بانیِ پاکستان کی11 اگست 1947کی تحریر کے تناظر میں لکھا گیافرحت عباس شاہ کا مضمون
تاریخ شاہد ہے کہ اقوام عالم پر کئی بار مشکل وقت آیا لیکن جن قوموں نے صبرو استقامت سے مشکلات کا سامنا کیا اور ہمت نہیں ہاری رب تعالی نے ان کی مدد کی اور انہیں پھر سے عروج بخشا ۔
اس وقت وطن ِ عزیز پاکستان ایک دفعہ پھرپاکستان دشمن عناصر کے نشانے پر ہے۔ لیکن اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں، اللہ کے حضور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے سربہ سجود ہوتے ہیں اور حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری قوت اور آہنی عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اس عزم و ارداے کے قائم کرنے سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم پوری دیانتداری سے جائزہ لیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان کے بارے میں کیا وژن تھا اور ان کی ہم سے توقعات کیا تھیں ۔ سو آئندہ سطور ہی میں قائد ِ اعظم کی ایک شہرۂ آفاق تاریخی تقریر کی روشنی میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ اس نیت سے کہ ہم بحیثیت قوم تجزیہ کرسکیں کہ ہم نے دراصل خود اپنے وطن کے ساتھ کیا کیا ہے ۔
ہم ہر سال یومِ آزادی کے موقع پر یا پھر یوم قائد اور یوم اقبال پر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے حوالے سے تقاریر و تحاریر پوری باقاعدگی سے پیش کرتے آرہے ہیں اور اتنے ہی تسلسل سے سیاسی و ریاستی کوتاہیوں کا ارتکاب بھی کرنے سے باز نہیں آئے۔ قائدِ اعظم محمدعلی جناح نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں آئین سازی جیسی جس بنیادی ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کو کہا اسی کو کرنے میں اس وقت کی حکومت سات سال کے عرصے میں بھی سرخرو نہ ہو پائی اور بالآخر 24 اکتوبر 1954 کو گورنر پاکستان ملک غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ۔ اس کے بعد پھر ٹوٹ پھوٹ اور توڑ پھوڑ کے حالات مسلسل جاری رہے اور آج تک جاری ہیں ۔
یہ وہی ملک ہے جس کے قیام کے لیے اور پھر ہجرت کے وقت ہزاروں انسانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور جس کے تحفظ کے لیے افواج ِ پاکستان کے شیر دل بہادروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ اس کے باوجود ہم وطن عزیز کو قائد اعظم کے وژن کے مطابق استحکام اور ترقی کے ٹریک پر چڑھانے اور آگے لے کر چلنے میں ناکام رہے ہیں ۔
بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے موقع پر تاریخی تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔۔۔۔۔
''جناب صدر (جوگندرناتھ منڈل)اور خواتین و حضرات۔۔!
مجھے اپنا پہلا صدر منتخب کرکے آپ نے جس اعزاز سے نوازا ہے ، اس کے لیے تہہ دل اور پورے خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ وہ عظیم اعزاز ہے جس سے یہ خود مختار مجلس کسی کو نواز سکتی ہے۔ میں ان رہنمائوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اپنی تقاریر میں میری خدمات کو سراہا اور میرے بارے میں ذاتی حوالے دیے۔ مجھے امید واثق ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ہم اس اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنادیں گے ۔ ''
لیکن بدنصیبی سے ہم اس اسمبلی کو دنیا کے لیے مثال نہ بنا سکے ۔
قائدِ اعظم اسی تقریر میں فرماتے ہیں ۔۔۔
'' اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی ، وہ آپ کے سامنے پیش کردوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے کہ یاد رکھیے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی یہ کہ آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں ۔؟''
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قائدِ اعظم اس بات پر زور دے کر ممبران اسمبلی سے فرما رہے ہیں کہ یاد رہے یہ اسمبلی ایک خود مختار قانون ساز ادارہ ہے اور اب درست اور دانائی پر مبنی فیصلے کرنا ممبران کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن ہم نے دیکھا کے اس اسمبلی میں اور تو بہت کچھ ہوا اور ہوتا رہا لیکن ذمہ دارانہ فیصلے نہ ہوسکے ۔ حالانکہ قائدِ اعظم نے زور دے کر کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ کیا فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنے فرض کو پہچاننے سے قاصر رہے ۔ اسی تقریر میں آگے چل کر سب ممبران کو ان کے فرض ِ اولیں کے طور پر نوٹ کرواتے ہیں کہ ۔۔۔۔
''پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا ، وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان ومال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔''
امن و امان کے لیے جہاں ملک کی پولیس نے بے شمار قربانیاں پیش کیں وہاں افواجِ پاکستان کی طرف سے لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کامیابی پر نہ صرف پوری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی بلکہ پاکستان کے دشمنوں کی کراہیں ابھی تک بند نہیں ہوئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمن عناصر خاموش بیٹھنے کے بجائے آج بھی اپنی مذموم کوششیں اور ناپاک سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لیکن سیاسی حکومتیں ملک کو وہ گورننس نہ دے سکیں جس سے ملک میں امن و امان قائم ہوتا ۔ جلسے جلوس کی سیاست سے لے کر اسمبلیوں میں مارکٹائی تک سے باز نہ آسکے ۔ نہ جاگیردارانہ نظام ختم ہوا، نہ رسہ گیری کو نکیل ڈالی جاسکی ۔ حتیٰ کہ ہمیں دہشت گردی جیسے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں پہلے سے زیادہ متحد ہو کر اور نئے سرے سے اپنی صفیں ترتیب دے کر پورے اتحاد ، تنظیم اور ایمان کے ساتھ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے صف آرا ہونے کی ضرورت ہے ۔
قائدِ اعظم اس تقریر میں آگے چل کے فرماتے ہیں ۔
''دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں ، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے ، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے ، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔''
''چور بازاری(یا ذخیرہ اندوزی) دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قید کی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی عائد کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ موجودہ تکلیف دہ حالات میں جب ہمیں مسلسل خوراک کی قلت یا دیگر ضروری اشیائے صرف کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چور بازاری ، معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھنائونے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چور بازاری کرنے والے لوگ باخبر ، ذہین اور عام طور پر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں ۔ جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انہیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری اشیائے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی ، احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں ۔''
آپ اس عظیم قائدکی بصیرت دیکھیے ۔ جن سماجی و سیاسی بیماریوں کی نشاندہی آغاز میں ہی کر دی گئی ان سے ہم آج تک نکل نہیں پائے ۔ یہاں تک کہ کرپشن اور چور بازاری کرنے والے عناصر اسی قانون ساز اسمبلی میں آ بیٹھے جہاں ان کے خلاف قوانین بنائے جانے تھے اور جہاں ملک اور قوم کو ان سے بچانے کے لیے حکمت عملی وضع کی جانی تھی اور عمل درآمد ہونا تھا ۔ نہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر سکے، نہ چور بازاری روک سکے۔ بلکہ چند خاندانوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب سمیت سب کو اقتدار و اختیار کی راہدارویوں میں کھینچ کے بٹھا لیا اور حقیقی پاکستانیوں کو کمزور کرکے بے بسی کے احساس کا شکار کردیا ۔ دیکھیے قائد نے اس گھمبیر مسئلے کی کیسے نشاندہی فرمائی ۔
'' ایک بات جو فوری طور پر میرے سامنے آتی ہے ، وہ ہے اقربا پروری اور احباب نوازی ، یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی ہے اور بہت سی اچھی بری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ اس برائی کو بھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔ یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا نوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ، قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنیٰ سطح پر یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔''
یہ نہیں کہ قائد نے صرف مسائل ، مشکلات اور چیلنجز سے آگاہ کیا بلکہ ان کے حل کے لیے پورا لائحہ عمل دیا ۔ قائدِ فرماتے ہیں ۔۔۔
اب ہمیں کیا کرنا ہے؟
اگر ہم مملکت پاکستان کو خوش و خرم اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر مرکوز کر دینی چاہیے۔ بالخصوص عوام الناس اور غریبوں کی جانب ، اگر آپ ماضی اور باہمی تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو کامیابی یقینا آپ کے قدم چومے گی۔ اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کرلیں اور مل جل کر اس جذبہ سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر شخض خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری، سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقہ سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے، تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔''
'' ہمیں اس جذبہ کے ساتھ کام شروع کر دینا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت ، ہندو فرقہ اور مسلمان فرقہ کے یہ چند در چند زاویے معدوم ہوجائیں گے۔ کیوں کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان ، پنجابی ، شیعہ اور سنی وغیرہ موجود ہیں۔ اس طرح ہندوئوں میں بھی برہمن، ویش ، کھتری ہیں اور بنگالی اور مدراسی ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوگئے ہوتے۔ کوئی طاقت دوسری قوم کو اپنا غلام نہیں بناسکتی بالخصوص اس قوم کو جو چالیس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہو۔ اگر یہ کمزوری نہ ہوتی کوئی اس کو زیر نہیں کرسکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کوئی آپ پر طویل عرصہ تک حکمرانی نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔''
''پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو ، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔!''
''جیسا کہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیسے کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا ہے۔ ہم اس زمانے میں یہ ابتدا کررہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اور اس بارگراں سے سبکدوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ۔ اب جو چیز موجود ہے وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔''
''میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بنائوں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقربا پروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقینا آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں ۔ ''
قائدنے جن توقعات کا اظہار کیا تھا اور جو روڈ میپ ہمارے سامنے رکھ دیا تھا اگر آج بھی ہم یہ عہد کرلیں کہ ہر طرح کے اگلے پچھلے اختلافات ، عداوتیں اور دشمنیاں بھلا کے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک آزاد وطن کی نعمت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ جو بھی ہو وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہمارا آنے والا کل آج سے مختلف ، روشن اوخو شحال ہوگا ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے