افواج پاکستان کا کردار ملکی سلامتی، خود مختاری ،یکجہتی، دفاع وطن، آزادی، سا لمیت اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لئے بڑا سنہرا، تاریخی اور شاندار رہا ہے۔ہماری عسکری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک و قوم پر کڑا وقت آیا، افواج پاکستان قوم کے شانہ بشانہ آ گئیں۔ قوم اور افواج کے درمیان باہمی اتحاد اور محبت کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ہماری افواج ملک کو درپیش بیرونی و اندرونی ہر قسم کے چیلنجز سے نبرد آزما رہتی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کو زندہ گرفتار کرنا افواج پاکستان کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔افواج پاکستان نے بلوچستان میں کلبھوشن نیٹ ورک کا خاتمہ کیا۔ اس جاسوس کو دنیا کے سامنے لا کر اقبالِ جرم کرا یا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی گھنائونے چہرے کو بے نقاب کردیا۔ ہماری فورسز نے کراچی، بلوچستان ، شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات میں سرچ آپریشنز کے دوران دہشت گردوں کے بے شمار سہولت کاروں کو گرفتار کرکے منطقی انجام تک پہنچایا۔
قیام پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں تھاجبکہ پاکستان کی دفاعی اورنظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔ پاک فوج وطن کے گوشے گوشے کی محافظ و نگہبان ہے۔ کوئی مشکل ان کے ملک و قوم کی حفاظت کے بے مثال عزم کے آڑے نہیں آتی اور نہ ہی بیرونی سازشیں ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا کرتی ہیں۔ یہ ہماری عسکری تاریخ کا ایک شاندار باب ہے کہ ہمارے بہادر جوان اور آفیسرز وطن عزیز کے دفاعکے عزم سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق یہ سب جرأت و جوانمردی کے استعارے ہیں۔ ان کی جرأت کو اقبال نے اپنی شاعری میں یوں بیان کیا ہے۔
کوئی اندازہ کر سکتاہے اس کے زوربازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اور
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
میدان جنگ میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوکر نشانِ حیدر کا اہل قرار پانا،اپنے سینوںپر بہادری کے تمغے سجانا اور ملک وقوم کی خدمت میں لاکھوں قربانیاں دینا کوئی ان سے سیکھے۔نہ مال غنیمت کا شوق اور نہ کشور کشائی کی طلب۔ آخر یہ تیرے پر اسرار بندے کون ہیں۔ وہ کونسا جذبہ ہے جو انہیں وطن کی حرمت پر جان نچھاور کرنے لیے بے تاب رکھتا ہے۔ وہ معذوریاں برداشت کرتے ہیں۔ اپنے گھروں اور پیاروں سے سیکڑوںکلو میٹر دور سرحدوں پر چاک چوبندکھڑے رہ کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم سب کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جب تک دانہ مٹی میں نہ ملے تب تک گلزار نہیں کھلتا۔
قومی سلامتی کے ان محافظوں کو بیک وقت بہت سارے محاذوں پر بر سر پیکار رہنا پڑتا ہے ۔ یہ ایک طرف دشمن کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ملک کے اندر امن وامان کی صورت حال کو قائم ر کھے ہوئے ہیں۔ برف پوش سر بکف پہاڑ ہوں یا ریتلے میدان، ''یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے'' ملکی سرحدوں کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے۔7 اپریل2012ء کی صبح چھ بجے کا وہ دلخراش واقعہ ہمیں آج بھی یاد ہے جب ناردرن لائٹ انفنٹری بٹالین کے150 جاں نثار سیاچن کے گیاری سیکٹر میں ایک برفانی تودے کی زد میں آکر منصب شہادت پر سرفراز ہوئے تھے۔وہ سب دنیا کے بلند ترین محاذ جو سطح سمندر سے4000 میٹر بلند ہے، پرمنفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ سردی کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے وطن کی حفاظت پر معمور تھے۔آج بھی ہمارے کئی جوان ان کی جگہ سنبھالے دفاع وطن کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔
قومی سلامتی کے تحفظ اور اپنی خود مختاری کو قائم رکھنے کے لیے ریاستیں اکثر ایسے تنازعات اور جنگوں میں الجھ جاتی ہیں جو بعض اوقات عالمی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ عصر حاضرمیں غزہ اور اسرائیل کا تنازعہ، جبکہ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر اس حقیقت کی درد ناک مثالیں ہیں۔ اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر کڑا وقت آیا وہ اپنی قومی سلامتی اور خود مختاری کو قائم رکھنے کے لیے سینہ سپر ہو گئی۔ فلسطین کے مسلمان کئی دہائیوں سے اپنی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ کشمیری عوام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی سات دہائیوں پر مشتمل ایک ایسی درد ناک تاریخ موجود ہے جو ہمیں بار بار یاد دلاتی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، قومی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کی قومی سلامتی اور خود مختاری کو جتنا خطرہ بیرونی سازشوں اور دشمن سے ہے اتنا ہی اندرونی دشمن اور سازشی عناصر سے بھی ہے۔داخلی دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ وہ اندر کے بھید جانتا اور پوشیدہ رہ کر وار کرتاہے۔ لہٰذا اس سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی شناخت کرناجان جوکھوں کا کام ہے۔ افواج پاکستان نے اس چھپے ہوئے دشمن پر بھی کئی بار کاری ضربیں لگا ئی ہیں۔
مسلمہ امرہے کہ قوموں اور ریاستوں کو اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے۔ کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے جو خدائی امدادپربھروسہ رکھتے ہوئے جارحین کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسوۂ رسول ۖ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔بدر کے میدان میں کفر و اسلام کی پہلی جنگ کے دوران گو کہ مسلمان تعداد میں کم تھے مگرقوت ایمانی کے بل بوتے پر انہوں نے اپنے سے دو گنا لشکر پر قابو پا لیا۔
پاکستان کی قومی سلامتی اور خود مختاری کو جتنا خطرہ بیرونی سازشوں اور دشمن سے ہے اتنا ہی اندرونی دشمن اور سازشی عناصر سے بھی ہے۔داخلی دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ وہ پوشیدہ رہ کر وار کرتاہے۔ لہذا اس سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کی شناخت کرناجان جوکھوں کا کام ہے۔ افواج پاکستان نے اس چھپے ہوئے دشمن پر بھی کئی بار کاری ضربیں لگا ئی ہیں۔
پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ہماری افواج ملک کو درپیش بیرونی و اندرونی ہر قسم کے چیلنجز سے نبرد آزما رہتی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کو زندہ گرفتار کرنا افواج پاکستان کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔افواج پاکستان نے بلوچستان میں کلبھوشن نیٹ ورک کا خاتمہ کیا۔ اس جاسوس کو دنیا کے سامنے لا کر اقبالِ جرم کرا یا اور بھارتی گھنائونے چہرے کو بے نقاب کردیا۔ ہماری فورسز نے کراچی، بلوچستان ، شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات میں سرچ آپریشنز کے دوران دہشت گردوں کے بے شمار سہولت کاروں کو گرفتار کرکے منطقی انجام تک پہنچایا۔
دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے حوالے سے فوجی آپریشنز کی تاریخ بہت طویل ہے۔15 جون 2014ء کو شمالی وزیرستان کی وادی شوال کی پُرپیچ گھاٹیوں، کھائیوں اور دتہ خیل کے سنگلاخ پہاڑوں میں''آپریشن ضربِ عضب'' شروع کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردحملوں میں70فیصد کمی واقع ہوئی۔یہ آپریشن جاری تھا کہ بزدل دشمن نے 16 دسمبر2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پرحملہ کرکے پرنسپل،ٹیچرز اور معصوم بچوںسمیت کم و بیش150افراد کو شہید کردیا۔