ہر سال جب بھی دسمبرآتا ہے ہمیں ان بہادر فرزندوں اورمحافظوں کی یاد دلاتاہے جنہوںنے1971میں انتہائی کم وسائل کے باوجود ایک طاقتور دشمن سے چومکھی جنگ لڑی اور پھر اس جنگ میں شہادت کارتبہ پا گئے،غازی کہلائے۔
قارئین !1971ء کی جنگ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے ایسے ہیروز بھی ہیںجن کے جسدِ خاکی وطن واپس نہیں لائے جاسکے لیکن وہ قوم کے شہید ہیں،ان ہیروز کی قربانیاں سرآنکھوں پر ہیں۔ پاک وطن کے ان بہادر بیٹوں میں ایک نام فلائٹ لیفٹیننٹ سعید افضل خان شہیدکا بھی ہے۔ان کا جسد خاکی نہیں ملا اوران کی قبر کا کسی کوکچھ معلوم نہیں لیکن یہ ہیرو آج بھی قوم کے دلوں میں بستاہے ،لوگ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور بڑے شاندار الفاظ میں انہیں یاد کرتے ہیں۔1971ء کی جنگ میں سعید افضل کے پیش نظر ڈھاکہ ایئر فیلڈ کادفاع تھا اور وہ بہر صورت اپنے فوجی اڈے کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے اس فضائی لڑائی میں دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ایک انڈین ہنٹر جہازکو نشانہ بنایا اور اسی دوران بدقسمتی سے ان کا جہاز دشمن کے دوسرے جنگی جہازوں کی گولیوں کی زد میں آگیا۔ پاک فضائیہ کے مطابق ان کے آخر ی الفاظ یہ تھے :''ہیلو ۔۔۔ہیلو ۔۔۔میرا جہاز Hitہو گیا ہے اور میں Ejectکررہاہوں۔'' وہ علاقہ باغیوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے سعید افضل کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔
فلائٹ لیفٹیننٹ سعید افضل خان شہید پاک وطن کے عظیم ہیرو تھے۔انہوں نے مشرقی پاکستان کے محاذ پر بڑی بہاد ر ی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ان کو اس بے مثال جرأت اور بہادر ی پر حکومت پاکستان کی طرف سے تیسرابڑا فوجی اعزازستارۂ جرأ ت عطا کیاگیا۔آج بھی مائیں بڑے فخر کے ساتھ سعید افضل کے جنگی کارنامے اپنے بچوں کو سناکر ان میںعقابی روح بیدار کرتی ہیںاورپوری قوم وطن عزیز کی حرمت پر اپنی جان نچھاورکرنے والے اس شیر دل مجاہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔
فلائٹ لیفٹیننٹ سعیدافضل شہید کی بڑی بہن یاسمین عدیل اخترنے بتایا کہ: ''سعید افضل خان سات جولائی 1948 کوتحصیل جنڈ،تھٹہ ضلع اٹک میں معروفکھٹڑ اعوان قبیلے میںپیدا ہوئے۔ سعید افضل خان شہید ایک فوجی گھرانے کے فرزند تھے۔ ان کے خاندان نے پاک فوج میں شاندار خدمات انجام دیں۔ان کے والد محترم بریگیڈیئر ریٹائرڈمحمد افضل (مرحوم) پاک فوج کے ایک معروف افسر تھے۔سعید افضل شہید کے دو بھائی بھی پاک فوج میں خدمات انجام دیتے رہے۔بڑے بھائی میجر جنرل جاوید افضل خان نے دوران سروس کوئٹہ میں وفات پائی اورکرنل (ر)حمید افضل خان حیات ہیں۔
یاسمین عدیل اخترنے بتایا کہ:''ہم آج بھی اپنے شہیدبھائی کی یادوں کوسینے سے لگائے ہوئے ہیں۔انہوںنے شہید کی یادوںکوکریدتے ہوئے بتایاکہ مجھے ان کا بچپن اچھی طرح یادہے۔وہ بہت سادہ مزاج لیکن ذہین تھے۔جب وہ چھوٹے تھے تو ان کی باتیں بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں ،آج بھی ان کاچہرہ سامنے آتا ہے تو مجھے افسردہ کر جاتاہے۔چونکہ ہمارے والد بریگیڈیئر افضل خان پاک فوج کے ایک بڑے نیک نام افسر تھے اور پورے خاندان کے سربرا ہ بھی تھے توسعید شہید اپنے والد سے بھی بہت متاثرتھے ۔جہاںتک میںنے دیکھا اورمحسوس کیا توانہوں نے فوج میں جانے کافیصلہ اپنے والد کو دیکھ کرکیاتھا۔جب وہ اپنے والد کو دیکھتے تو ان کے اندر بھی فوجی بننے کا شوق پیداہوتا۔''انہوںنے دُکھی لہجے میں بتایا کہ سعید شہید کی اپنے گھر اورخاندان کے ساتھ قربت بہت کم رہی کیونکہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے فوری بعد ہی پاک فضائیہ میں چلے گئے اور پھر کم عمر ی میں ہی جام شہادت نوش کرگئے ۔سعیدافضل غیر شادی شدہ تھے اورانہوںنے صرف23سال کی عمر میںاپنی جان وطن پر قربان کی۔ یاسمین عدیل اختر نے بتایا کہ شہید نے ابتدائی تعلیم تھٹہ تحصیل جنڈضلع اٹک میں حاصل کی اور ایف ایس سی کرنے کے بعد پاک فضائیہ جوائن کی۔وطن سے محبت سعید شہید کی رگ رگ میں دوڑتی تھی اورا سی جذبے کے تحت انہوںنے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اورپاک شاہینوںکی صف میں شامل ہوگئے ۔ ان کے اندر ایک لگن تھی کہ میں بھی فوجی پائلٹ بنوں گا اورجنگی جہاز اڑائوں گا۔جون1968ء میں سعید افضل شہید نے پی اے ایف اکیڈمی اصغر خان (رسالپور )میں تربیت مکمل کی اور ایک نڈر فائٹر پائلٹ کے طور پر ابھرے۔ فائٹر کنورژن کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد انہیں 18نمبر سکوارڈن میں تعینا ت کیاگیا۔ 1971ء کے اواخر میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران انہیں مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں تعینات کیاگیا اور پھر انہوںنے جس غیر معمولی جرأت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا وہ سب ہماری تاریخ میں محفوظ ہے ۔ہمارے والد بریگیڈیئر افضل( مرحوم) نے بہت کوشش کی کہ 1971ء کی جنگ میں پاک فوج کے جو قیدی تھے ان میں سعید افضل کا سراغ لگایاجائے اور انہیں تلاش کیاجائے لیکن انہیںکامیابی نہ ملی۔پھرایک دن سب قیدی رہا ہو کراپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے لیکن۔۔۔ سعید افضل نہ آئے ۔۔ بعد میں انہیں شہید قرار دے دیاگیا''۔
سعید افضل شہید کے بھانجے ندیم جعفر خان کھٹڑ(ماہر نفسیات)نے ''ہلال'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ:'' جب ماموں شہید ہوئے اس وقت میں بہت چھوٹاتھا تاہم خاندان کے بڑے بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ کو عمر بھر ان کاانتظاررہا۔ندیم جعفرنے بتایا کہ ہمارے خاندان میںآج بھی سعید افضل شہید کی جرأت رندانہ کو یادکیاجاتا ہے ۔ شہید کے والد بریگیڈیئرمحمدافضل چونکہ خود بھی فوجی افسر تھے اور انہیں بہت پہلے اپنے جانبا ز بیٹے کی شہادت کا علم ہو چکاتھا لیکن انہوںنے یہ راز اپنے سینے میںچھپائے رکھا کہ کہیںشہید کی غمزدہ والدہ اوربہن بھائی حوصلہ نہ ہار بیٹھیں۔شہید کی والدہ تمام عمر ان کاانتظا رکرتی رہیں اوراسی کیفیت میں اللہ کو پیار ی ہوگئیں۔شہید کی ماں نے ہمیشہ اپنے بیٹے کی یادوںکوسینے سے لگائے رکھا اور جو بھی ان سے ملنے کے لیے آتا وہ کہتی تھیں کہ دیکھناایک دن میرا سعید افضل ضرور میرے پاس آئے گا''۔
