گھرمیں خوب چہل پہل تھی۔ مختلف کھانوں کی خوشبو سے پورا گھر مہک رہا تھا۔ ڈاکٹروقار احمد پندرہ سال بعد پاکستان آرہے تھے۔ عباد والد کو لینے ائیرپورٹ روانہ ہوچکا تھا۔ ائیرپورٹ سےاُن کا گاؤں تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر تھا اور اِس چار گھنٹے کے سفر میں اُن کے ماتھے پر کوئی چار سو بَلوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک تو گاؤں کو جانے والی سڑک پر جگہ جگہ گڑھے پڑے تھے اوررہی سہی کسر شدید بارش نے پوری کردی ۔ گاؤں پہنچے تو سب کے خوشی سے چمکتے چہرے دیکھ کر تھوڑی دیر کو ساری ناگواری کہیں پیچھے رہ گئی۔ جب کھانے کی میز پر بیٹھے تو رہی سہی کسروہاں پوری ہوگئی۔ امّاں کے ہاتھ کا گرما گرم ساگ، مکئی کی روٹی، مکھن اور شمسہ بیگم کے ہاتھ کے بنے شامی کباب اورمٹر پلاؤ دیکھ کر سفر کی ساری تھکان دُورہوگئی تھی۔ ڈاکٹر وقار اپنی ڈاکٹری کی ڈگری مکمل کرتے ہی امریکہ چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔عباد، عالیان، حفصہ اورمنال اُن کے بچے تھے۔عباد اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرچکا تھا۔عالیان کا میڈیکل کا آخری سال تھا۔منال کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر چکی تھی اور حفصہ ایف ایس سی میں پڑھتی تھی۔ان کی بیگم شمسہ نے ریاضی میں ماسٹرز کیا ہوا تھا اوروہ گاؤں کے سرکاری اسکول میں پڑھا رہی تھیں اور اپنی زندگی میں بہت خوش تھیں۔ اُن کا شماراُن لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے وطن سے شدید محبت کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر وقار کے اصرار کے باوجود وہ امریکہ شفٹ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔اگلی صبح بہت خوشگوارتھی۔ فجر کی اذان کے ساتھ ڈاکٹر وقار کی آنکھ کھلی۔ بہت عرصے بعد اذان کی آواز کانوں میں پڑی تھی۔ وہ وضو کرکے مسجد میں داخل ہوئے۔ شدید سردی کے باوجود مسجد کی صفیں بھری ہوئی تھیں۔ نماز کے بعد سب اُنہیں بے حد گرم جوشی سے ملے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دل میں خیال آیا کہ یہ محبت، خلوص اور گرم جوشی اتنے سال سے اُن کی زندگی سے دور تھی۔ گھر پہنچے تو گرم گرم پراٹھوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ امّاں جی خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کے لیے آملیٹ بنا رہی تھی اور سب انہیں منع کررہے تھے: ’’بس کریں۔ تھک جائیں گی، طبیعت خراب ہوجائے گی ، ہم پکا لیتی ہیں۔‘‘
’’ارے! تمہیں نہیں پتا وقار کو کیسا آملیٹ پسند ہے۔ کم پیاز اور ہری مرچیں زیادہ!‘‘ امّاں جی کے بوڑھے ہاتھ ہری مرچیں کاٹ رہے تھے۔سب گھر والے اُن کا جوش وخروش دیکھ کرخوش ہورہے تھے۔
’’امّاں جی! میں تو آپ کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی کھائوں گا۔‘‘ ماں کی مامتا دیکھ کر ڈاکٹر وقار کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’آنکھیں ترس گئی تھیں وقار پُتر! بڑا وقت لگایا آنے میں...‘‘ انہوں نے جھریوں بھرے ہاتھ سے نوالہ توڑ کر کانپتے ہاتھوں سے ڈاکٹر وقار کی جانب بڑھایا۔ بچے باپ کو دادی کے ہاتھ سے نوالہ کھاتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
’’ تم سب بھی آجائو! باری باری سب کو کھلاؤں گی۔‘‘ دادی اماں نے چشمہ درست کرتے ہوئے سب کو ہنستےہوئے دیکھ کر کہا۔.....
