اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 09:39
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے 
Advertisements

ہلال کڈز اردو

’بریل ‘کی روشنی

جنوری 2024

بصارت سے محروم بہت سے افراد’بریل سسٹم‘ کے ذریعے علم کی روشنی سے منور ہورہے ہیں
’’احمد! آپ کھڑے ہو کر کیوں لکھ رہے ہیں؟‘‘ اُردو کی ٹیچر جب بورڈ پر لکھ کر پلٹیں تو احمد کو کھڑے ہو کر بورڈ سے اِملاء کاپی میں اتارتے دیکھ کر حیران ہی ہوگئیں۔ 
’’ٹیچر! مجھے بیٹھ کر ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔‘‘ احمد نے اپنا چشمہ ٹھیک سے ناک پر جماتے ہوئے بیچارگی سے جواب دیا۔ 
’’لیکن آپ تو پہلے ڈیسک پر بیٹھے ہیں اور آپ سے آگے بھی کوئی نہیں ۔ کیا آپ نے اپنے چشمے کا نمبر چیک کروایا ہے؟‘‘ ٹیچر کےلہجے میں فکر مندی تھی۔
احمد، جو پچھلے مہینے ہی نئے عدسوں والی عینک لگا کر آیا تھا، سوچ میں پڑ گیا۔  ٹیچر فکرمندی سے احمد کو دیکھتی رہ گئیں۔
احمد کلاس پنجم میں پڑھتا تھا۔ پیدائشی طور پر ہی اس کی بینائی کمزور تھی۔  بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے چشمے کانمبر بھی بڑھتا جارہا تھا۔ احمد کے والدین بھی سب پریشان تھے۔احمد بہت ذہین طالب علم تھا اور نصابی کتب کے علاوہ غیرنصابی کتب بھی بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ احمد کے والدین نے اس کی کمزور ہوتی بینائی دیکھتے ہوئے اسے صرف نصابی کتب کے مطالعے کی اجازت دی ہوئی تھی۔احمد کی امی اتنی پریشان تھیں کہ انہوں نے اسے ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل،  اسکرین،  گیمزغرض ہراس چیز سے دور رکھا تھا جس سے اس کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ تاہم، ان سب احتیاطی تدابیر کے بعد بھی احمد کی بینائی کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی تھی۔ 
آج احمد کے والدین اسکول پرنسپل کے سامنے بیٹھے تھے۔ پرنسپل صاحبہ نے ہنگامی بنیاد پر انہیں مشاورت کے لیے بلایا تھا۔ 
وہ گلا کھنکھار کر گویا ہوئیں: ’’ خالد صاحب! احمد کو پھر سے بورڈ صاف نظر نہیں آرہا۔ مجھے اس نے بتایا ہے کہ اس کا نیاچشمہ پچھلے مہینے ہی بن کر آیا ۔ آپ اس سلسلے میں اسے کسی ماہر آئی اسپیشلسٹ کو دکھائیں۔ احمد جیسے ذہین بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ بتدریج کمزور ہوتی بینائی اس کی پڑھائی میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ اتنے ذہین بچے کو اس مشکل میں دیکھنا ہمارے لیے بھی پریشان کن ہے۔‘‘ 
خالد صاحب اور احمد کی والدہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور احمد کی والدہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ 
’’میں ایک ماں ہوں پرنسپل صاحبہ! کیا کچھ نہیں کیا ہم نے، ہر بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گئے لیکن احمد کی بینائی مزید کمزور ہونےسے روک نہیں پائے۔ ‘‘ احمد کی والدہ کے خاموش ہوتے ہی احمد کے والد، خالد صاحب نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’میں جتنے بھی ڈاکٹرز سے ملا ہوں،وہ اس کے علاج کے لیے پُرامید ہیں لیکن ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میرے بیٹے کی ذہانت، اس کا پڑھائی کا شوق، سب متاثر ہورہا ہے۔اب تو اسے کتاب کے الفاظ بھی دکھائی نہیں دیتے...‘‘  احمد کے والد کی آنکھیں بھی سرخ ہوگئیں تاہم ان میں امید کی کرن باقی تھی۔
کمرے میں سناٹا سا پھیل گیا جسے فون کی گھنٹی نے توڑا۔ 
’’ہیلو ‘‘پرنسپل صاحبہ نےفون اٹھایا۔ فون پردوسری طرف نیشنل بک فاؤنڈیشن سے حسن صاحب تھے۔ جانے انہوں نےایسا کیاکہا کہ پرنسپل صاحبہ کے چہرےپر ایک امید بھری مسکان پھیل گئی۔ انہوں نے فون کا اسپیکر آن کر دیا۔ 
حسن صاحب کی آواز کمرے میں گونجنے لگی :’’ہمارے ادارے نے نابینا افراد کی تعلیم کے لیے ’بریل‘ میں نصابی کتب چھاپ لی ہیں۔اس کے ساتھ ہی ایسے اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی ہے جو نابینا یا نیم نابینا بچوں کو ’بریل‘ سکھا ئیں ۔ ہم ایسا ہی ایک تربیت یافتہ استاد آپ کے اسکول میں بھیجنا چاہتے ہیں جس سے بچوں کو ’بریل‘ کے بارے میں جاننے کا موقع ملےگا۔‘‘ 
احمد کے والدین یہ گفتگو بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ پرنسپل صاحبہ نے حسن صاحب سے سوال کیا: 
’’ہمارے اسکول میں ایک بچہ ایسی ہی صورتحال سے گزر رہا ہے، کیا آپ ’بریل‘ اور اس کے طریقہ تعلیم کے بارے میں مزید بتائیں گے؟‘‘
حسن صاحب کی آواز اسپیکر پر گونجنے لگی،کمرے میں موجود سب لوگ ہمہ تن گوش تھے: ’’جی ضرور! بریل دراصل ایک ایسی زبان ہے جس میں چھ نقطوں کی مدد سے سارے الفاظ، علامات، نشان، رنگ ہر چیز لکھی جاسکتی ہے، یہ نقطے ابھرے ہوئے ہوتےہیں جیسے آپ سوئی سےسوراخ کردیں تو وہ سوراخ ہاتھ پھیرنے پر ابھرا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ایک بار جسے بریل آجائے پھر وہ اپنی انگلیوں کے پوروں کی مددسے ہرعبارت پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ کہ وہ بریل میں لکھی ہوئی ہو۔ اب بریل لکھنے کے لیے خاص ٹائپ رائٹرز دستیاب ہیں جن کی بدولت اب طلباء جوابی امتحانات بھی دے سکتے ہیں۔اس طرح اب نظر سے محروم بچے بھی اپنے تمام خواب پورے کرسکیں گے۔ ‘‘ 
حسن صاحب کی آواز تھی یا جیسے کوئی جادوئی چھڑی! وہ کمرہ جو کچھ دیرپہلےسوگواریت کی تصویرتھا اب امید،اورشکرگزاری کا بسیرا تھا۔ 
پرنسپل صاحبہ نے حسن صاحب کا شکریہ ادا کیا ۔ یوں احمد جیسےنہ جانے کتنے ہی بینائی سےمحروم یا متاثرہ افراد ’’بریل‘‘جیسی نعمت کے ذریعے آج علم کی روشنی سے منور ہورہے ہیں۔