای پی کی رکنیت بھی رکھتا ہے ۔
2002 میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی قدررتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس کے اعلامیہ پر بھی دستخط کئے ہیں ۔
2014 میں پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ جی ایس پی پلس معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے پاکستان ستائیس بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے اور ان معاہدات میں سے سات کا تعلق ماحولیات سے ہے ۔ پاکستان اوزون کی حفاظت کے مونٹریال پروٹوکول ، بین الاقوامی تجارت میں کیمیائی مادوں کی روک تھام کا روٹر ڈیم معاہدہ ،مضر صحت نامیاتی سے روک تھام کا سٹاک ہوم معاہدہ ، آبگاہوں کی حفاظت کا رامسر معاہدہ، زہریلے مادوں کی بین السرحد نقل و حرکت کو روکنے کا باسل معاہدہ ، خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے شکار پر روک تھام کا معاہدہ سائٹس ، صحر زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی ، کیوٹو پروٹوکول (اس معاہدے کے تحت کاربن کا اخراج کرنے والے ان ممالک کو ہر جانہ ادا کریں گے جو اس کاربن اخراج سے متاثر ہو رہے ہیں) کا دستخط کنندہ ہے ۔
2020سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کو آلودگی کی ایک نئی قسم سموگ کا سامنا ہے جو نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر آکسائیڈ ، اوزون ، دھواں ، کوڑا کرکٹ کے باریک ذرات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جبکہ انسانوں کی جانب سے پیدا کردہ سموگ کوئلہ جلانے ، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں ، جنگلات اور دیگر زرعی باقیات کوجلانے اور کوڑا کرکٹ ، پلاسٹک ، چمڑا ، ربڑ وغیرہ کو جلانے سے خارج ہونے والے دھوئیں پر مشتمل ہوتی ہے ۔
صوبائی حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو ضلع و تحصیل کی سطح پر لوگوں کو کوڑا کرکٹ جلانے سے روکنے ، دھان اور دیگر فصلات کی باقیات کو جلانے سے منع کرنے ، دھواں خارج کرنے والی صنعتوں اور فضائی آلودگی کا سبب بننے والے انیٹوں کے بھٹوں کو زبردستی بند کرانے کی سخت ہدایات جاری کر دی ہیں جن کی نگرانی پنجاب ڈیسزاسڑ مینجمنٹ اتھارٹی ، سپارکو ، اربن یونٹ ، لوکل گورنمنٹ اور کیمونٹی ادارے کر رہے ہیں ۔
دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ایڈیشنل انسکپٹر جنرل ٹریفک ۔، محکمہ ٹرانسپورٹ ، بلدیات ، ڈپٹی کمشنرز پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کو ٹاسک دے دئیے گئے ہیں ۔
کلین اینڈ گرین پاکستان میں مختلف سرگرمیاں شامل ہیں جیسے درخت لگانا ، عوامی مقامات کی صفائی ، پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنا اور ری سائکلینگ کو فروغ دینا ۔ حکومت نے لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے ملک گیر بیداری مہم بھی شروع کی ہے ۔ حکومت کی کاوشیں اپنی جگہ جاری و ساری ہیں لیکن بطور پاکستانی ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ آئندہ نسلوں کو کلین ، گرین اور صحت مند پاکستان دے سکیں ۔
مضمون نگار گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور رپورٹر ، محقق اور پروڈیوسر وابستہ ہیں ، کالم اور بلاگس کے ساتھ ساتھ افسانے بھی تحریر کرتی ہیں ۔
[email protected]
تبصرے