تاریخی اعتبار سے مدینہ منورہ کی ریاست کے بعد پاکستان دوسری ریاست ہے جو خالص نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوئی۔نظریاتی طور پر قائم ہونے والی ریاست کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا۔چترال کی وادیوں سے لے کر خلیج بنگال تک، بولان کے صحراؤں سے لے کر راس کماری کے ساحلوں تک، مختلف قومیتوں، نسلوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کو اس ایک کلمے نے ایک لڑی میں پرو دیا۔پاکستان کے قیام کی وجہ یہی کلمہ طیبہ تھا۔ ''پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ'' کی پکار اگر اس نعرے میں شامل نہ ہوتی تو برصغیر کے طول و عرض میں بسنے والے مختلف لوگ یک جان دو قالب نہ ہوتے۔اسی دین کی وجہ سے قائداعظم محمد علی جناح جو اردو بولنا نہیں جانتے تھے ان کی قیادت میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ برصغیر پر قابض قوتوں کے خلاف جو بھی تحریک چلی اس کے پس منظر میں اسی کلمے کی طاقت شامل تھی۔ ریشمی رومال کی تحریک ہو، جمال الدین افغانی کی تحریک یا پھر 1923 میں عثمانی خلافت کے خاتمے پر علی برادران کی تحریک خلافت، ان سب تحریکوں کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا۔کلمے کی بنیاد پر قائم ہونے والے دین کی یہ طاقت تھی کہ بر صغیر کے ان علاقوں کے مسلمان بھی اسی نعرہ پر اکٹھے ہو گئے جو یہ جانتے تھے کہ ان کا علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ہوگا۔بہار، یو پی، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں نے اس تحریک میں وہ کردار ادا کیا کہ جو تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ محض دین کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی اور خود بدترین فسادات کی زد میں آئے۔1947 کی تاریخی ہجرت بھی کلمے کی بنیاد پر تھی۔قائدا عظم محمد علی جناح سے قبل سرسید احمد خان نے بھی یہی واضح کیا اور پھر چودھری رحمت علی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1915 میں کلمے کی بنیاد پر ایک ملک کے قیام کی تجویز پیش کی اور پھر اسی نظریے کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یہی چیز پاکستان کو دوسری تمام ریاستوں سے ممتاز کرتی ہے۔ پاکستان کے قیام کی وجہ بھی دین ہے۔ پاکستان کے استحکام کی وجہ بھی دین ہے اور پاکستان کا مستقبل بھی دین کے ساتھ جڑے رہنے میں محفوظ ہے۔14 اگست 1948 کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہا۔جولائی 1948 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کے عزم کا اظہار کیا اور یہ تقریر آج بھی اپنے اصل الفاظ کے ساتھ ریاست پاکستان کے پاس محفوظ ہے۔نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے اقوال کے مطابق مملکت پاکستان ایک ایسی مملکت کی تشکیل تھی جس میں آزادی کی حدود بھی قرآن سے متعین تھی اور پابندی کا تصور بھی دین سے اخذ کردہ تھا۔ایک ایسی ریاست جس کا کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہو۔ بلکہ مملکت کا جمہوری اور معاشی نظام اسلامی اصولوں اور اسوہ حسنہ کے عین مطابق تجویز کیا گیا۔
پاکستان کے نظریاتی تشخص کی ترویج کیوں ضروری ہے؟
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے طریقے بدل گئے ہیں اب جغرافیائی قبضوں کے بجائے نظریاتی تسخیر کی جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمن قوتوں نے اسی دین کو اپنا ہتھیار بنا کر پاکستان کے نظریاتی تشخص پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات اپنی قوم کو بتائی جائے کہ پاکستان سے محبت نہ صرف قرآن کا منشا ہے بلکہ رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سنت بھی یہی ہے۔اور جو لوگ مذہب کی آڑ لے کر پاکستان کی نظریاتی یا جغرافیائی شناخت پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں انہیں ہم دین کی طاقت سے اور قرآن کی قوت سے پسپا کریں گے۔پاکستان کی بنیاد ایک دین پر ہے، پاکستان کی شناخت بھی وہی دین ہے اور پاکستان کا لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم بھی دراصل کلمہ طیبہ کے اعلان کاایک طریقہ ہے۔
وطن سے محبت کا قرآنی اسلوب
آنے والی سطور میں ہم قرآنی آیات کی مدد سے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ جس مملکت خداد میں ہم قیام پزیر ہیں اس سے الفت و محبت رکھنا کس طرح دینی لحاظ سے اہم ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے وطن سے محبت کا انداز
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo
(براہیم، 14: 35)
اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاہِ اِلٰہی میں عرض کیا:
رَبَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَo
(براہیم، 14: 37)
اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور وطن سے محبت
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَo
(المائدة، 5: 21)
اے میری قوم! (ملک شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔
وطن سے محبت،سورہ توبہ میں تذکرہ
سورہ توبہ کی درج ذیل آیت میں مَسٰکِن سے مراد مکانات بھی ہیں اور وطن بھی ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ ٰفَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہِ وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo
(التوبة، 9: 24)
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں محبتِ وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اِس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔
وطن کی حفاظت کے لیے جنگ کرنے کا حکم
درج ذیل آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُo نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یََّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ.