شام کا وقت تھا اور سب ہی گھر کے بڑے سے صحن میں اکٹھے بیٹھے تھے۔ چائے پی جارہی تھی اورخوش گپیاں لگ رہی تھیں۔اسی دوران ڈاکٹر وقار نے شمسہ سے کہا: ’’ اب تو میری خواہش ہے کہ آپ سب میرے ساتھ امریکہ شفٹ ہوجائیں!‘‘
’’بھئی! ہم یہاں بہت خوش ہیں۔ میرےبچےمُلک کے بہترین کالجز اور یونیورسٹیز سے پڑھے ہیں۔ تیرہ گولڈ میڈلز ہیں عباد کے، عالیان اپنے کالج کا پوزیشن ہولڈر ہے۔‘‘ شمسہ نے جواب دیا۔
’’تیرہ گولڈ میڈلزاورکالج کا پوزیشن ہولڈراس پسماندہ گائوں میں کیا کررہے ہیں؟ ایک دو کمروں کی ڈسپنسری چلا رہا ہے تو تیرہ گولڈ میڈلز والا خستہ حال سکول میں بچوں کو پڑھا رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر وقار کے لہجے میں تمسخر بھی تھا۔
’’دو کمروں کی ڈسپنسری سے روزانہ سو ڈیڑھ سو مریض دوائی لیکر نکلتے ہیں، شفایاب ہوتے ہیں۔ عالیان اپنی چھٹیوں کو بہترین گزار رہا ہے۔ فری ٹائم میں اگر وہ غریب بچوں کو پڑھادیتا ہے تو کیا برائی ہے ؟ ویسے بھی اس سرزمین سے کھایا پیا، پڑھا لکھا اور کام باہر جاکرکریں۔ بھلا یہ کیابات ہوئی ؟یہاں کے لوگوں کو بھی ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر وقار پندرہ دِن کی چھٹی پر آئے تھے اور روزانہ اِسی موضوع پر کچھ نہ کچھ بات ضرور ہوتی۔
.....
ایک رات ڈاکٹر وقار کی آنکھ کھل گئی تھی۔ بارش زوروں پر تھی۔ وہ کمرے سے نکل کر امّاں جی کے کمرے کی طرف بڑھے، کمرے کا دروازہ آدھا کھلا تھا۔ حفصہ اُن کے پیر دبا رہی تھی اور ساتھ ساتھ کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر ایک لمحے میں ہی اُن کا ذہن امریکہ پہنچ گیا۔ وہ بہت سےاولڈ ہومزدیکھ چکے تھے جو بزرگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ بزرگ جن کی آنکھیں دروازے پر اپنے پیاروں کے آنے کی آس میں جمی رہتی تھیں اور وہ پیارے کبھی لوٹ کر نہیں آتے تھے۔ وہیں کھڑے انہوں نے باہر برآمدے میں جھانکا۔ عباد، عالیان اور منال کوئلے جلائے مونگ پھلی کھا رہے تھے۔
’’نیٹ آرہا ہے تمہارا ‘‘عباد نے عالیان کے فون پر جھانکا۔
’’وائی فائی آرہا ہے نہ موبائل ڈیٹا ‘‘عالیان نے بے فکری سے جواب دیا۔
’’ایک ای میل کرنی تھی۔ خیر !صبح ہوجائے گی۔‘‘ عباد بولا۔
یہ لوگ یہاں اپنی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے، بات چیت کرتے اور ہر چیز شیئر کرتے ہیں جبکہ باہر کے ممالک میں تو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ نیٹ، موبائل،سوشل میڈیا نے بے چینی اور افراتفری پھیلا رکھی ہے۔ ڈاکٹر وقار کو ایک کے بعد ایک خیال آرہا تھا۔.....
’’میرے جانے میں چند دن باقی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اِس بار ہم سب ساتھ چلیں۔ ‘‘ ڈاکٹر وقار نے پھر اصرار کیا۔
اُسی لمحے امّاں جی کمرے میں لاٹھی پٹکتے ہوئے داخل ہوئیں۔ وہ کمرے میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔
’’میرا بھائی، نہیں آیا؟ ‘‘ وہ سخت پریشان اور بے چین تھیں۔
’’تمہیں پتا ہے نا وہ ہمارے گھر گھس آئے تھے۔ وہ… بلوائی .....انہوں نے ہمارے سارے جانور مار دیے تھے۔ ہم امّاں امّاں پکارتے بھاگ رہے تھے۔ بہت بھاگے ۔ میرے پیر زخمی ہوگئے تھے۔ دیکھو! ابھی بھی خون نکل رہا ہے۔ پھر وہ ریل گاڑی میں بھی پہنچ گئے تھے۔ ‘‘ وہ بچوں کی طرح رو رہی تھیں۔
’’نہیں،رونا نہیں۔یہ میرا پاکستان ہے۔ میں شکرانے کے نفل ادا کرلوں ۔ کہ میں اپنے پاکستان پہنچ گئی۔ میرا پاکستان سدا سلامت رہے!‘‘امّاں جان کو شاید کوئی پرانا خیال آیا تھا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد بڑی مشکل سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچی تھیں۔ اسی دوران ان کا ایک بھائی بھی ان سے بچھڑ گیا تھا۔ بس اسی کو یاد کرکےکبھی کبھی ان کی یہ حالت ہوجاتی تھی۔منال اُنہیں سہارا دے کراُن کے کمرے میں لے گئی۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔
’’میں تو کہتا ہوں امّاں کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔ وہاں ان کا علاج بھی ہوجائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر وقار نے قریب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’بابا جان! میں امّاں جان کی خوب دیکھ بھال کررہا ہوں۔میں ہرگز اپنے وطن کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔‘‘ عباد کے اختلاف میں ادب جھلک رہا تھا۔
’’سب کچھ ہے یہاں بابا! اپنوں کا پیار، ہمارا پیارا گائوں، یہاں کے باسی، یہاں کی خوبصورتی... یہ سب مجھے بہت پیارے ہیں۔ویسے بھی اب ہمارے نوجوان بہت ذہین اور پُرعزم ہیں۔ وہ پاکستان کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے خوب محنت کررہے ہیں۔ جدید تقاضوں کے مطابق وہ علم حاصل کرکے پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کی ٹھان چکے ہیں۔ ان نوجوانوں میں ایک میں بھی ہوں۔‘‘جذبات کی شدت سے اُس کی آواز بھرا گئی تھی۔
’’یہ کتابی باتیں ہیں۔ ٔ اِن باتوں سے نکل آئو‘‘ ڈاکٹر وقار بولے۔
’’یہ کتابی باتیں نہیں ہیں بابا! ‘‘ عالیان بولا۔
’’بابا! ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے اب عملی کام کررہے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے یہ ملک اِس لیے نہیں بنایا تھاکہ ہم کسی مشکل سے گھبرا کر یہاں سے کہیں اَور چلے جائیں۔ ہم مشکلات کا سامنا کریں گے۔ ہم اپنے ملک کی مِلت کے ستارے ہیں اور ہماری روشنی سے ہی اِس ملک نے چمکنا ہے۔ ہم اپنے ملک کے تمام اندھیروں کو ختم کرکے رہیں گے۔‘‘ تینوں پُرعزم ہوکر بولے تھے۔
اگلے دن ڈاکٹر وقار اپنا سامان باندھ کر امریکہ روانہ ہونے کے لیے تیار تھے۔ عباد اورعالیان اُن کا سارا سامان گاڑی میں رکھ چکے تھے۔ سب افسردہ اور خاموش تھے۔
’’جارہے ہو؟ ‘‘ امّاں جی نے پوچھا۔ ’’ہم ہندوستان سے ہجرت کرکے اپنے وطن پاکستان آئے تھے۔ تم جہاں جارہے ہو، کیا اسے اپنا وطن کہہ سکتے ہو؟ وقار پُتر! غیروں کا علاج کرو گے؟ میرا کون کرے گا؟‘‘ لاٹھی پکڑے وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولیں۔
ڈاکٹر وقار احمد نے ہاتھ میں پکڑا آخری بیگ زمین پر رکھ کر بوڑھی ماں کو گلے لگالیا۔’’امّاں! میں کہیں نہیں جارہا۔ میں آپ کا علاج کروں گا۔ اور ویسے بھی جس مِلت کے مقدر کے ستارے اتنے تابناک ہوں اُسے کون ہرا سکتا ہے۔ ہم سب مل کر یہیں کام کریں گے۔‘‘ دوسرا بازو کھول کرانہوں نے سب بچوں کو گلے لگالیا۔
تبصرے