افواج پاکستان اس طرف متوجہ ہوئیں جس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید تیزی دیکھنے کو ملی۔ اگست2016 ء میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک آپریشن راجگل(Rajgal) ہوا جسے خیبر ون، ٹو اور تھری بھی کہا گیا۔ راجگل خیبر ایجنسی کی ایک چھوٹی سی وادی ہے جو افغانستان سے متصل ہے۔ یہ وہی وادی ہے جہاں ضربِ عضب سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں نے پناہ لی تھی۔ان تمام دہشت گروں کا قلع قمع کر دیا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا حکومتی فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ غیر قانونی افغان تارکین وطن کی موجودگی سے قومی سلامتی کوکئی مسائل درپیش تھے جن کا قلع قمع کرنا بہت ضروری تھا۔ اس فیصلے کے بعدملک میں دہشت گرد حملوں میں تیزی آئی جو واضح طور پر افغانستان سے متحرک ان دہشت گرد تنظیموں کا ردعمل ہے جن کے سہولت کار پاکستان میں موجود ہیں۔دہشت گردی کی یہ گھناونی کارروائیاں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے غیر قانونی افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لیے کیے گئے درست فیصلے کی تصدیق کرتی ہیں۔
محاذِ جنگ پر افواج پاکستان کا کردار انہیں تابناکی سے سرفراز کرتا ہے۔ آپریشن دیر، آپریشن بونیراور آپریشن بلیک تھنڈر۔ آپریشن راہِ راست، آپریشن راہِ نجات اور آپریشن راہِ حق بھی پاک فوج کی جرأت کی طویل کہانی بیان کرتے ہیں جن کے بعد وطن عزیز کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ناپاک وجود سے نجات ملی۔2017ء میں شروع ہونے والا آپریشن ردالفساد دشمن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ آپریشن اس لیے بھی خاصا مشکل تھا کہ شہری آبادی میں چھپا ہوا دشمن تلاش کرنا کافی مشکل کام تھاتاہم ملک بھر سے دہشت گردوں اور خود کش بمباروں کی ایک کثیر تعداد حراست میں لی گئی۔ صوبوں میں چھاپہ مار مہم کا آغاز ہوا۔ سیکڑوں دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پکڑے گئے۔ پاک فوج نے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود سے وطنِ عزیز کو پاک کرنے کی خاطر بلاامتیاز آپریشن کرکے امن بحال کرنے میں مقدور بھر اور جان لیوا کوششیں کیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کو ان کے ملک واپس بھیجنے کا حکومتی فیصلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ غیر قانونی افغان تارکین وطن کی موجودگی سے قومی سلامتی کوکئی مسائل درپیش تھے جن کا قلع قمع کرنا بہت ضروری تھا۔ اس فیصلے کے بعدملک میں دہشت گرد حملوں میں تیزی آئی جو واضح طور پر افغانستان سے متحرک ان دہشت گرد تنظیموں کا ردعمل ہے جن کے سہولت کار پاکستان میں موجود ہیں۔دہشت گردی کی یہ گھناونی کارروائیاں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے غیر قانونی افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لیے کیے گئے درست فیصلے کی تصدیق کرتی ہیں۔
قومی سلامتی کو دوام بخشنے کے لیے سیلف ڈیفنس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال فلسطین اسرائیل تنازع کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیںاٹھائے۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی تنازع، جنگ، اندرونی یا بیرونی جارحیت کی صورت میں کوئی بیرونی طاقت ہمیں بچانے نہیں آئے گی۔ ہمیں اپنا بچائو خود کرناہے جو کہ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت اور عزم کی بدولت ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ہماری مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ہمارے نجات دہندہ ہوں گے۔ بحیثیت قوم ہمیں چاہیے کہ نہ صرف ان کے ساتھ کھڑے ہوں بلکہ ان کے ہر ان اقدامات کی حمایت کرتے ر ہیں جو ہمارے لیے امن و سلامتی کی نوید لاتے ہیں۔
مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے