یہ صرف تہتر پی ایم اے لانگ کورس کے 311 کیڈٹس کی کہانی نہیں ہیجو مارچ کو بارش ہونے کے باعث ڈرل گرائونڈ کے بجائے بٹالین میس میں پاس آئوٹ ہوئے۔ بلکہ یہ ہر پاکستانی فوجی آفیسر کی آپ بیتی بھی ہے ۔یہ ان لمحوں کی کہانی ہے جو پاکستان کے ہر خطے اور طبقے سے آئے اٹھارہ، انیس سال کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے اور پھر مرنے تک وہ اس لڑی میں بندھے رہتے ہیں۔
پنجاب میں ایک روایت ہے کہ جب کسی کی شادی پر بارش ہو تو توقع کی جاتی ہے کہ فریقین میں سے ایک نے ہانڈیاں چاٹی ہوں گی۔تہتر نے شاید خالد پلاٹون کی ٹی بریک پر یلغار کا خراج ادا کیاہوگا۔
چالیس سال تک فرائض کی ادائیگی کے بعد بالآخر شطرنج کے مہرے واپس اپنے اپنے خا نوں میں پارک ہو چکے ہیں۔OEI سے میڈیکل prescription تک ، جی سی نمبر سے لے کر دادا ابو ، نانا ابو بننے تک کا سفر انتہائی دلچسپ اور پرلطف رہا۔ بے شک تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا شکر بجا لائو گے۔
ہم ہر سرکاری افسر کو گھر میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے۔ایک پورے فوجی یا سول بیورو کریٹ کو گھنٹہ بھر گھر میں برداشت کرنا گھر والوں کا ہی حوصلہ ہے۔ریٹائرمنٹ کے وائرس کے اثرات ، سول و عسکری حکام پر یکساں ہوتے ہیں۔صبح اٹھ کر مصروفیت ڈھونڈنی پڑتی ہے۔اگر گھر میں لان یا کچن گارڈن ہے تو بہتر ہے ورنہ اپنی کہانیاں سنانے کے لئے بندے ڈھونڈنا پڑتے ہیں، بندے مل بھی جاتے ہیںلیکن پھر ان کی کہانیاں بھی سننی پڑتی ہیں۔
عسکری زندگی شروع کرنے والے جتنے بھی پتنگ باز سجناں ہیں ان کو پتاہو گا کہ کوئی پتنگ لپھوہوتی ہے تو کوئی کنی مارتی ہے۔ جب پی ایم اے میں داخل ہوئے تھے تو وہی لپھو اور کنی مارنے والی پتنگیں تھیں۔بڑی محنت سے سٹاف ، پلاٹون کمانڈروں، چاچوں نے مل کر ہوا کے ساتھ اونچا اڑنے والا گڈا بنایا۔جس کی جتنی اڑان تھی، خوب اڑا۔ بو کاٹا تو بسنت کی رونق ہے- اگر بو کاٹا نہیں ہو گا تو نئے گڈے کیسے اپنا رنگ جمائیں گے- اڑتی پتنگ کا پیچے ڈال کر کٹ جانا اچھا شگن ہے-
پی ایم اے تک پہنچنے سے پہلے ایک مختصر اور بے فکر لڑکپن تھا۔پھر بھر پور تیاری کروا کے پہلوانوں کو بڑی کشتی کے لیے اکھاڑئے میں اتارا گیا۔عمر کا یہی حصہ دراصل حاصل زندگی ہے- زندگی کے باقی رہ جانے والے ماہ و سال، سیاچن کی بلندیوں ، لائن آف کنٹرول، صحرائوں، سندھ کے جنگلوں، فاٹا، مغربی سرحد پر گزرے پُر مسرت اور فخریہ لمحوں کو یاد کر کے گزاریں گے۔ان تمام مورچوں پر آج بھی ہماری سپاہ مورچہ زن ہے ، جہاں کبھی ہم تھے یا ہم سے پہلے تھے۔ یہ فرائض کی ادائیگی کا سلسلہ ہی قوموں کو دوام بخشتا ہے۔
ریٹائر منٹ اور موت سب کو برابر ٹریٹ کرتی ہیں ۔ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے بڑا جھٹکا این سی بی سے دستبرداری ہے۔ والدین کی دعائوں کے بعد سب سے بڑا سہارہ این سی بی ہی رہا۔آپ کی ہر مشکل میں مدد کرتا ہے۔ آپ جب دن رات سرکاری کام میں یا کورس کے دوران پڑھائی میں مصروف ہوتے ہیں تو وہی آپ کے انتظام و انصرام کا خیال رکھتا ہے۔رات کو دو بجے بھی آئیں تو وہ انتظار کرتا ہوا ملے گا۔
فوجی زندگی میں مجھے جو یاد بہت ستاتی ہے وہ موسم سرما اور گرما کی سالانہ مشقیں ہیں، تقریباً جنگ کا ماحول۔ہر سال دو دفعہ سامان باندھ کر اور harness yoke پہن کر نکل کھڑے ہوتے ۔سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں نائٹ مارچ، لانگ مارچ ، پٹرولنگ، نائٹ اٹیک، دن کو فیلڈ فائرنگ ، ریکیاں، TEWTs, فیلڈ میس کا کھانااور پھر رات گئے تک آپریشن روم اور اگلے دن کی تیاریاں ، گرمیوں میں آگ کی طرح تپتے اور سردیوں میں برف کی طرح ٹھنڈے ٹینٹ-
ہم 1986 میں تازہ تازہ لفٹین بنے ہی تھے کہ نومبر ،دسمبر میں بھارتی دھمکیوں نے ہمیں اگلے مورچوں پر پہنچا دیا- پاکستان سب کچھ سہہ لیتا ہے لیکن بھارتی گیدڑ بھبکیوں کو برداشت نہیں کرتا۔
پاکستان نے کبھی بھی بھارت کو پھن پھیلانے کا موقع نہیں دیا۔ وہ ہمارے لیے پہلا موقع تھا-پھر ہماری زندگی چل پڑی اور اتنی تیز چلی کہ تھمنا مشکل تھا- ایک ٹرنک تھا، جس پر ہمارا نام لکھا ہوا تھا، بستر بند ، ہم اور ہمارا یار این سی بی۔سفر میں ہی رہے- پہنچتے بعد میں تھے، اگلی منزل کا پروانہ پہلے مل جاتا تھا۔
ایبٹ آباد شہر کے عین اوپر "سربن ڈھاکا" ہے۔ جی ، یہ پہاڑ کا نام ہے۔آپ پی ایم اے کے odd کورسز سے پوچھیں کہ "سر بن ڈھاکا" کیا ہے اور even کورسز سے "منگل نالے " کا پوچھ لیں۔ہزاروں کہانیاں ان راستوں پر بکھری پڑی ہیں۔ بلند پہاڑوں کو دور سے دیکھنا اور big pack اور ایل ایم جی کے ساتھ ان کو عبور کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ دوسری ٹرم میں یرموک اور باکسنگ ، دو شگن ہیں ، جن کو پورا کیے بغیر آپ فوجی افسر نہیں بن سکتے ۔یرموک سادہ ترین الفاظ میں بھی، بڑے پٹھو کے ساتھ، انتہائی کٹھن پیدل مارچ ہے جو پانچ دن جاری رہتا ہے۔ یر موک ( yarmoke) کے شروع ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی سربن ڈھاکا متھے لگ گیا۔ سربن ڈھاکا کے درمیان تک پہنچتے پہنچتے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ '' بس اب اور نہیں'' یہ تو یاروں کی یاری ہے جو آخر تک چلتے رہے- یرموک جب پانچ دن بعد ختم ہوتی ہے تو قدم حقیقتاً " آبلہ پا" ہو چکے ہوتے ہیں۔ دسمبر میں سربن ڈھاکا اور پی ٹی گرائونڈ میں دوڑے ون میل ،پش اپ، بیم اور سب سے بڑھ کر مشکل حالات میں مستقل مزاجی کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعتماد جو پی ایم اے میں ملا، اسی نے باقی فوجی زندگی میں چیلنجز کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا۔
کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ، بالکل ایسا ہی ہوتا ہو گا- ہمیں تو اتنا علم ہے کہ باکسنگکے جوڑے پی ایم اے میں بنتے ہیں۔باکسنگ کا نتیجہ اتنا اہم نہیں ہوتا بس معرکہ ذرا مشکل ہوتا ہے۔مکے مارنے اور کھانے ہیں۔ہوتے تو تین منٹ ہی ہیں لیکن ان تین منٹوں کا دورانیہ ماپنا گھڑی کے بس کی بات نہیں۔ایک میل ٹیسٹ بھی پانچ منٹ بیس سیکنڈ میں کرنا ہوتا ہے لیکن ان پانچ منٹ اور بیس سیکنڈ کا حساب رکھنا بھی گھڑی کے بس کی بات نہیں۔ تمام فوجی ادارے لمحوں کو گھڑی سے نہیں ، آپ کی جرأت سے ماپنے کی عادت ڈالتے ہیں اور یہی سولجرز کا سرمایہ حیات ہے-
پی ایم اے تک پہنچنے سے پہلے ایک مختصر اور بے فکر لڑکپن تھا۔پھر بھر پور تیاری کروا کے پہلوانوں کو بڑی کشتی کے لیے اکھاڑئے میں اتارا گیا۔عمر کا یہی حصہ دراصل حاصل زندگی ہے- زندگی کے باقی رہ جانے والے ماہ و سال، سیاچن کی بلندیوں ، لائن آف کنٹرول، صحرائوں، سندھ کے جنگلوں، فاٹا، مغربی سرحد پر گزرے پُر مسرت اور فخریہ لمحوں کو یاد کر کے گزاریں گے- ان تمام مورچوں پر آج بھی ہماری سپاہ مورچہ زن ہے ، جہاں کبھی ہم تھے یا ہم سے پہلے تھے۔ یہ فرائض کی ادائیگی کا سلسلہ ہی قوموں کو دوام بخشتا ہے۔
کپتانی سے میجر اور پھر آگے کا سفر بھر پور مصروفیت کا دور تھا۔ دفتر، مشقیں، فائرنگ، کورسز۔ہم ان خوش قسمت سپاہیوں میں سے ہیں جنہوں نے روایتی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف غیر روایتی جنگ ، موسم سرما اور گرما کی مشقیں ، مشرقی، مغربی، میدانی اور صحرائی علاقے اور جنگل ، ہر جگہ فرائض انجام دیے۔بال سفید بھی ہوئے، گرتے بھی رہے، وزن بڑھتا رہا- ایک ایک لمحہ فخر ، خوشی اور عاجزی کا تھا۔ سپاہی ہونے کا فخر صرف ایک سپاہی ہی سمجھ سکتا ہے۔اپنے وطن کی خاطر، مورچے میں دشمن کی طرف منہ کر کے اندھری رات ، بیس ہزار فٹ بلند گلیشیئر پر ،منفی درجہ حرارت میں بندوق تانے کھڑا رہنے کے فخر کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔یہ کوئی احسان نہیں تھا فرض تھا،جسے آج بھی یاد کر کے سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتاہے۔
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
میجر بننے کے بعد کھلنڈرے پن سے نکل کر ایک ذمہ دارفوجی آفیسر کی زندگی شروع ہو چکی تھی۔ایک قلیل تنخواہ میں میس کا بل اور گھر کا خرچہ چلانے والا دور تھا- اللہ کا شکر ہے اس نے ہمت دی۔رینک، پروموشن زندگی کا حصہ ہے، سب نے اپنا اپنا فرض خوب نبھایا۔جوہم سے جدا ہو کر ابدی سفر پر روانہ ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ہمارے لانگ کورس کو اللہ تعالیٰ نے بہت عزت بخشی۔سب سے بڑھ کر بھائی چارہ ، رواداری اور محبت کا رشتہ۔ پانچ لیفٹیننٹ جنرل، 14 میجر جنرل بہت بڑی کامیابی ہے۔ جو دفاع وطن کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے اور جو اعلیٰ عہدوں تک پہنچے وہ سب داد کے مستحق ہیں۔
ہم ہر سرکاری افسر کو گھر میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے۔ایک پورے فوجی یا سول بیورو کریٹ کو گھنٹہ بھر گھر میں برداشت کرنا گھر والوں کا ہی حوصلہ ہے۔ریٹائرمنٹ کے وائرس کے اثرات ، سول و عسکری حکام پر یکساں ہوتے ہیں۔صبح اٹھ کر مصروفیت ڈھونڈنی پڑتی ہے۔اگر گھر میں لان یا کچن گارڈن ہے تو بہتر ہے ورنہ اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بندے ڈھونڈنا پڑتے ہیں، بندے مل بھی جاتے ہیںلیکن پھر ان کی کہانیاں بھی سننی پڑتی ہیں۔دنیا میں دکھ سکھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن غیراہم (irrelevant) ہونا بہت تکلیف دہ ہے- ساری عمر سیکھتے رہے، پڑھتے رہے ، اتنا تجربہ لے کے ریٹائر ہوتے ہیںلیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ظاہر ہے آپ کے تجربات سے اس طرح سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا جس طرح سے اٹھایا جانا چاہیے۔
لانگ کورس ہماری پہلی اور مضبوط شناخت ہے، دوسری بڑی شناخت ہماری یونٹ ہے- ایک شناخت زندگی کو دوام دیتی ہے تو دوسری پیشہ ورانہ بھائی چارے کو- کورس میٹس سب برابرہوتے ہیں۔کوئی کسی کو کسی بھی طرح مخاطب کر کے کچھ بھی بات کر سکتا ہے- یہی وہ احساس ہے جو باقی رشتوں کو مات دیتا ہے- یونٹ والوں سے بھی دل کا اور احترام کا رشتہ ہے-
یہ سفر جب شروع ہوا تو لگتا تھا وقت رک گیا ہے- پی ایم اے کے ابتدائی دنوں میں تو لگتا تھا پھرکی سے باندھ دیا گیا ہے، نہ سونے دیتے تھے نہ وقت پر کھانا- فرنٹ رول، گورکھا، فراگ جمپ ۔صبح چار بجے اٹھتے تو سات بجنے کا انتظار کرتے، پھر نوہی نہیں بجتے تھے- نو بجے ناشتہ۔ پھر گیارہ نہیں بجتے تھے کہ ٹی بریک کی چائے دن اور رات گزارنا مشکل تھے۔ فوج توڑ کے بناتی ہے لیکن بکھرنے نہیں دیتی۔
پھر پی ایم اے مہربان ہو گیا، ہم انٹر، اپر،سینئر ہوگئے۔ رگڑے کی جگہ باقاعدہ فوجی تربیت شروع ہو گئی۔خاکی کلف لگی یونیفارم میں کیڈٹ صاحب باقاعدہ نیم لفٹین نظر آنے لگے۔ باقاعدہ انگلش میں bully سیکھ لی۔اب لگتا ہے کہ پلک جھپکنے میں چالیس سال گزر گئے۔کتنا تھوڑا تھا یہ وقت۔کچھ تو چلے بھی گئے، باقی تیار بیٹھے ہیں۔ وقت کی بھی سمجھ نہیں آتی ، کبھی اتنا آہستہ کہ منٹ نہ گزرے اور کبھی دہائیاں سیکنڈ بن جائیں۔واہ مولا، تیرے رنگ نرالے۔
کیاہے حاصل زندگی؟ کیا کھویا ، کیا پایا ہم نے۔میرے نزدیک ہم خوش قسمت ترین لوگ ہیں ، ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کا موقع ملا، فوج میں نوکری سے بڑھ کر مادرِ وطن کی حفاظت ایک نعمت خداوندی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہم سپاہی تھے ، ہیں اور سپاہی ہی مریں گے۔
مضمون نگارانٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز سے ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
تبصرے