لٹریچر فیسٹول،ادبی کانفرنس،ادب فیسٹول، مختلف زبانوںکے فیسٹول کا آج کل دور دورہ ہے۔اس قسم کے میلے پہلے بھی ہوتے تھے مگر موجودہ زمانے میں اب یہ فیسٹول نہ صرف یہ کہ بڑے پیمانے پر ہوتے ہیںبلکہ کئی کئی دن جاری رہتے ہیں۔ان میلوں کو لاکھوں روپے کی اسپانسر شپ بھی ملتی ہے۔اس سپانسر شپ سے نہ صرف فیسٹول کے اخراجات پورے ہوتے ہیں بلکہ ان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔موسیقی اور مشاعرے ان میلوں کا لازمی جزو ہیں جن کے شرکا کو رقوم کی ادائیگی بھی اسپانسرز کی طرف سے ملنے والی رقم سے ہوتی ہے۔آمد و رفت ،قیام،طعام و دیگر اخراجات کے لیے یہ مالی تعاون لازمی ہے۔
سپانسرز کی کئی اقسام ہیں،جو میڈیا سپانسر ہیں یا میڈیا پارٹنرز ہیںوہ اپنے اخبار یا چینل پہ اس میلے کی خوب تشہیر کرتے ہیں، کوئی چائے یا کسی قسم کا مشروب سپانسر ہو تو وہ حا ضرین کو مفت چا ئے یا شربت پلاتا ہے۔غرض یہ کہ یہ سپانسر ز اپنے تعاون سے ان فیسٹولز کو کامیاب بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔
بہت سے سیشن جن پر مختلف موضوعات پہ گفتگو،کتابوں کی رونمائی،بک سٹال،مشاعرہ،محفل موسیقی وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔فوڈسٹالز بھی خوب لگے ہوتے ہیں،رونق میلہ لگا رہتا ہے۔ان میلوں کو دیکھ کے ہمیںسبی میلہ یاد آتا ہے۔سبی بلوچستان کا ایک خوبصورت شہر ہے، ہم نے بھی اس میلے میں کئی بار شرکت کی اور پروگراموں کی کمپیرنگ بھی کی ہے۔
جشنسبی کے حوالے سے کا ایک گیت معروف کالم نگار،ڈرامہ نگار اوریا مقبول جان نے لکھا تھاجس کے بول تھے جشن سیوی ،جشن سیوی،جشن سیوی،۔واضح رہے کہ سبی کو سیوی بھی کہتے ہیں۔ سبی جانے کے لیے کراچی سے کوئٹہ فلائٹ جاتی ہے پھر وہاں سے بائی روڈ سبی براستہ بولان پاس جاتے ہیں۔
سبی میلے کا آغاز سب سے پہلے 1885میں ہوا تھا،سبی میلے میں کھیلوں کے مقابلے، میلہ مویشیاں،موسیقی،سب ہی کچھ ہوا کرتا تھا۔پورے پاکستان کے فنکا ر اس میں شرکت کے لیے جا یا کرتے تھے ۔ سبی ایک گرم شہر ہے،بہت گرمی پڑتی ہے، یہاںمیلہ فروری میں لگا کرتا تھا۔آخری بار جب ہم گئے تھے تو عابدہ پروین بھی ہما رے ساتھ گئی تھیں۔انہوں نے بہت رنگ جمایا۔ان کی صوفیانہ گا ئیکی نے سماںباندھ دیا تھا۔
ہاں تو ہم ذکر کر رہے تھے ادبی ثقافتی میلوں کا۔ایک تو لفظ میلہ ہے ہی دلفریب ۔ اس لفظ کے ساتھ ہی ذہن میں جھولے،کھیل،تفریح،رنگا رنگ سٹال،میجک شو،پتلی تماشا،فوڈ سٹال اور دوستوںکے سنگ گھومنا پھرنا آتاہے۔ ادبی میلے ذرا اور طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں جھولے، ہنڈولے نہیں ہوتے، کھیل کود یا تفریح نہیں ہوتی، میجک شو نہیں ہوتا مگر دانشوروں کی گفتگو اور شاعروں کی شاعری کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے، موسیقی کے رنگ ایسے چڑھتے ہیں کہ لگتا ہے بلند جھولے پر چڑھ کے آسماں چھولیں گے، دوستوں کے ساتھ میدانوں میں نہیں بلکہ ایک سیشن سے دوسرے سیشن کے لیے مختلف گوشوں میں ضرور جانا ہوتا ہے۔
کیسی پیاری بات ہے یہ کہ انسان اپنا کلچر، اپنی زبان، اپنی روایات، اپنے طرز ملبوسات، اپنے کھانوں اور اپنی زمین سے جڑی کہانیوں کے کرداروں سے محبت کرتا ہے۔کبھی کبھی تو اپنے آپ کو ان میں سے کسی کردار کا جیتا جاگتا روپ سمجھ لیتا ہے۔ زمین کے پھیلائو میں بسنے والے اپنے اپنے خطے کے اطوار و عادات کے حساب سے زندگی گزارتے ہیں اس کا اظہار اپنی شاعری ، اپنی تحریر، تقریر، تصویر یا روزمرہ کی گفتگو میں کرتے ہیں۔ انہی خوبصورت کیفیات کا اظہار ان ادبی میلوں میں ہوتا ہے جب زبان، ادب ، ثقافت، تاریخ پر اظہار خیال ہوتا ہے۔ معلومات میں اضافہ ، نئے رجحانات پر توجہ، نئے زاویوں سے سوچ کو راستہ دکھانا اور ذہن و قلب کو وسیع کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔
اب ہم آپ کو سکھر میں منعقد ہونے والے پاکستان لٹریچر فیسٹول کا کچھ احوال بتاتے ہیں۔ سکھر فیسٹول ہماری زندگی کا ایک یادگار اور خوبصورت فیسٹیول ہے جس کی مہک سے ہمارا ذہن معطر ہے۔ ایک تو سکھر شہر بہت قدیم ، پُر سکون اور پر امن ہے، دوم وہاں کے لوگ بہت حلیم الطبع ، نفیس، مہمان نواز اور بااخلاق ہیں۔ ہم نے وہاں پانچ دن قیام کیا اور نہایت عمدہ کھانوں سے ہماری تواضع ہوئی ۔ انسان کی زندگی میں دو چیزیں اہم ہیں اول آرام دہ اور پرسکون خوابگاہ اور واش روم جو صاف ستھرا ، جدید اور سہولیات سے مزین ہو، دوم ذائقہ دار ، لذیذ، معیاری کھانا جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔ سکھر کے سفر میں ہمارا قیام نہایت آرادم دہ تھا، IBA سکھر میں ایونٹ تھا اورIBA سکھر کے گیسٹ ہائوس میں ہی ہمیں ٹھہرایا گیا تھا۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلی جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ عمارت اپنے معمار کے ذوق و صلاحیت کی عکاس ہے۔ دور دور تک پھیلا گہرا سبزا، گھنی چھائوں والے درخت، مہکی پھلواری اور چہچہاتے پرندے ماحول کو مزید دلکش بناتے ہیں۔
اب ذرا فیسٹیول پر بھی بات ہوجائے جس میں شرکت کے لیے لاہور کراچی اور اسلام آبادسے مندوبین بائی روڈ سکھر پہنچے کیونکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے قومی ایئر لائن کی سکھر کے لیے تمام فلائٹس کینسل ہو رہی تھیں۔ ہماری بکنگ تھی مگر اس غیر یقینی صورتحال کے باعث ہم نے بذریعہ ریل جانے کا ارادہ کیا۔ہمارے ساتھ آرٹس کونسل کے سٹاف کی چند لڑکیاں بھی تھیں۔ چنانچہ ہم نے ایک سلیپر بُک کرایاٹرین رات دس بجے کراچی کینٹ سٹیشن سے روانہ ہوئی اور صبح5بجے سکھر پہنچ گئی۔ ریل کا یہ سفر یادگار رہا، پاکستان میں ہم نے اپنے بچپن میں ریل کا سفر کیا تھا اب اتنے برسوں بعد ٹرین میں بیٹھے تو عجیب خوف دامن گیر تھا۔
تاہم جیسے ہی ٹرین نے سیٹی بجائی اور پلیٹ فارم چھوڑا ہم پُرسکون ہوگئے۔ راستے میں ٹرین کا کھانا کھانے سے پرہیز کیا اوراپنے ساتھ لائے سپرنگ رول، آلو کے کباب، فرنچ ٹوسٹ اور بریانی کے مزے اُڑائے۔ ہماری ساتھی لڑکیا ں جاگتی رہیں مگر ہم سوتے رہے۔
سکھرمیں حاضرین کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق30-35ہزار تھی جس میں اکثریت طلبہ و طالبات کی تھی۔ ہم نے اپنی پوری زندگی میں ایسا مجمع نہیں دیکھا جو زندہ دل بھی ہو، مہذب اور پڑھا لکھا بھی ہو، اتنی بڑی تعداد میں ہو اور کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہ آئے۔ سکھر والوں کو سلام، اُن سٹوڈنٹس کو سلام، ان کے والدین اور اساتذہ کو سلام جنہوں نے بچوں کی اتنی عمدہ تربیت کی۔
فیسٹیول دو دن جاری رہا۔جس میں بہت سے نامورادیبوں اور اداکاروں نے شرکت کی۔
الغرض اس طرح کے ادبی فیسٹیول منعقد ہوتے رہنے چاہئیں۔ یہ زندگی کی علامت ہیں، یہ ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں، شعور اور نکھار بخشتے ہیں۔ شعور سے ہی قومیں بنتی ہیں۔ ہم پاکستانی بھی ایک پُر امید قوم ہیں جو انشاء اللہ ملک و قوم کو بہت آگے لے کر جائیں گے۔
تبصرے