جولائی 1938ء میں جب کانگریس ہندو اکثریت کے صوبوں میں برسرِاقتدار آئی تھی تب وندے ماترم قومی ترانہ اور کانگریس کا جھنڈا قومی پرچم قرار پایا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمان بچوں کو بھی گاندھی جی کی پوجا پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اردو کے بجائے ہندی کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔ ایسے تمام اقدامات سے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے دی گئی تھی۔ کانگریس کے ان اقدامات سے مسلمانوں پر جو ظلم و تشدد ہوا اس پر درج ذیل کتابیں رقم کی گئی تھیں:
1۔ پیر پور رپورٹ 1938ئ
2۔ شریف رپورٹ 1939ئ
3۔ اے کے فضل الحق Muslim Sufferings under Congress Rule -1939
نتیجہ یہ کہ کانگریس حکومت کی برطرفی کے بعد قائداعظم نے22 دسمبر1939ء کو یومِ نجات منانے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ یومِ نجات پورے برصغیر میں منایا گیا تھا اور کہیں بھی تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمانوں کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا۔ یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا۔ کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ ''لڑ کے لیں گے پاکستان'' ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا۔
جب برطانوی ہند کے مسلمانوں نے انتخابات میں اپنی رائے عامہ کی بنیاد پر قیام پاکستان کو یقینی بنا دیا تب برطانوی سامراج اور انڈین نیشنل کانگریس نے مشترکہ طور پر برصغیرپاک و ہند کو متحد رکھنے کی خاطر کیبنٹ مشن کے اجلاس شروع کر دیے۔ درحقیقت کابینہ مشن قیامِ پاکستان کو روکنے اور اکھنڈ بھارت کے قیام کا مشن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن چکی تھی۔ ایسے میں جب قائداعظم نے کیبنٹ مشن کا بائیکاٹ کر کے ''راست اقدام'' کی سیاست کا آغاز کیا تو برصغیر کے گلی کوچوں میں اس طرح کے نعرے گونجنے لگے تھے:
لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان
اور
بٹ کے رہے گا ہندوستان
بن کے رہے گا پاکستان
اِس عوامی جمہوری قوت کو انتشار میں مبتلا کر کے بھارت کی سامراجی وحدت کا حصول برطانوی استعمار اور امریکی حکومت کا ایک مشترکہ مقصد بن چکا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج مغرب کی استعماری قوتیں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کی خاطربھارت کی مکمل حمایت کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی نے 15مارچ 1946ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا:
"We are very mindful of the rights of the minorities. On the other hand we cannot allow a minority to place a veto on the advance of a majority."
درج بالا اعلان اِس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ برطانوی استعمار مسلمانوں کو ایک الگ قوم اور اپنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کے بجائے ایک جداگانہ، منفرد اور مہذب قوم قراردیا تھا۔ اِسی محکم استدلال کی ہر آن تازہ تر تشریح قائداعظم کے حصے میں آئی تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت کے اِس تصور کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا کر مسلمانوں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے پرچم تلے جمع کر لیا تھا۔ ایسے میں برطانوی وزیراعظم کی یہ دھمکی کہ وہ مسلمان ''اقلیت'' کو ہندو اکثریت کے مفادات پر ویٹو کا حق ہر گز نہ دیں گے، قابل غور ہے۔ اِس پُرفریب جملے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ برطانوی استعمار برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی پاکستان قائم کرنے کی اجازت نہ دے گا۔ برطانوی استعمار کی اپنے اِس مذموم مقصد کے حصول میںناکامی صرف ایک شخص کے ایمان محکم اور جرأتِ کردار کا نتیجہ تھی۔ اِس عظیم شخصیت کو دُنیا قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے پہچانتی ہے۔
قائداعظم برطانوی استعمار کے مکرو فریب سے بھی آگاہ تھے اور اُس کی اندرونی کمزوریوں سے بھی خوب واقف تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں قائداعظم نے کیبنٹ مشن کے عیار ترین اور طاقتور ترین رُکن سرپیتھک لارنس کو ایک ایسا مداری (that ingenious juggler of words) قرار دیا تھا جو لفظوں کے گورکھ دھندوں سے فریب کے جال بُننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایک برطانوی سیاسی مؤرخ لیونارڈ موزلے اپنی کتاب بعنوان 'The Last Days of the British Raj' میں لکھتا ہے کہ قائداعظم سے ملاقات کے تصور ہی سے کابینہ مشن کے ارکان کی جان جاتی تھی:
"Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistant demand for Pakistan or nothing."
چنانچہ قائداعظم نے مذاکرات کی میز پر بھی ہتھیار پھینک دینے کی بجائے دادِ شجاعت دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ نتیجہ یہ کہ جب کابینہ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگریسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ غُل مچا کہ ہم ایک پاکستان پر بھی تیار نہیں مگر آل انڈیا کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد نے دو پاکستان دے دیے ہیں۔ چنانچہ بلاتاخیر مولانا آزاد کو مسندِ صدارت سے ہٹا کر جواہر لعل نہرو کو کانگریس کا صدر مقرر کر دیا گیا۔ پنڈت نہرو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے لفظ تو وہی رہنے دیے مگر معنی تبدیل کر کے رکھ دیے۔ حرف و معنی کے اِس تصادم پر قائداعظم کے ردِعمل کو لیونارڈ موزلے درج ذیل لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
"Mr. Jinnah reacted to Nehru's statement like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrell of a revolver."
جلد وہ وقت آ پہنچا جب قائداعظم نے اعلان کیا کہ اب ہم بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وقت برباد کرنے کے بجائے زندگی کے کھلے میدان میں مسلمان قوم کی عوامی عدالت میں جائیں گے۔ چنانچہ 16اگست 1946کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے (راست اقدام کے آغاز کا دن) قرار دے دیا گیا۔ جولائی کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ بمبئی میں اپنے خطاب کے دوران قائداعظم نے اعلان فرمایا کہ:
"...All these prove clearly beyond a shadow of doubt that the only solution of India's problem is Pakistan. I feel we have exhausted all reasons. It is no other tribunal to which we can go. The only tribunal is the Muslim nation."
چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے ایک قرارداد میں مسلمان عمائدین سے مطالبہ کیا کہ برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن حکمتِ عملی پر احتجاج کے طور پر وہ تمام برطانوی خطابات واپس کر دیں اور برطانوی ہند کی انگریز حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کریں:
"The time has come for the Muslim nation to resort to direct action to achieve Pakistan and to get rid of the present slavery under the British and contemplated future Caste Hindu domination."
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمانوں کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا۔ یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا۔ کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ ''لڑ کے لیں گے پاکستان'' ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا۔
مضمون نگار ایک ممتاز دانشور ہیں۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق ریکٹر ہیں۔ آپ کی تحاریر قومی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے