پاکستان کے بارے میں جنت کا لفظ ہم نے ہوش سنبھالتے ہی اٹھتے بیٹھتے اماں بی کی زبان سے سنا تھا جو تمام عمر بلکہ اب تک جسمانی طور سے تو دِلّی کے ایک محلے میں رہتی ہیں لیکن ان کی ایک ایک سانس پاکستان سے آتی ہوئی ہوا کو اپنے اندر سموتی آئی ہے۔ان کا پل پل پاکستان جیسی جنت کی چاہ میں یوں بیتا ہے کہ آدم و حوا بھی کیا جنت کو یاد کرتے ہوں گے۔
جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اماں بی ہم پانچوں بہن بھائیوں کو اپنے گرد بٹھا کر ایک کہانی چھیڑ دیا کرتی تھیں اماں مراد آبادی منعکس پاندان میں سے سوندھی سوندھی خوشبو والی کراری سی گلوری منہ میں ڈالتیں اور آنکھوں میں ایک عجیب سی حرکت سمو کر کہتیں حشر کے میدان میں اللہ سے پوچھوں گی۔۔۔۔یا میرے مولا !عورت کو اتنی آزادی تو دی ہوتی کہ وہ اپنی مرضی سے رہنے کی جگہ تو منتخب کر سکتی ،اپنے شوہر کے غلط کام کے خلاف قدم تو اٹھا سکتی۔یہ کیا زبردستی ہے بھلا مرد کو لے کے مجازی خدا بنا ڈالا۔۔۔ پھر دیکھنا مجھے دنیا کی تمام بیویوں سے اونچا رتبہ ملے گا کیوں کہ میں نے اس فرمان کے مطابق شوہر کی خاطر بہت بڑی قربانی دی ہے۔
تم لوگ جانتے ہو بچو!کہ تمھارے ابا کی یہ نوکری ،یہ وردی ،یہ گاڑی ، یہ بنگلہ ،نوکر چاکر ،ٹھاٹ باٹھ مجھے ہمیشہ کیوں کلساتے ہیں؟ ان کی خاطر، صرف ان کی خاطر تمھارے ابا نے اس جذبے کو سلا دیا جس جذبے کے تحت ہزاروں بھائیوں نے اپنے سر کٹوائے۔ہزاروں بہنوں نے عصمتوں کی قربانی دی اور تو اور میرے ابا نے جلیانوالہ باغ میں سینے پر گولی کھائی تھی اور مرتے ہوئے کہا تھا:'' میرے یہ لہو لہو جسد کو بے شک یہیں دفنا دینا لیکن میری یہ خون آلود قمیض اس پاک دھرتی پر ضرور لے جانا اور وہاں میری ایک قبر اور بنانااور اس دھرتی سے کہنا کہ اس بد نصیب کے لہو کے ایک ایک قطرے میں آزادی کی تڑپ تھی۔''
یہاں پہنچ کر اماں بی کی آواز بھر اجاتی۔آنکھوں میں ایک جوت سی جلنے لگتی اور ان کے چہرے پر عجیب سی سرخی ہوتی۔ میں سب سے چھوٹی تھی اس لیے ایسی باتوں سے اُلجھ جاتی۔میری طبیعت بیزار ہونے لگتی لیکن۔۔۔آپا بی کی آنکھیں آنسوؤں کے جگنوؤں سے جگمگا رہی ہوتیں۔ بڑے بھیا کا نو عمر خون جوش مار مار کر ان کے گال اور کان دہکانے لگتا ۔منجھلے بھیا بے چینی سے پہلو بدلتے اور میں ۔۔۔مجھے جمائیاں آنے لگتیں۔ اماں بی میرا سراپنی گود میں رکھ لیتیں اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگتیں اور کچھ توقف کے بعد پھر بولنے لگتیں'' تمھارے دونوں ماموں بڑھ چڑھ کر جلسوں میں حصہ لیتے۔ قائد اعظم کی تقریریں سننے دوسرے شہروں میں جاتے اور تمھارے دادا۔۔۔۔اللہ بخشے وہ تو آزادی کے ایسے متوالے تھے کہ سرکاری نوکری تک تج دی اور جب ہندوستان سے چلے تو پاس زادِ راہ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔تمھارے ابا نے ان دنوں علی گڑھ سے ڈگری لی تھی۔