تیرتی ہوئی اس بے بہا کائنات میں ڈوب جانا بھی ایک کیف انگیز عمل ہے۔ زندگی کی لا تعداد صورتوں میں سے کچھ صورتیں ایسی خوش نما اور دلآویز ہوتی ہیں جن کی بدولت انسان کرب کی آغوش میں بھی بے فکری کی نیند سوسکتا ہے، بے غمی کی رو میں بہہ سکتا ہے۔ کسی اقامت گاہ، کسی شخص یا کسی جستجو کی تکمیل تک انسان ہر طرح کی تلخیوں کو خوش دلی سے برداشت کرتا ہے۔ بے سمتی کی بھیڑ میں من چاہی سمت بے خطر چلتے رہنا ہی عشق ہے اور یہ عشق خاص طور پر سیاحوں کو عطا ہوتا ہے۔ عقل مند منزل کے تعین میں راستے کی فطری جمالیات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور ان ناصحوں کی نصیحت پر عمل پیرا منزل کی بھاگ دوڑ میں موت کی گھاٹیوں میں جا گرتے ہیں۔
ہمارے لیے بے مقصدیت میں ہی رومان پرور ساعتیں جنم لیتی ہیں۔ ہم ایسے کسی بھی منزل کے مسافر راہ میں کھلے پھولوں کو سلامی پیش کیے بغیر اندھا دھند نہیں بھاگ سکتے۔ بے رحم مسافتوں کی ابر آلود دو پہروں میں گیت گاتے ہیں اور دور دیس کی ست رنگی جھیلوں کی زیارت کے لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں۔ ہمارے لیے ان دیکھی چھوٹی سے چھوٹی تخلیق بھی کشش رکھتی ہے۔ منزل کی طرف جانے والے راستوں پر فطرت کی فسوں کاری بھی منزل جتنی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک ایسی ہی ان دیکھی نہایت پرکشش جھیل کی زیارت کے لیے ہم ترکھنی موڑ سے گلگت کی جانب عازم سفر ہوئے۔
ہیبت ناک پہاڑی سلسلوں، خوبصورت وادیوں اور زندگی بانٹتے پانیوں کی سرزمین گلگت ہمارا دوسرا عشق ہے۔ گلگت کا موسم معتدل رہتا ہے۔ جولائی کی تیز دھوپ اکثر گلگت کی فضا کو گرم اور بادل پل بھر میں خوشگوار کر دیتے ہیں۔ گلگت کے خشک اور بھورے پہاڑوں کے نواح میں سرسبز نلتر ویلی واقع ہے۔ گلگت کی گدڑی کا یہ لعل دیکھنے کے لیے ہم خنجر اب روڈ پر رواں دواں تھے ۔ گلگت سے نومل کا زمینی فاصلہ پچیس کلومیٹر ہے۔ نومل سے ہی نلتر ویلی کا بہشتی دروازہ کھلتا ہے۔ یہ وہ خوبصورت گائوں ہے جہاں چیری کے سبز درختوں پر سرخ چیری اور کہیں کہیں گلابی پنکھڑیوں پر سفید پھول دوشیزۂ فطرت کی رعنائیاں لگا رہے تھے۔ اس گائوں کی فضا عجب ترنگ میں ہے۔ پرندوں نے چیری کی ٹہنیوں پر الگ دعوت سجائی ہوئی تھی۔ ننھی گلہری اپنے منہ میں چیری اٹھائے بھاگ رہی تھی ۔ یہ ایک افسانوی سا منظر تھا۔ لکڑی سے بنے گھروں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ مقامی بچے ٹولیوں کی صورت سیاحوں کی گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہوئے خوش آمدید کہتے تھے۔ اس گائوں کے اطراف طرح طرح کے پھولوں کی بیلیں پھیلی ہوئی ہیں۔ پہاڑوں کے دامن سے پھوٹتے اجلے چشموں کا ہلکاہلکا شور موسیقیت پیدا کرتا ہے۔ ہم نے تازہ چیری کے شگوفوں سے چیری تو ڑ کر کھانے کا شوق بھی پورا کیا۔ نومل سے نلتر ویلی صرف پندرہ کلومیٹر دور ہے۔ دریائے نلتر کے میٹھے پانیوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی نلتر ویلی کی طرف جارہے تھے ۔ نلتر کے گوجر کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں اور مال مویشی بھی چراتے ہیں۔ انہوں نے پہاڑی سطح کو تہہ در تہہ زرخیز بنایا ہے۔ آلو کی لہلہاتی فصل دونوں اطراف نظر آتی ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسان خشمگیں نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ قریب ہی سکی چیئر لفٹ کے ساتھ پاکستان ایئر فورس کا کیمپ بھی واقع ہے۔ نلتر کے برفیلے پہاڑوں پر سکینگ مقابلوں کے لیے سلوپ بھی تیار کیا گیا ہے۔ کھیلوں کے ان عالمی مقابلوں میں کئی بین الاقوامی کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ وہ ریزورٹ پہنچ کر فگر سکیٹنگ ، سنو بورڈنگ، آئس سکینگ اور آئس ہاکی مقابلوں میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ ان راستوں پر گاڑی چلانا بہت مشکل ہے، خاص طور پر جب راستوں کا علم نہ ہو تو پانی کی طغیانی راستے کا پتھر بن جاتی ہے۔ سیاحوں کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ پہاڑی علاقوں میں بہترین گاڑی کے علاوہ ماہر ڈرائیور کا ساتھ بھی ضروری ہے۔اگر دونوں باتیں ممکن نہ ہوں تو پہاڑی علاقوں میں لوکل ڈرائیور مع جیپ با آسانی دستیاب ہوتے ہیں ۔ ہمارا سفر کٹ رہا تھا اور دھیان مناظر کے حسن میں بٹ رہا تھا۔ چیڑ اور دیار کے جنگل سے گزرتے ہوئے ہم پتھروں سے بنے گھر دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔ درختوں کے جھنڈ سر اٹھائے سینہ تانے کھڑے تھے۔ موسم خنک تھا۔ ناہموار راستوں ، ندیوں کے برفیلے پانیوں اور جنگل کے دشوار گزار راستے عبور کرنے کے بعد نلتر جھیل کی پہلی تجلی ہم پر پڑی اور ہم مدہوش ہو گئے ۔ شام کی سرخی پہاڑوں سے دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔ پہاڑوں میں گھری یہ جھیل کسی سبز سیارے جیسی لگ رہی تھی ۔ جھیل کے کنارے ایک ڈھابے سے ہم نے تازہ چائے کی فرمائش کی۔ کیمپنگ کا سامان اتارا اور ضروری کاموں سے فراغت پا کرست رنگی جھیل کی سیر کو نکل پڑے۔
نلتر بالا کی یہ جھیل خوش کن مناظر کی دیوی ہے۔ اس کے دودھیا پانیوں سے جھیل کی سطح نظر آتی ہے۔ سبز کائی سے پانی کا رنگ بھی ہرا ہو جاتا ہے۔ اس جھیل کے اندر ہریالی ہی ہریالی ہے۔ سبز رنگ زندگی ، امید اور زرخیزی کی علامت ہے۔ قدیم مصر میں اوسیریز دیوتا کی جلد بھی سبز تھی۔ زمین کا علامتی رنگ بھی سبز ہے اور یہ جھیل زمین کے علامتی رنگ سے بھری ہوئی تھی ۔ ہم نے کشتی کے چپو گھمائے اور جھیل کے دوسرے کنارے کی جانب پانیوں کو دھکیلنا شروع کیا۔ یہ کشتی پلاسٹک کے چار بڑے کینوں پر دیار کی لکڑی کا تختہ رکھ کر بنائی گئی ہے۔ جھیل کا سکوت ہمارے دل میں ہلچل پیدا کر رہا تھا۔ ہم چپو سے پانی کو دھکیلتے تو چپو پانی سے ٹکرا کر چھپا کوں کی آواز سے ماحول میں ارتعاش پیدا کرتا۔ صنوبر کا ایک درخت جھیل کے کنارے کچھ اس طرح آرام فرما تھا کہ اس کی جڑیں جھیل میں اور اس درخت کا سر باہر کنارے پر پڑا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے جھیل نے اپنے قدیم دوست کی نعش کو حنوط کر کے پانی کے تابوت میں محفوظ کیا ہوا ہو۔ جھیل کے دوسرے کنارے کے دیدہ زیب مناظر بھی ہمیں دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ جھیل کے ہلکورے لیتے پانی پر آسمان کا عکس موج در موج پھیل رہا تھا۔ مچھلیوں کے جھنڈ برق رفتاری سے تیرتے ہوئے کناروں پر اپنی چھب دکھا کر غائب ہو جاتے تھے۔ جھیل کے بالکل سامنے پہاڑ سے آبشاریں گرتی ہیں۔ سرسبز چراگاہوں میں گھوڑے چرتے ہیں۔ بادلوں کے گہرے سیہ پھر یرے با ہم ٹکراتے ہیں اور رم جھم شروع ہو جاتی ہے۔ گھاس کے نرم ٹخنے آبشاروں کی پھوار سے تر ہیں۔ خواب ناک اور مسحور کن ماحول ہمیں سرشار کر رہا تھا۔ شام ڈھل چکی تھی تختِ آبنوسی بچھ چکا تھا۔ برقی قمقموں کی مصنوعی روشنی اور انسانی زندگی کے شور سے دور یہ ایک پر سکون جگہ تھی ۔ اگرچہ ہمارے عارضی شبستاں میں نرم تکیے نہیں تھے ، گھر جیسی محفوظ خواب گاہ نہیں تھی ، موبائل فون کی دھڑکن بند ہو چکی تھی ، روز مرہ کی کوئی آسائش نہیں تھی، پھر بھی ہمارے دل کی منڈیر پر آسودگی کے پرندے اتر رہے تھے ۔ رات کی سیاہی پھیل کر وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ۔ ہم نے کھانا تناول کیا اور چائے کا مگ اٹھا کر خیمے سے باہر آ گئے ۔ ہم اس بے انت خامشی میں سیہ شب کے سینے پر سفید پھول کھلتا دیکھ کر فطرت کی صناعی پر متحیر تھے ۔ ہم گھاس کے تخت پر چادر بچھا کر آسمان کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ قراقرم کی چوٹیاں محافظوں کی طرح ہماری حفاظت کر رہی تھیں۔ اگر چہ ہمارے لاشعور میں برفانی چیتوں کا خوف بدستور موجود تھالیکن اس حسین شب کا خمار ہمیشہ یاد آتا ہے۔ ہم براہ راست فطرت سے ہمکلام تھے۔ نصف شب کے بعد نیند نے آدبوچا ۔ عموماً ہم پہلی مرتبہ جب کسی سیاحتی مقام پر پہنچتے ہیں تو پہلے دن خوب لطف اندوز ہوتے ہیں، پھر اس جگہ کی تازگی مدھم ہونے لگتی ہے۔ نلتر جھیل کے کنارے شب بسری کے بعد سحر انگیز مناظر کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں ۔ ہماری تشنگی میں اضافہ ہوا اور ہم مزید خماری میں ڈوب گئے ۔ ہمارا ارادہ واپسی کا تھا مگر مقامی گائیڈ نے دیگر جھیلوں کی بابت آگاہ کیا تو ہم نے باقی جھیلوں کے درشن کے لیے فوری واپسی ترک کر دی اور دوسری جھیلوں کی طرف سفر شروع کر دیا۔
ہمارے خیمے سے پرے لکڑی اور چھپرے سے بنی جھونپڑیوں کے پچھواڑے سے بلندی کی طرف ایک ٹریک جاتا ہے۔ ہم اسی ٹریک پر پیدل پہاڑ چڑھتے ہوئے آدھے گھنٹے میں ہی نیلی جھیل تک پہنچ گئے ۔ گہرے نیلگوں پانیوں سے بھری یہ جھیل نیلی سیاہی کی دوات کی طرح تھی ۔ اس جھیل کے گردگھنا جنگل اسے مزید پر اسرار بناتا ہے۔ اس جھیل کا حسن تصور کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا۔ ہم تو ایک خزانہ تلاش کرنے نکلے تھے اور یہاں خزانوں کے پہاڑ چڑھتے جائیں اور متاع گراں مایہ سے جھولیاں بھرتے جائیں ۔ ہم نے ہائکنگ جاری رکھی اور تھوڑی دیر بعد پری جھیل کے درشن ہوئے۔ پری جھیل پر پہنچنے کے لیے خاردار جھاڑیوں اور گھاٹی نما چٹانوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ سہ اطراف میں پھیلی اس جھیل کا پانی سفیدی مائل سانولا تھا۔ لوک داستانوں میں پریوں کو دیو سے آزاد کروانے کی خاطر کوہ قاف سے شہزادہ آتا تھا مگر ہم انسانی آنکھوں سے اوجھل صرف پری جھیل کے دیدار کی خاطر پنجاب سے آئے تھے ۔ پری کو اپنی داستان میں شامل کرنے کے بعد ہم مزید او پر جانا چاہتے تھے اور باقی جھیلوں کے طنطنوں کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے لیکن وقت کی کمی آڑے آگئی اور ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ اس جھیل سے اوپر مزید دو جھیلیں تھیں۔ ان میں سے ایک پہاڑ کے دامن میں فیروزہ جھیل ہے جو اپنے فیروزی رنگ اور ٹرائوٹ مچھلی کے لیے مشہور ہے۔ سب سے بڑی جھیل کا نام ملکی یا برولیک ہے جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ برولیک کا تعلق جزیرہ نما بر والا سکا سے تو کوئی نہیں ہے لیکن موسمیاتی حدت میں شاید ایک جیسا مزاج رکھتی ہیں۔ اسی جھیل سے تھوڑا آگے پکورا ٹریک ہے جو نلتر کا بہت مشہور ٹریک ہے اور یہیں سے خوبصورت شانی گلیشئیر اور شانی بیس کیمپ تک بھی جایا جا سکتا ہے۔ یہ تمام جھیلیں تسبیح کے دانوں کی طرح پہاڑوں میں پرودی گئی ہیں۔ ان جھیلوں کو دیکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والوں کی کمی نہیں ۔ ہم نے آئندہ واپس آنے کے عہد کے ساتھ اترائی کا کٹھن مرحلہ طے کیا، اپنا سامان باندھا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا اور شام تک گلگت پہنچ گئے ۔ غیر ملکی سیاحوں کا ایک ٹولا گلگت ائرپورٹ پر اتر رہا تھا اور ہم ان کو دیکھ کر اپنا ایک گیت گنگنا رہے تھے ۔
یہ امر بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ چند برس قبل دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کو مسائل درپیش تھے لیکن اب افواجِ پاکستان اور قوم کی باہمی کاوشوں سے پاکستان دہشت گردی کے عفریت پر قابو پاچکا ہے۔ اب پاکستان میں امن قائم ہو چکا ہے جس کے لیے مسلح افواج اور قوم نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ یقینا جب بات ملکی سالمیت کی آجائے تب ہمیں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا ہے۔
آج الحمد ﷲپاکستان سیاحت کے حوالے سے ایک خوبصورت ملک قرار دیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک سے سیاح پاکستان آتے ہیں اور یہاں کے خوبصورت مناظر کے نظارے کرتے ہیں اور یہاں سے خوشی اور اُمید کے پیغام لے کر جاتے ہیں۔ اﷲ اس سرزمین پاک کو ہمیشہ سلامت رکھے۔
مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے