دنیا میں ویسے تو کئی دلچسپ اور عجیب واقعات گزرے ہیں۔ تاہم انیسویں صدی میں انڈین ٹھگوں کی مکاری چالا کی اور پراسرار وارداتوں کا سن کر آج بھی حیرت اور خوف کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں اِن کی موجودگی کب سے ہے، کوئی نہیں جانتا ۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جب انگریز ہندوستان پر اپنی حکومت مضبوط کر رہے تھے ،اس وقت اودھ سے لے کر دکن تک ان ٹھگوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ یہ کوئی عام رہزن نہ تھے مگر کہیں کوئی نشان نہ تھا کہ ان کی کھوج لگائی جاسکے۔ ٹھگوں کے بارے میں پہلی معلومات 1839 میں شائع ہونے والی کتاب "Confessions of a Thug" میں ملتی ہیں۔ اس کے مصنف ، پولیس سپرنٹنڈنٹ فلپ میڈوز ٹیلر تھے ۔ انہوں نے گرفتار ہونے والے ایک ٹھگ سرخیل کے اعترافی بیان کو 550 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں قلمبند کیا ۔ ٹھگوں کے بارے میں پہلی بار منظر عام پر آنے والی حیران کن اور دلچسپ معلومات ہندوستان کی اب تک کی تاریخ میں ایک نیا اضافہ تھا۔ جس کے بارے میں انگریزاب تک بے خبر تھے۔
یہ سلسلہ چلتا رہا اور اتنا مشہور ہوا کہ1959 میں انڈین ٹھگوں پر ایک مقبول فلم "The Stranglers of Bombay" بنائی گئی۔ ان معلومات کے بعد انیسویں صدی میں پہلی مرتبہ انگریزوں کو گمان ہوا کہ ان کا سامنا جن مجرموں سے ہے وہ کوئی معمولی چور یا وارداتی نہیں۔ ان کے واردات کرنے کی منصوبہ بندی ، ترتیب اور مہارت اس قدر منظم تھی کہ مکاری اور چالا کی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ یہ روپ بدل کر جھانسہ دینے اور گلہ گھونٹنے کے ماہر تھے ۔ یہ اپنے شکار کو مارنے کے بعد اجتماعی قبروں میں دفن کرتے اور ان کا مال لوٹ کر فرار ہو جاتے۔ اس دوران وہ کوئی ایسا نشان نہ چھوڑتے جس سے مقتولین کے ورثا کو علم ہو سکے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں اور ان پر کیا مصیبت ٹوٹ پڑی ہے ۔ اس خفیہ طریقے سے واردات کے بعد یہ آبادیوں کا رخ کرتے اور عام لوگوں میں گھل مل جاتے۔
ان معلومات کی بنیاد پر انگریز میجر جنرل ولیم ہنری سلیمن نے ٹھگوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ۔جنہیں بعد میں' سر'کے خطاب سے نوازا گیا مگر ان کا رروائیوں میں پکڑے جانے والے بیشتر انڈین ٹھگوں کا جرم ثابت نہ ہو سکا جنہیں ملائیشیا کے پاس پیناگ جزیرے پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ دوبارہ واردات نہ کر سکیں۔ سامنے آنے والے حقائق کے مطابق انڈین ٹھگوں کا سماجی طرز اور انداز زندگی کسی خفیہ تنظیم سے کم نہ تھا ۔
عام حالات میں یہ مذہبی انداز میں اپنے خاص رسم و رواج اور طور طریقوں کی پابندی کرتے تھے ۔ ان ٹھگوں میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور اونچی ذات کے ہندو بھی شامل تھے۔ یہ ایک سرخیل کی سرپرستی میں منظم طریقے سے واردات ڈالتے تھے ۔ یہسرخیل پڑھے لکھے اور علاقے میں معتبر سمجھے جاتے تھے۔ یہ تو ہمات پر یقین رکھتے اور پوجا پاٹ میں حصہ لیتے تھے۔ متعدد ہندو دیوتائوں اور دیویوں کو ماننے والے یہ ٹھگ "کالی ماتا " سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر وہ اپنے اصولوں کی پابندی کریں گے تو دیوی ماں مہربان ہوگی۔ ان کا پہلا اصول تھا کہ قتل کے دوران خون کا ایک قطرہ نہیں بہنا چاہیے۔ ان وارداتوں کے دوران کسی بچے یا خاتون کو نہ مارنا ان کا دوسرا اصول تھا ۔ بارش اور گرمی کے موسم میں راہگزاروں پر مسافر نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام سے باز رہتے اور سب سے اہم وہ ٹھگی کے اس عمل کے دوران ہونے والے قتل کی گھناؤنی وارداتوں کو ہرگز غلط نہ سمجھتے تھے ۔ وہ ٹھگی اور قتل کی باہمی واردات کو ایک پیشے کی طرح سمجھتے اور بغیر کسی پچھتاوے کے ایک کے بعد دوسرے قتل کے لیے تیار ہو جاتے تھے ۔ یہ دُرگا پوجا سے لے کر ہولی کے تہوار تک اپنے سنگین منصوبوں پر عمل کرتے تھے ۔جن کی تیاری بڑی مستعدی سے کی جاتی تھی۔
یہ ایک گزری داستان ہے ۔ اب جب کے ماحول اور حالات بدل گئے ہیں لیکن ٹھگ کی روایات اب بھی بھارت میں کسی نہ کسی صورت میں بر قرار ہیں۔ پہلے ٹھگ اپنی زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی جان لیتے تھے،آج کے ٹھگ جان تو لیتے ہیں لیکن وہ بھارت میں موجود اقلیتوں کی اور ان ٹھگوں کا سب سے بڑا سردار اور کوئی نہیں بھارت کا اپنا وزیر اعظم ہے۔ پرانے ٹھگوں کی طرح مظلوم اقلیتیں، چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی ،مودی کے بغیر کسی احساس جرم کے عتاب کا شکار ہیں ۔
واردات کے دوران یہ اپنی خصوصی زبان جسے "روماسی" کہا جاتا ہے، میں بات چیت کرتے تا کہ کسی کو ان کے منصوبے کا علم نہ ہو۔ انہیں ذرہ بھی شک ہو جاتا تو یہ واردات کو منسوخ کر دیتے۔یہ بھیس بدل کر اپنے سے طاقتور افراد کو مرعوب کرنے میں ماہر تھے ۔ پلک جھپکتے گلہ گھونٹنے والے اِن ٹھگوں سے ہر کوئی خوفزدہ تھا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے زمیندار بھی ان سے خائف رہتے تھے ۔ وہ اکثران ٹھگوں سے بنا کر رکھتے تھے تاکہ ان کی دولت محفوظ رہے۔ ان ٹھگوں کی تعداد کتنی تھی، کبھی معلوم نہ ہو سکا ۔ اپنے اعترافی بیان میں ٹھگ سرخیل نے پولیس سپرنٹنڈ نٹ کو بتایا تھا کہ اس جیسے سیکڑوں سرخیل تھے جوان ٹھگوں کی کمانڈ کرتے تھے ۔ ان معلومات کے باوجود کون ٹھگ تھا اور کون نہیں، اس پہیلی کو سمجھنا آسان نہ تھا ۔ ان تفصیلات کے مطابق اس وقت انڈین ٹھک ایک بڑے پیمانے پر کام کر رہے تھے۔ ان کی سرکوبی کے لیے انگریزوں نے خفیہ پولیس کا محکمہ تشکیل دیا۔ جو خاص تربیت کے بعد ان کا تعاقب کرتے تھے۔ مگر ان کی پراسراریت اس قدر پیچیدہ تھی کہ اکثرٹھگ نظروں سے اوجھل بھی رہتے تھے۔ یہ خفیہ پولیس کا محکمہ آج بھی بھارت میں انٹیلی جنس بیورو کے نام سے کام کرتا ہے ۔
یہ ایک گزری داستان ہے ۔ اب جب کے ماحول اور حالات بدل گئے ہیں لیکن ٹھگ کی روایات اب بھی بھارت میں کسی نہ کسی صورت میں بر قرار ہیں۔ پہلے ٹھگ اپنی زندگی گزارنے کے لئے لوگوں کی جان لیتے تھے،آج کے ٹھگ جان تو لیتے ہیں لیکن وہ بھارت میں موجود اقلیتوں کی اور ان ٹھگوں کا سب سے بڑا سرخیل اور کوئی نہیں بھارت کا اپنا وزیر اعظم ہے ۔ پرانے ٹھگوں کی طرح مظلوم اقلیتیں چاہے، وہ مسلمان ہوں یا عیسائی ،مودی کے بغیر کسی احساس جرم کے عتاب کا شکار ہیں ۔ دوسری بات کہ ماضی میں ٹھگ جس شخص کو مارنا چاہتے تھے، اسے کسی جاننے والی عورت کے پاس لے جاتے جو اس کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرتی اور غافل جان کر ٹھگ بیچارے مسافر کا گلہ دبادیتے ۔ آج کل بھی بھارت اسی تکنیک پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے اور خوبصوت چہروں اور نخروں سے دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوششمیں مگن ہے ۔ وقت بدل گیا لیکن روایات وہی ہیں!
تبصرے