مقابلے کا امتحان پاس کیا تھا اور ایک اچھے عہدے پر فائز ہو گئے تھے اور تبھی ان کی شادی مجھ سے ہو گئی۔وہ مسلمانوں کی آزادی کے سخت خلاف تھے ان کے خیال میں بھارت مسلمانوں کا بھی وطن ہے اس لیے اسے چھوڑنا پاگل پن ہے۔وہ خود ایک اچھے مقام پر تھے اس لیے انہیں مسلمانوں کے استحصال کا قطعی کوئی احساس نہیں تھا لیکن تمھارے دادا تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔''
جب پاکستان بنا تو تمھارے دونوں ماموئوں نے سرکاری نوکریاں چھوڑ دیں اور سارا کنبہ پاکستان جانے کو تیار ہو گیا۔ ان دنوں تمھارے ابا دورے پر گئے ہوئے تھے میں نے اندر ہی اندر ساری تیاری کر لی تھی۔اس وقت ہمارے صرف دو ہی بچے تھے۔ تمھارے دادا نے پاکستان جانے کے لیے گاڑی کا انتطام بھی کر لیا تھا۔ہم سب اپنی امنگوں کی اتنی جلد تکمیل پر بہت خوش تھے اور ایک روز جب ہم سب گول کمرے میں بیٹھے پاکستان ہی کی باتیں کر رہے تھے کہ تمھارے ابا دورے سے واپس آگئے ۔وہ بہت غصے میں تھے۔ آتے ہی بولے یہ آپ لوگوں کو کیا سوجھ گئی ہے اپنا گھر بار ،نوکری چاکری ،جائیداد چھوڑ کر آپ آخر کس لیے وہاں جا رہے ہیں ،کس چیز کی کمی ہے آپ کو یہاں ؟ احساس ملکیت کی، آزادی کی اور خود مختاری کی ضرورت ہے ہمیں ۔تمھارے دادا نے جواب دیا۔ ہونہہ ۔ غیر دیس میں یہ سب کچھ مل جائے گا آپ کو ؟ تمھارے ابا نے طنزیہ کہا ۔غیر دیس ؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔پاکستان کو غیر کہہ رہے ہو؟ ارے وہی تو ہمارا اپنا وطن ہے ،تمھارے دادا جوش سے بولے۔
تمھارے ابا نے ایک طنزیہ قہقہہ لگایا تو آپ لوگ آزادی کی پری کی تلاش میں کوہ قاف جا رہے ہیں ۔ وہاں جا کر رہیں گے کہاں؟کھائیں گے کہاں سے؟آزادی کو چاٹیے گا وہاں بیٹھ کر اور ہاں جب اس آزادی سے آپ کا پیٹ نہ بھر سکا تو اطلاع دے دیجیے گا۔ بلوا لوں کا آپ لوگوں کو واپس۔۔۔۔ بکواس بند کرو ۔۔۔خود غرض انسان ۔۔۔تم جیسے اذہان ہی نے اب تک مسلمانوں کو آزاد نہیں ہونے دیا تھا۔ہم وہاں بھوکے رہ لیں گے لیکن واپس اس قید خانے میں نہیں آئیں گے۔ تو ٹھیک ہے آپ سب جائیے ۔۔۔ میں تو اتنا اچھا عہدہ اور جائیداد چھوڑ کر نہیں جا سکتا اور نہ ہی میرے بیوی بچے جائیں گے۔ وہ تلملا کر یہ فیصلہ سنا کر چلے گئے اور میں تیورا کر کھڑے قد سے فرش پر جا گری۔
اور پھر سب چلے گئے۔میں ایک ایک کے آگے گڑگڑائی،روئی، واسطے دیے کہ مجھے بھی لے چلیں لیکن تب ان کے ہاتھ کٹ چکے تھے،زبانیں گنگ ہو چکی تھیں اور ان کے دل تڑپ رہے تھے لیکن اس وقت میری تقدیر کا مالک میرا مجازی خدا تھا اور تب میری اماں نے مجھے گلے لگا کر کہا تھا بیٹا! ہم اب تم پر حق نہیں جتا سکتے ،تم ہمارے لیے پرائی ہو۔ بس یہ یاد رکھنا کہ تمھاری آئندہ نسلیں باپ کی طرح پاکستان کو غیر نہ سمجھیں۔ان کو اس زہر سے بچانا اور ۔۔۔۔مجازی خدا کی رضا ہی حقیقی خدا کی رضا ہوتی ہے اس لیے صبر کرو۔۔۔ تمھارا باپ اپنی مادی آسائشیں نہ چھوڑ سکا لیکن میں نے اپناخواب روند ڈالااور آج بھی وہ مرد اپنے عہدے سے سنگھاسن پر بیٹھا مجھے میرے پاکستان کی جدائی میں تڑپا رہا ہے۔ اماں بی سسکنے لگتیں اور میرے بالوں میں رینگتی ان کی انگلیاں لرزنے لگتیں۔جب میں سمجھدار ہوئی تو مجھے اماں بی کے جذبے کا احساس ہوا۔
پاکستان سے ننھیال و ددھیال دونوں طرف سے خطوط آتے۔ ابا کے والدین اور اماں کی والدہ خدا کو پیاری ہو گئیں ۔ابا کے کلیدی عہدے کی زنجیرنے اماں کو کبھی پاکستان نہ جانے دیا اور اماں لمحہ لمحہ پاکستان کی یاد میں تڑپتی رہیں۔برسوں بیت گئے میرے سب بہن بھائی اپنے اپنے گھر بار والے ہو گئے تھے اور میں ایم اے فائنل ایئر میں تھی کہ ابا مجھے مقابلے کا امتحان دلوانا چاہتے تھے لیکن اماں تو کچھ وجہ جان چکی تھیں اور پھر جانے انہوں نے کیسے ابا کو منا لیا اور میری شادی پاکستان میں ماموں کے ہاں فون پر طے پا گئی لیکن ابا کی شرط تھی میری بیٹی کو بیاہنے انہیں پاکستان سے یہاں آنا ہو گا، ماموں تو شاید کبھی بھی یہاں کا دوبارہ رخ نہ کرتے لیکن شاید اماں کی محرومی کا ازالہ کرنے کی خاطر وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ آئے اور نکاح کروا کے مجھے ساتھ لے گئے۔مجھے یوں لگا جیسے اماں نے اپنی ساری حسرتیں میرے دل میں سمو دی تھیں اور میں اماں کی پیاسی نگاہیں اپنی پیشانی پر سجائے اماں کے سپنیپورے کرنے لاہور ائیر پورٹ پر اتری جہاں سارا خاندان مجھے ریسیو کرنے آیا ہوا تھا۔ میرا ولیمہ بہت دھوم دھام سے ہوا اور سب رشتہ دار کراچی ،ایبٹ آباد اور راولپنڈی چلے گئے۔
ایک روز میرے مجازی خدا نے پوچھا ہنی مون کے لیے کہاں چلیں تو میں نے ہمک کر کہا میں سارا پاکستان دیکھنا چاہتی ہوں۔اس کا چپہ چپہ ۔۔۔۔میدان۔۔ پہاڑ۔۔۔صحرا۔۔۔دریا۔۔۔سمندر۔۔۔ارے بس بس بیوی رک جاؤ یہ ہنی مون تھوڑا مہنگا پڑے گا۔میں اپنی بے قراری پر محجوب سی ہو گئی۔وہ دراصل اماں کو اپنی آنکھوں سے پاکستان دکھانا چاہتی تھی اور پھر سچ مچ میرا ہنی مون چار ماہ پر محیط ہو گیااور میں اماں کی چاہت کی انگلی تھامے ان کا پاکستان دیکھنے نکل کھڑی ہوئی۔ میرے آنسوؤں نے اس دھرتی کو اماں بی کے ہجر کا سارا حال کہہ سنایا۔وہ دھرتی جہاں ہوا صرف ہمارے لیے چلتی ہے۔جس کے بادل صرف ہمارے لیے برستے ہیں۔جس کا سورج ساری حدت ہمارے لیے نچھاور کرتا ہے۔جہاں ہماری انتھک محنت کے بعدہماری ترقی کو کوئی اپنا استحصال نہیں سمجھتا ۔ اور اماں بی کی محبتوں کی امانت ا س دھرتی کو سونپ کر میں ہلکی پھلکی ہو گئی۔ اورپھر میری ازدواجی زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگی۔
ابا میاں ترقی کرتے ہوئے ڈائریکٹر بن گئے، وہ بہت خوش تھے اور اکثر کہتے تمھاری ماں بہت ناشکری ہے تمھارے چچائوں یا ماموئوں نے پاکستان جا کے کیا معرکہ مار لیا ہے، وہی متوسط درجے کی ملازمتیں۔۔۔اور تین کمروں کے گھر۔۔۔اور کیا پایا ہے انہوں نے۔جو ملازمتیں وہ چھوڑ کے گئے تھے ان کے ساتھ کے اب فلیگ والی کار میں پھرتے ہیں۔۔۔تباہ کر لیا ہے میرے جذباتی خاندان نے خود کو۔۔۔۔۔ وہ پیور ریشم کے گائون میں ملبوس امپورٹڈ خوشبور دار تمباکو کو اپنے فرانسیسی پائپ میں بھر کر پلاٹینم کے لائٹر سے سلگاتے ہوئے تاسف سے سر ہلاکر کہتے اور راکنگ چئیرپر جھول جھول کر کش لگانے لگتے۔ اور پھر ترقی کے چوتھے ہی دن ایک ہندو متعصب نے انہیں گولی مار دی اور وہ جو غیر دیس کی صعوبتوں سے خائف تھے، اپنے ہی دیس میںاقلیت کی سز اپا گئے۔
میں ان دنوں ابا میاں کے انتقال پر نہ جا سکی اور تب میں نے اماں کو کہا :اماں بی آپ کے پیروں کی زنجیر تو اب کٹ گئی ہے۔اب تو آپ پاکستان چکر لگا سکتی ہیں۔ آکر سب سے مل جایئے ناں آپ کے عزیزرشتے دار آپ کے لیے بہت بے قرار ہیں۔اماں بی نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا بیٹا جس رشتے کے کارن ہماری زندگی تڑپی ہو، اب اس عمر میں اس کے عہد سے پھر کر اپنی عاقبت کیوں خراب کروں اور میں دو محبتوں کے درمیان پسی ہوئی اس صابر عورت کا حوصلہ دیکھ کر دنگ رہ گئی جو ہمیشہ میرے لیے ایک معمہ بنی رہیں، ایک طرف شوہر کی محبت، آسائشیںاورمعاشرے میں نمایاں مقام سب کے ہوتے ہوئے بھی اماں بی ایک اَن دیکھے دیار کے ہجر میں تڑپتی رہیں اور اب جبکہ پاؤں میں کوئی بیڑی نہیں رہی تو ۔۔۔۔۔بے شک مکتب عشق کے دستور نرالے ہوتے ہیں، سبق یاد کرنے والوں کو کبھی چھٹی نہیں ملتی۔
میں سوچ رہی تھی کہ جب پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو کسی کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ ایک دل ایسا بھی ہے جس نے نہ کسی جلوس کی قیادت کی نہ کسی آنچل کو پرچم بنایا۔نہ سفر آزادی کی صعوبتیں سہیں لیکن جو تمام تر شدتوں کے ساتھ پاکستان کی تعمیر،تشکیل اور ترقی میں اس کے سنگ سنگ رہا ۔اماں بی مجھے پاکستان بھیج کر جیسے شانت ہو گئی تھیں۔ان کی بے قراری کو قرار آگیا تھا۔و ہ میرے قالب میں روح کی طرح موجزن ہو کر پاکستان میں اپنی زندگی جی رہی تھیں۔اور وہاں ان کا مادی وجود اپنے بچوں اور پوتوں پوتیوں کی خوشیوں کے سنگ زندگی بسر کر رہا تھا۔
میرے دو بچے ہو گئے تھے ۔میرے شوہر کو سپیشلائزیشن کے لیے چار سالہ سکالرشپ مل گیا تھا۔اور ہم برطانیہ کے ایک پرسکون شہر برمنگھم میں آگئے۔تب میں نے اماں کو ملنےآنے کے لیے کہااور بھیا نے جھٹ اماں کو روانہ کر دیا۔
میں اور اماں جیسے پھر سے جی اٹھے تھے پھر اماں وقتاً فوقتاً تین تین ماہ کے لیے میرے پاس آتی رہیں ۔اور پھر ہم نے عمرہ اکٹھے کیا۔ان دنوں پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں تھیں۔ان کی سرکوبی کے لیے بڑے جوان اور افسر بر سر پیکار تھے اور شہادتوں کے جام نوش کر رہے تھے۔ملک کے حالات،بگڑتی ہوئی معیشت ،امن و امان ،سیاسی عدم استحکام اور افراط زر کی وجہ سے کافی دِگر گوں تھے کہ پھر مئی کے تپتے مہینے میں نفرت اور شدت پسندی کی ایک ایسی لہر آگئی کہ جس کی تپش نے ہر درد مند دل کو جھلسا دیا۔
مئی کے واقعے کو پڑوسی ملک کے میڈیا نے بہت اچھالا۔اور حسب عادت منفی پروپیگنڈے کے طومار باندھ دیے۔اماں بی بہت مضطرب رہتیں۔ہر وقت پاکستان کے امن اور سلامتی کی دعائیں مانگتی رہتیں۔اب ان کے واپسی کے دن قریب آرہے تھے تو اگست کا دن آگیااور اماں نے میرے بچوں کے ساتھ مل کر خوب گھر کو سجایا اور پکوان پکائے اور پاکستان کی آزادی کا خوب جشن منایا۔ اماں خوشی خوشی روانگی کی تیاری کر رہی تھیں کیونکہ منجھلے بھیا کے بیٹے کی شادی آپا کی بیٹی سے ہونے جا رہی تھی اور اماں بہت خوش تھیں۔پھر پاکستان میں جڑانوالہ کا حادثہ ہو گیا۔۔ہمارے ساتھ ساتھ اماں بھی بہت آزردہ رہتیں ۔مجھے اماں کے جذبوں کو ٹھیس پہنچنے کی فکر رہتی کہ ان کے خوابوں کی بہشت جیسے سلگنے لگی تھی۔
تبھی تو آج ان کی روانگی کے روز میرا دل چاہ رہا تھا کہ اماں واپس نہ جائیں۔کیونکہ اماں کی تمام سہیلیاں پاکستان کے متعلق اماں کی بے قراری پر پہلے ہی بہت جز بز رہتی تھیں۔ اب تو طعنے دے دے کر اماں کا دل دکھائیں گی۔ میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں، اماں کی بہشت کا محل کریش ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔تب اماں کمرے سے نکلیں اور میں میز پر ناشتہ لگائے بیٹھی تھی اور میرے شوہر گاڑی میں سامان رکھ رہے تھے۔ اماں نے بمشکل ایک توس چائے کے ساتھ نگلا اور میری روئی روئی سی آنکھیں دیکھ کر بولیں ۔۔۔کیوں بیٹا اب کی بار اتنے اداس کیوں ہو ،میرے جانے سے۔۔۔۔میں پھر آئوں گی چھ ماہ بعد۔ نہیں اماں بی میں اس لیے پریشان ہوں کہ آپ کی پڑوسن مسز کھوسہ پہلے ہی پاکستان سے آپ کی محبت پر نالاں رہتی ہیں اب پاکستان کے دگر گوں حالات پر جس طرح ان کا میڈیا منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے، کہیں وہ بھی آپ کو طعنے نہ دیں۔پھر آپ کیسے سہہ پائیں گی؟
ارے میری بھولی بٹیا اس لیے کل سے مجھے روکنے پر مصر ہے؟میری بات سن ایک گھر ہوتا ہے ناں، وہاں کبھی خوشی ہوتی ہے کبھی غم ۔۔۔کبھی رزق کی فراوانی ہوتی ہے تو کبھی تنگدستی۔۔۔کبھی آپس میں افراد خانہ کی ناراضی ہوتی ہے تو کبھی صلح صفائی۔۔۔کبھی کبھی گھر کے جوشیلے بچے شدت جذبات اور غم و غصے کی حالت میں شدید رد عمل بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی شیطان کے بہکاوے میں آ کر انسان غلط کام بھی کر جاتا ہے۔تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہآپ گھر چھوڑ دیں۔تمھیں یاد ہے بچپن میں تمھارے منجھلے بھیا کو یہی شکایت رہتی تھی کہ ابا بڑے بھیا کی باتیں زیادہ مانتے ہیں۔ان کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں اسی غصے میں ایک بار اس نے بڑے بھیا کے نئے سوٹ کو قینچی سے کتر کر تباہ کر دیا تھا۔کیا ہم نے اس کو گھر سے نکال دیا تھا؟۔۔۔نہیں ناں سزا دے کر اسے معاف کر دیا تھا۔۔۔۔تو بیٹا ایک ملک میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ان پر دل چھوٹا کرنا اور دوسروں کے سامنے نظریں جھکا کر نادم ہونے سے بہتر ہے کہ ہر سطح پر اپنی اصلاح کی جائے اور ان مسائل پر قابو پایا جائے۔۔۔۔تم نے دیکھا ہر نئے خوشگوار واقعے پر ارباب اختیار سے عوام تک سب نے مذمت کی اور مجرموں کو تنہا کر دیا۔ ارے ہم تو وہاں رہتے ہیں جہاں تنگ نظری ،تعصب ،ذات پات کی منافرت،مذہبی دشمنی ہے۔ ان سب کی پیش نظر خود مودی سرکار کے حکم پر عوام کا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے ۔میں مسز کھوسہ سے کیوں گھبرائوں کیونکہ میرا پاکستان ہر بار مشکل حالات سے اپنی ہمت پر نکلا ہے اور انشااللہ نکلتا رہے گا۔ترقی کرے گا اور قائم بھی رہے گا۔۔۔جس کے عوام درد مند ہو، فوج جفا کش و بہادر ہو،جس کے دل میں ایمان محکم ہو اور جس کے سر' لا الٰہ 'کا سایہ ہو اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
بس احساس زیاں ہونا چاہیے جو ہم میں ہے اور ہم انشااللہ اس خاکداں میں ارض خوباں بسا ئیں گے۔اماں کی حوصلہ افزا باتیں سن کر میریآنکھیں امید اور مسرت سے بھرآئیں۔میں نے اماں بی کے ہاتھ تھام کر ان کی جھریوں بھری پیشانی چوم لی۔ ارے بھئی فلائیٹ لیٹ ہو جائے گی اب چلیں۔باہر سے میرے شوہر کیآواز سنائی دی اور ہم ماں بیٹی ہنستی ہوئی باہر نکل آئیں۔
اپنی بہادر اور محبت کے جذبے سے سرشار ماں کو الوداع کر کے واپس آتے ہوئے میرا من بالکل ہلکا ہو چکا تھا ۔ اگست کے روز کسی پاکستانی چینل کے شاعر سے سنی ہوئی اک نظم کے یہ اشعار میرے لبوں پرآگئے۔
وہ زمیں اہل وطن کی آنکھ جہاں پہ ہے
وہ دیار حسن وہ شہر خوباں کہاں پہ ہے
وہی شہر خوباں دیار خوباں ہے بالیقیں
عافیت کے حصار میں رہیں سب مکیں
اسی شہر خوباں کی مل کے سب کریں جستجو
ہے دلوں میں جس کی ازل سے سب کے ہی آرزو
مگر اب یہ عزم ہے پوری قوم کے ساتھیو !
اسی شہر خوباں دیار حسن کے راہیو !
اسی خاکداں کو بہار رت سے سجائیں گے
اسی ارض پاک پہ شہر خوباں بسائیں گے
انشااللہ
تبصرے