دسمبر2021ء میں پاکستان ایئر فورس کے شعبہ تعلقات عامہ نے فلائٹ لیفٹیننٹ سعید شہید کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک مختصردستاویزی فلم اور نیوز ریلیز جاری کی ۔ا س مختصر ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ : ''مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ ایئرفیلڈ پر پاک فضائیہ کے اکیلے سکواڈرن کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کے 10سکواڈرن تعینات تھے۔دشمن کی اس عدد ی برتری کے باوجود پاک فضائیہ کے یہ جوان دشمن سے مقابلے کے لیے ہرلمحہ تیار تھے۔ چار دسمبر1971ء کا دن پاک فضائیہ کے لیے ایک سنہری باب ثابت ہوا۔اس روز مٹھی بھر بہادر جنگجوئوں نے بڑی بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنے سے چار گنا بڑے دشمن کا بھرپور مقابلہ کیااورسبز ہلالی پرچم کوسربلند رکھا۔ان بہادر بیٹوں کے عزم اور حوصلے کی بدولت مکا ر دشمن ڈھاکہ شہر پر کئی حملے کرنے کے باوجود اپنے اہداف تک پہنچنے میں ناکام رہا۔طلوع آفتاب کے ساتھ ہی پاک فضائیہ اپنے دو انٹر سیپشن مشن اڑا چکی تھی اور تیسرے مشن کے لیے سکوارڈن لیڈرجاوید افضال اور فلائٹ لیفٹیننٹ سعیدافضلF-86طیاروں میں محو پرواز ہوئے ہی تھے کہ ان کاسامنا چار انڈین ہنٹرطیاروں سے ہوا جو ڈھاکہ ایئر فیلڈ پر حملے کے لیے بڑھ رہے تھے۔جذبہ دفاعِ وطن اور شوقِ شہادت سے سرشار سعید افضل نے اس موقع پر انتہائی حاضر دماغی اور جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہنٹر جہاز کو نشانے پر لیااور اگلے ہی لمحے وہ جہاز آگ کی لپیٹ میں آیا اور زمین بوس ہوگیا۔اسی لمحے انڈین Mig-21 اور SU-7کی ایک اور فارمیشن انڈین ہنٹر طیاروں کی مدد کوآن پہنچی۔پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ یہ دونوں بہادر پائلٹ انتہائی کم وسائل کے باوجود فضا میں ایک بڑے دشمن کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ڈھاکہ کی فضائو ں میں لڑی جانے والی یہ جنگ آج بھی فرض شناسی اور حب الوطنی کے استعارے کے طور پر یاد رکھی جاتی ہے۔سعید افضل کے پیش نظر ڈھاکہ ایئر فیلڈ کادفاع تھا اور وہ ہر حال میں اس کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے اس فضائی لڑائی میں دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور اسی دوران بدقسمتی سے ان کا جہاز دشمن کی گولیوں کانشانہ بن گیا۔ان کے آخر ی الفاظ یہ تھے :''ہیلو ۔۔۔ہیلو ۔۔۔میرا جہاز Hitہو گیا ہے اور میں Ejectکررہاہوں''۔ یہ علاقہ باغیوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے سعید افضل شہید کاکوئی سراغ نہ مل سکا''۔
تلاش بسیار کے بعدآخر کار سعیدافضل کو شہید قرار دے دیا گیا اورانہیں ملک کاتیسرا بڑا فوجی اعزاز ستارہ جرأت عطا کیاگیا۔سعید شہید کی بے مثال بہادری اور ثابت قدمی کے اعتراف میں اٹک کینٹ میں ایک مشہورروڈ کانام بھی ان کے نام سے منسوب کیاگیاہے۔
مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیںاور مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
کیپشن
(1)فلائٹ لیفٹیننٹ سعید افضل شہید کی یادگار تصویر جو ان کے ورثاء کے پاس محفوظ ہے۔
(2)فلائٹ لیفٹیننٹ سعید افضل شہید کے والد بریگیڈیئرمحمدافضل خان (مرحوم) ۔
تبصرے