وطنِ عزیز پاکستان، خداوندِ کریم کا ہم پر احسان ہے۔ یہ وطن ہمارے آبائواجداد کی شبانہ روز محنت،لگن اور انتھک کاوشوں کا ثمر ہے۔ مختلف ثقافتوں، زبانوں، قبیلوں اور رنگوں کا حسین امتزاج ایک حسین لفظ پاکستان کی صورت میں اقوامِ عالم میں ہماری یکجہتی اور پہچان کی علامت ہے۔ جس طرح 1400 سال پہلے عرب کے مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو ہمارے نبی کریمۖ کی تعلیمات نے اسلام کے جھنڈے تلے ایک امت بنایا، بالکل اسی طرح 'پاکستان کا مطلب کیا لا اِلٰہ اِلا اللہ ' کے خوبصورت نعرے نے برصغیر کے تمام مسلمانوں کو یکجا کر کے ایک قوم بنا دیا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم وطنِ عزیز ہی وہ قوت تھی جس نے ہمارے اسلاف کو بخوشی اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کا راستہ دکھایا اور پھر اک طویل جدوجہد اور قربانیوں کی ان گنت داستانیں رقم کر کے ہمارے بزرگوں نے محبت کے ایک ایسے رشتے کو اسلامی بھائی چارے اور اخوت کے بندھن میں باندھا کہ جس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔ نظریہ پاکستان کے حوالے سے قائدِ اعظم نے مارچ 1944 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پہلے ہی فرمادیا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا ایک ایسا ملک کہ جس کی مٹی کی خوشبو، روح میں مسرت اور جسم میں لہو کی روانی کو محبت سے سیراب کر دے وہی ہماری پہچان، ہماری شناخت اور ہماری آنے والی نسلوں کے شاندار اور روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ اپنی مٹی سے وفا ہمارے لیے یقینا ایک ایسی شرط ہے جو ہماری نس نس میںشامل ہے۔
شرطِ اول ہے وفا اپنی زمیں سے راشد
جس میں یہ صفت نہیں اس سے ہیں حیواں اچھے
تاریخ کی کتابوں میں حضور اکرمۖ کے اپنے وطن سے محبت کے خوبصورت کلمات سنہری حروف میں ثبت ہیں۔ جب آپ ۖاپنے وطن مکہ مکرمہ کو کفار کی ظلم و زیادتی کی وجہ سے چھوڑ کر مدینہ ہجرت فرما رہے تھے تو آپۖ نے ارشاد فرمایا ''اے مکہ !! تو کتنا پیارا شہر ہے، تو مجھے بہت محبوب ہے۔ اگر کفار مجھے یہاں سے نکلنے پہ مجبورنہ کرتے تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا''۔ ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب آپ ۖ خیبر سے لوٹے اور آپ کو احد کا پہاڑ دکھائی دیا تو آپۖ نے فرمایا 'ھٰذا جبل یحبنا ونحبہ' ''یہ پہاڑمجھ سے محبت کرتا ہے' اور میں اس سے محبت کرتا ہوں''۔ہمیں بحیثیت قوم اپنے ملک کو اسلامی تعلیمات، بانیِ پاکستان کے فرمودات اور انفرادی و اجتماعی کردار سے محبت کے لازوال رشتوں میں پرونا ہے کہ وقت پڑنے پہ اپنی جان، مال اور کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کریں اور اس کی بقا کے لیے ہر آزمائش ، ہر خطرے اور ہر تکلیف کو ہنس کر جھیل سکیں۔
ہمیں بطورذمہ دار شہری یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ دینِ اسلام کی اقدار کی حفاظت ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے کیونکہ ہم نے آزاد وطن حاصل ہی اس لیے کیا تھا کہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ یہاں بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکے اور ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داری ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جو پاکستان میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں، ان کیلئے جذبہ حب الوطنی اور دوستی کی فضا پیدا کریں اور پاکستانی ہونے کے ناتے ان کی مذہبی رسومات کی عزت و احترام کی نظر سے دیکھیں۔بانی پاکستان قائداعظم کے فرمودات کی روشنی میں دیکھیں تو انتہائی واضح الفاظ میں قائد کا آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کا خطاب ہماری رہنمائی کرتا ہے جس کے سالانہ اجلاس میں آپ نے فرمایا ''ہماری تعلیم ہمیں حکم دیتی ہے کہ مسلمان حکومت میں ہر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ عدل و انصاف کا برتائو کیا جائے۔ اسی طرح 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا آپ آزاد ہیں،آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، آپ ملک ِ پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں''۔
بلاشبہ وطنِ عزیز ہمارے جذبوں کا، ہماری امنگوں کاترجمان ہے۔ ہماری خواہشات اور بقا کا حسین عکس ہے۔ ہمارا جینا مرنا اس پاک مٹی سے وابستہ ہے۔ ہمارے ملک کا سبز ہلالی پرچم ہماری پہچان اور ملک سے محبت کا وہ عملی ثبوت ہے جو ہمیں ملک کی بلند وبالا عمارتوں، سکولوں، گلی محلوں، کھیتوں کھلیانوں، شہروں اور گائوں کے قبرستانوں میں شہیدوں کی پاک قبروں پہ لہراتا دکھائی دیتا ہے تو ہمارے ایمان اور سلامتی کو تقویت بخشتا ہے۔ ہمارا دین بھی ہمیں پرچم کے تقدس کا درس دیتا ہے۔ اسلامی جنگوں میں علم کی سر بلندی کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ ہر غزوہ اور جنگ کے دوران اسلامی فوج نے ہمیشہ اپنے پرچم کو بلند رکھا، اگر ایک علم بردار شہید ہوا تو فوراً دوسرے مجاہد نے لپک کر اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور گرنے نہیں دیا۔ ایسا ہی واقعہ جنگ موتہ میں بھی پیش آیا جس علم کی تکریم میں بہت سے صحابی شہید ہوئے لیکن اسلام کے مجاہدوں نے اپنے پرچم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ پرچم کی سربلندی نے مسلمانوں میں وہ جذبہ اور قوت بھری کہ انہوں نے سیسہ پلائی دیوار کی مانند عدوکو ناکوں چنے چبانے پہ مجبور کیا اور عددی برتری کے باوجود عبرتناک شکست و ہزیمت دشمن کا مقدر ٹھہری۔
وطنِ عزیز کے غیور اور جرأت مند بہادر سپاہی مختلف صوبوں ، مختلف ثقافتوں، مختلف زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر جب ایک پرچم کے سائے تلے اکٹھے ہو کر دشمن سے لڑتے ہیں تو ہر تفریق ختم ہو جاتی ہے اور پہچان کی واحد علامت ہمارا ملک، ہمارا دین،ہمارا پرچم ہی رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہیدوں کے جسدِ خاکیسبز ہلالی پرچم میں لپٹے جب مختلف صوبوں، مختلف شہروں اور گائوں میں لوٹائے جاتے ہیں تو پوری قوم ان کی شہادت پر یکجان دکھائی دیتی ہے۔ شہادت کی تڑپ لیکر ہر فوجی خواہ وہ کسی بھی رینک سے ہو، جبخاکی وردی پہنتا ہے تو سینے پر سجا سبز ہلالی پرچم اس کی شناخت ہوتا ہے اور کمبٹ کیموفلیج ڈریس (CCD) کے بائیں بازو پہ چمکتا یہی پرچم اسے اپنے باقی افسروں ، سردار صاحبان اور جوانوں سے ایک ایسے رشتے میں جوڑ دیتا ہے جہاں صوبے ، رنگ و نسل، فرقے، زبان کا ہر فرق ، ہر امتیاز، ہر تاثر ختم ہو جاتا ہے اور وہ والہانہ محبت کے جذبے سے سرشار اپنی شناخت یوں بیان کرتا ہے۔
زبان، رنگ و نسل ، قوم کے سوالوں پر
مرا جواب، ہر ایک بار، صرف پاکستان
اور پھر اللہ کے یہ مردِ مجاہد ایک ملک، ایک دین، ایک پرچم کی سلامتی کے لیے دشمن کی صفوں پہ ہیبت بن کر ٹوٹتے ہیں۔ اللہ کے رستے میں مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔بہادروں کی اس جماعت میں جو خوش قسمت شہادت کے عظیم درجے کو پا لیتا ہے وہ اسی پرچم میں لپیٹ دیا جاتا ہے اور جو غازی لوٹتا ہے اس کے بازو پر یہی سبز ہلالی پرچم ،وطنِ عزیز کی سلامتی اور بقا کی نوید قائم کرتادکھائی دیتا ہے جسے دیکھ کر وہ بے اختیار بول اٹھتا ہے:
شہادت جب ملے گی اوڑھ کے لوٹوں گا گھر راشد
مرے بازو پہ جتنے دن یہ پرچم ہے، میں غازی ہوں
ہمارا ملک، ہمارا دین، ہمارا پرچم ہمارے اسلاف کی ان تعلیمات کا مظہر ہے جو ہمارے اتحاد ، یکجہتی اور باہمی اخوت کی روشن مثال ہے۔ یہ نعرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے سب لوگ برابر ہیں۔ یہاں مذہب، فرقہ، رنگ و نسل ، قبیلہ یا صوبہ کسی امتیاز کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ہم سب کو باہم یکجا کرنے کا ایک ایسا رشتہ ہے جو ہمیں قرآن کریم ،ہمارے محبوب نبی ۖ اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسے جسم کی مانند جوڑتا ہے کہ جب اس کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔
وطنِ عزیز کو درپیش اندورنی اور بیرونی خطرات واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیںکہ دشمن اپنی مکروہ چالوں کے ذریعے ہماری صفوں میں انتشار پھیلانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ہمارے آج کے نوجوان خواہ وہ کسی بھی سکول، کالج ، یونیورسٹی یا مدرسے سے تعلق رکھتے ہوں اتنے باشعورہیں کہ دشمن کے گھنائونے وار اور اس کے پیچھے پوشیدہ مقاصد اچھی طرح سمجھتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔اس کے آئین اور نظامِ حکومت کی بنیاد اسلامی اصولوں پررکھی گئی۔ قائد اعظم ،علامہ محمد اقبال اورسرسید احمد خان سمیت ہر قائد نے اسلامی وحدت کی شمع تھام کر اس نئی مملکت کی راہ ہموار کی۔ آج کے نوجوانوں کو اس بات کا بھی شعور ہے کہ 23 مارچ 1940 میں 'پاکستان کا مطلب کیا۔لا اِلہ اِلا اللہ، ہی برصغیر کے مسلمانوں کا نصب العین تھا جس کی بنیاد پہ 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک نعمتِ خداوندی کی صورت میں قائم ہوا۔
جو لوگ بیرونی عناصر کی سازشوں کا حصہ بن کر اس بے بنیاد خیال کو پھیلاتے ہیں کہ خدانخواستہ ہمارے محبوب وطن پاکستان میں دین نہیں، ان کے لیے بس اتنا ہی پیغام ہے کہ ہمارا ملک ہمارا دین ،ہمارا پرچم ایک ایسا شاندار امتزاج ہے جسے کوئی بیرونی طاقت یا اندرونی سازش کبھی جدا نہیں کر سکتی۔ ''ہمارا ملک، ہمارا دین، ہمارا پرچم'' کا نعرہ اس عظیم رشتے کی عکاسی کرتا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکتی۔ یہی وہ رشتہ ہے جسے بنیاد بنا کر بابائے قوم نے فرمایا تھا:'' دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی''۔ یہی وہ رشتہ ہے جس کو مضبوط کرنے کے لیے ہر امتیاز سے بالا تر ہو کر ہماری بہادر افواج شب و روز دشمن کے سامنے ایک آہنی چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑی ہیں اور وفا کے دیپ اپنے لہو سے روشن رکھے ہوئے ہیں۔
سحر کو جا کے بتا دو کہ بے خطر نکلے
ہر اک محاذ پہ عشق و جنوں سلامت ہے
تبصرے