ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
” شکر! اس بارپھپھو جان اور ان کے بیٹے چھٹیاں گزارنے ہمارے ہاں آرہے ہیں کچھ زندگی میں ہلچل تو آئے گی۔“ عاشر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ عاشر بھائی “فاریہ نے اپنے بھائی کی تائید کی ۔
” اس بار نیوائیرنائٹ میں بھی مزے کریں گے۔ ‘‘
’’میں نے تو پہلے سے پٹاخے بھی لے لیے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے پٹاخے نقصان دہ ہوتے ہیں اس لیے میں نے صرف پھلجھڑیاں لی ہیں۔ “اس سے پہلے کہ فاریہ پٹاخوں پر بڑا سا لیکچر دیتی ،عاشر نے اپنی بات کی وضاحت کردی۔
جب سے فاریہ اور عاشر نے لندن سے اپنی پھپھوجان کے آنے کی خبر سنی تھی وہ دونوں بہت خوش تھے۔
” عاشر بھائی! امی تو مہمانوں کے لیے کھانا پکانے میں مصروف ہیں۔ آئیں! ہم اپنے گھر کی صفائی کر لیتے ہیں۔ “
” ہمارا گھر صاف تو ہے۔ “عاشر نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
” عاشر بھائی! صاف ستھرے لوگ سب کو پسند ہوتے ہیں۔اگر ہم اپنے گھر کو صاف رکھیں گے تو مہمان بھی اچھا محسوس کریں گے۔ “
” ٹھیک ہے چلو پھرصفائی کرتے ہیں! “عاشر نے بیزاری سے کہا۔
” سب سے پہلے ہم اپنے گارڈن میں جاتے ہیں ،پتوں کی تراش خراش کرتے ہیں تاکہ ہمارا چھوٹا سا گارڈن مزید خوبصورت لگے۔ ‘‘ فاریہ نے تجویزدی ۔
عاشر اور فاریہ ایک گھنٹے تک اپنے باغ کو بہتر سے بہتر بنانے کی جستجو کرتے رہے ۔ انہوں نے خوب محنت کی اور ایک ہی گھنٹے میں باغ کا نقشہ بدل گیا۔ان کی محنت اور لگن کی بدولت گھر کا کونہ کونہ چمکنے لگاتھا۔
” واقعی ہمارا گھر کتنا اچھا ہوگیا۔ مہمانوں کو بھی اندازہ ہوگا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔“عاشر اور فاریہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
جب پھپھوجان نے کُھلے دل سے ان کے گھراور خاص طور پر صفائی کی تعریف کی تو ان کو لگا کہ جیسے انہیں اُن کی محنت کا صلہ مل گیا۔
شایان اور ارقم کچھ ہی دیر میں فاریہ اور عاشر کے ساتھ گھل مل گئے ۔
” چلو! کرکٹ کھیلتے ہیں ۔“شایان نے عاشر سے کہا ۔
” کیوں نہیں مجھے تو کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق ہے اور میں اسکول کی کرکٹ ٹیم کا بہترین کھلاڑی ہوں۔ “
” بہترین یا بدترین بھائی ؟ “فاریہ نے عاشر کی ٹانگ کھینچی ۔
” ابھی پتا چل جائے گا کہ کون کتنا اچھا کھلاڑی ہے۔ “ارقم نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
” ہاں ہاں چلو! “عاشر نے جوشیلے انداز میں کہا۔
” لیکن کھیلیں گے کہاں؟ “شایان نے تجسس سے پوچھا ۔
” صحن میں کھیل لیتے ہیں۔ “عاشر نے مشورہ دیا۔
” کیا ہوگیا ہے بھائی یہ ہمارا گھر ہے ۔ اگر گیند لگنے کی وجہ سے کوئی چیز ٹوٹ گئی تو نقصان ہو جائے
گا ۔“فاریہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
” تو پھر کہاں کھیلیں ؟ “
” گھر کے باہر سڑک پر... “فاریہ کے کہنے پر عاشر سب کو باہر کھیلنے کے لیے لے گیا۔
” یہ کیا شایان! تم کوئی بھی شارٹ کیوں نہیں لگا رہے؟یوں تو ہم ارقم اور فاریہ سے ہار جائیں گے۔ “ عاشر نے جھنجلا کرکہا۔
” چوکا چھکا لگاؤں گا تو سڑک کا بلب ٹوٹ جائے گا۔ “
” تو اس کی فکر تم کیوں کررہے ہو یہ کونسا ہمارے گھر کے اندر لگا ہوا ہے۔ “
” تم سے نہیں ہوگا شایان، اب میں جاتا ہوں اور دیکھو کیسے چوکے چھکے مارتا ہوں۔ “ عاشر نے بلّا سنبھالتے ہوئے کہا اور پھر ایک بلند و بالا شاٹ نے بلب کو چکنا چور کردیا ۔
دوسری صبح سب نے ساحل سمندر کی سیر کا پروگرام بنایا۔ سب بہت خوش تھے سب نے اپنی پسند کے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لی تھیں ۔ عاشر نے برگر کھایا اور اس کا کچرا سمندر کنارے چھوڑ دیا۔ پانی کی بوتلیں بھی سمندر کی لہروں کی نذر کردیں۔
” عاشر یہ کیا کررہے ہو؟ کچرے کا ایک شاپنگ بیگ بناؤ اور سارا کچرا اس میں ڈال دو۔ “ عاشر نے ارقم کی بات سنی ان سنی کردی اور اپنی روش پر قائم رہا۔
دوسری صبح سب بچے گھر کے قریب پارک میں چہل قدمی کی غرض سے گئے اور وہاں پر کرکٹ بھی کھیلی ۔عاشر اور فاریہ نے پارک میں موجود بینچوں پر سب کے نام لکھے اور واپسی پربہت سارے پھول بھی توڑلائے ۔امی نے جب یہ دیکھا تو ناراضی کا اظہار کیا۔ ارقم اور شایان بھی اس حرکت پرپریشان تھے۔
فاریہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ عاشر بھی نادم تھا۔
” اب جو ہوا میں اس پر نادم ہوں۔ “ فاریہ نے رنجیدہ آواز میں کہا ۔
” بات بھولنے کی نہیں ہے تمہیں احساس ہونا چاہیے کہ عوامی مقامات ہم سب کے ہوتے ہیں۔ ان کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہر کسی کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے وطن کو اپنے گھر کی طرح صاف رکھنا چاہیے۔ “ امی نے سمجھایا۔
” امی جان! ہمیں اپنے وطن سے بہت محبت ہے۔ “ عاشر اور فاریہ نے یک زبان ہو کر کہا ۔
” اگر ایسی بات ہے تو تم نے سڑیٹ لائٹ کا بلب کیوں توڑا؟ بیٹا! سڑک پرلگا بلب ہمارے گھر کے بلب سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے کیونکہ وہ ہزاروں لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے اور بہت سے حادثات سے بچاتا ہے۔اسی طرح اپنے صحن میں لگے پھول تمہیں بہت پیارے ہیں لیکن عوامی باغ کے پتوں اور پھولوں کو تم بےدردی سے توڑتے ہو۔ اسی طرح اپنے گھر کی دیواروں کو صاف ستھرا رکھتے ہو اور پارک کے بینچوں کو گندا کرتے ہو ۔ اپنے گھر کے کونے کونے کو چمکاتے ہو اور سمندر کے کنارے گندگی پھیلاتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہو۔“
وہ دونوں سر جھکائے دل ہی دل میں پشیمان ہورہے تھےاورساتھ ہی اس بات کا عزم کررہے تھے کہ نئے سال سے وہ دونوں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی املاک، سڑکوں اور پارکوں کا بھی خیال رکھیں گے۔ اپنے گھر کو جس طرح صاف ستھرا رکھتے ہیں اسی طرح اپنے ملک کو صاف رکھیں گے۔ کفایت شعاری اپنائیں گے اور کوڑا کرکٹ اپنے ہاتھوں سے مخصوص کچرادان میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں ایک مہم بھی شروع کریں گے جس کے ذریعے وہ دوسرے بچوں کو بھی ملکی املاک کی حفاظت اور انہیں گھر کی طرح صاف ستھرا رکھنے کی آگاہی دیں گے۔
ساتھیو! پاکستان ہم سب کا گھر ہے۔ ہمیں اس کا خیال اسی طرح رکھنا چاہیے جس طرح ہم اپنے گھر کا رکھتے ہیں۔ یہ وطن ایک باغ کی مانندہے اور آپ اس کے پھول ہیں۔ آپ اپنے دل میں حب الوطنی کی خوشبو اس طرح بسا لیجیے کہ آپ کی شخصیت اور عمل سے ہمارا دیس مہک اُٹھے۔نئےسال کا پیغام ہےکہ
ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
تبصرے