یونان کا ایک دولت مند جو بڑا کنجوس تھا، ایک عالم کے پاس پہنچا اوراس سے درخواست کی کہ آپ میرے بچے کی تعلیم وتربیت اپنے ذمے لےلیجیے۔عالم نے پوچھامعاوضہ کیا دو گے؟ دولتمند تاجر نے ایک نظر ان تمام بچوں کو دیکھا جو اس عالم کےزیرتربیت تھے، کوئی لکھنے کی مشق کر رہا تھا، کوئی پڑھ رہا تھا اور چند بیٹھے چٹائیاں اور ٹوکریاں بنا رہے تھے۔ تاجر نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :’’جو کچھ آپ ان سے لیتے ہیں۔ میں بھی وہی دے دوں گا۔‘‘
عالم نے کہا:’’ میں تو ان سے کچھ نہیں لیتا کیونکہ ان کے ماں باپ غریب ہیں۔ وہ کچھ نہیں دے سکتے۔‘‘
تاجر نے پوچھا:’’آپ مجھ سے کیا لیں گے؟‘‘
عالم بولا:’’پانچ سو اشرفیاں۔‘‘یہ سن کر تاجر کو غصّہ آگیا ۔ کہنے لگا میں اس سے کم رقم میں ایک غلام خرید سکتا ہوں۔
عالم نے کہا: ’’ ضرورخرید لیجیے تاکہ آپ دوغلاموں کے مالک بن جائیں۔‘‘
تاجر نے کہا: ’’دو غلام ؟اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘
عالم نے کہا :’’ایک تو نیا غلام جو آپ خریدیں گےاور دوسراخود آپ کا صاحبزادہ ہے۔ کیونکہ جاہل امیربھی جہالت کا غلام ہی ہوتاہے۔‘‘
تاجر یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ پھرحساب لگایا کہ اگرمیرا لڑکا تمیزدار‘عقلمند ہوجائےتواسے عزّت اور مرتبہ ملے گا اوراس طرح سرکاری دربار سے بہت فائدہ اٹھاسکے گا۔ اس لیے یہ سودا بُرا نہیں ہے۔ اِس نے عالم سے کہا:’’ میں آپ کو یہ رقم دینے کےلیے تیار ہوں مگر میرا ایک سوال ہے۔ میں نے سنا تھا کہ آپ کو دنیا کا لالچ نہیں، پھر آپ نےمجھ سے یہ سودے بازی کیوں کی؟‘‘
عالم نے کہا:’’ اپنے لیے نہیں بلکہ صرف اس لیے کہ تم کو علم کی قدر ہو اورتم اہلِ علم کو حقارت سے نہ دیکھو ۔ یہ رقم جو تم ادا کرو گے وہ ان غریب بچوں کے کام آئے گی۔‘‘
ایسے ہی خود داراہل علم نے علم کی قدرومنزلت کواتنا بڑھایا کہ جب سکندراعظم یونان کا فرماںروا بنا اور بڑے بڑے ملک فتح کیے تو جشن فتح میں اس نے اپنے استاد کی اس طرح تعظیم کی کہ ان کے استقبال کےلیے پاپیادہ نکل آیا ۔ استاد کی سواری کے ساتھ چلتارہا اوران کو بڑی عزّت وتکریم سے اتارا اور اپنی مسند پر جگہ دی ۔
کسی نے سکندر سے کہا:’’ آپ نے استاد کی تعظیم ایسے کی کہ کبھی اپنے والدکی بھی اس طرح نہیں کی ہوگی۔‘‘
سکندر نے جواب دیا:’’ اس لیے کہ میرا باپ میری فانی زندگی کا سبب ہے اور میرا استاد میری اس زندگی کا سبب ہے جو باقی رہے گی ۔‘‘
علم اور معلم کی قدر دانی مسلمانوں کی معاشرتی روایت کے عناصر میں شامل ہے۔حضرت امام ابو حنیفہؒ کے صاحبزادے حمّا د نے جب پڑھنا شروع کیا اوران کے استاد نے سورۃالفاتحہ ختم کرائی تو امام ابو حنیفہؒ نے ان کو ایک ہزار درہم ان کی نذرکیے۔ معلم نے امام سےکہا:’’میں نے کون سا بڑا کام کیا ہے کہ آپ اتنی بڑی رقم مجھے دے رہے ہیں؟‘‘
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ نےمیرے بچے کو جو کچھ سکھایا ہے اسے کم مت سمجھو۔ اللہ کی قسم !اگر میرے پاس اس سے زیادہ رقم ہوتی تو وہ بھی میں آپ کو دے دیتا کیونکہ میں جو دولت آپ کو دے رہا ہوں وہ ختم ہوجائے گی مگر جودولت آپ میرے بچے کو دےرہیں وہ صرف باقی ہی نہیں رہے گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی ۔
تبصرے