(الحج، 22: 39ـ40)
ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔
آزاد وطن ملنے پر شکر کرنے کی ترغیب
درج ذیل آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن ملنے پر شکر بجا لانے کی ترغیب دلائی ہے:
وَاذْکُرُوْا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْل مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہِ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
(الانفال، 8: 26)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے (یعنی اقلیّت میں) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے (یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے) تم اس بات سے (بھی) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور) لوگ تمہیں اچک لیں گے (یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا) پس (ہجرت مدینہ کے بعد) اس (اللہ) نے تمہیں (آزاد اور محفوظ) ٹھکانا (وطن) عطا فرما دیا اور (اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات، اموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم (اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا) شکر بجا لا سکو۔
درج بالا میں مذکور آیاتِ قرآنیہ سے وطن کے ساتھ محبت کرنے، وطن کی خاطر ہجرت کرنے اور وطن کی خاطر قربان ہونے کا شرعی جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس طرح کی متعدد آیات قرآن کریم میں جا بجا موجود ہیں۔اور جہاں جہاں قرآن کریم میں قرآن کی وطن سے محبت کا ذکر ہے تو یقینا یہ وہی ریاست ہے جو دین کے نام پر قائم ہوئی تھی اور جو کلمے کی بنیاد پر جس کو پروان چڑھایا گیا تھا اور جس پر توحید کا پرچم لہرا رہا تھا اسی طرح پاکستان جو دین کے نام پر قائم ہوا جس کے استحکام کی وجہ کلمہ طیبہ ہے اور اس کی پیشانی پر توحید کی علامت سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے جس میں سفید رنگ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی علامت ہے اس سے محبت کرنا اور دین کی مدد سے اس میں استحکام برقرار رکھنا یہ بھی قرآن کے مزاج کے عین مطابق ہے۔
وطن کی محبت احادیث طیبہ کی روشنی میں
امام سہیلی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''الروض الانف ''میں وطن کی محبت کے حوالے سے باقاعدہ ایک باب باندھا ہے: ''حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَطْنَہُ'' (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ پھر جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً فرمایا:
اَوَ مُخْرِجِیَّ؟
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟
یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
فَفِیْ ہٰذَا دَلِیْل عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِہِ عَلَی النَّفْسِ.
اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔
(الروض الانف للسہیلی، 1: 413ـ414، طرح التثریب فی شرح التقریب للعراقی، 4: 185)
امام زین الدین العراقی نے بھی یہ سارا واقعہ اپنی کتاب 'طرح التثریب فی شرح التقریب کی جلد چہارم' میں بیان کرتے ہوئے وطن سے محبت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:
اللّٰہُمَّ! ِنِّی اُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لَابَتَیْہَا کَتَحْرِیمِ ِبْرَاہِیمَ مَکَّةَ. اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی صَاعِنَا وَمُدِّنَا.
(صحیح البخاری، 3: 1058، رقم: 2732، صحیح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)
اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔
یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ آنسووں سے تر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تُشَوِّقْنَا یَا فُلَانُ.
اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔
جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا:
دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ.
(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السیرة الحلبیة، 2: 283)
دلوں کو اِستقرار پکڑنے دو (یعنی اِنہیں دوبارہ مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو)۔
اختتامیہ
ہم نے قرآن و حدیث کے حوالے سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش ہے کی کہ وطن سے محبت عین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اور اللہ تعالی کے فرامین کے مطابق ہے۔(اس لیے دین کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں تمام قومیتوں کے حامل لوگ اگر اکٹھے ہیں تو دین کے نام پر، اگر ان کی اجتماعیت قائم ہے تو وہ ایک دین کے نام پر، اگر وہ ایک پرچم کے تلے جمع ہیں تو وہ پرچم کلمہ توحید کی بنیاد پر لہرا رہا ہے اورجو شخص یا کوئی گروہ کسی بھی حوالے سے دین کا نام استعمال کر کے ہمارے ملک یا قومی شعائر پر حملہ کرے) اس کی توہین کرے تونہ صرف اس کو روکنا شرعی تقاضہ ہے بلکہ اس کے سد باب کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا بھی عین قرآن اور سنت کے مطابق ہے
رہے تا ابد فروزاں تیرا خاور درخشاں
تیری صبح نور افشاں کبھی شام تک نہ پہنچے
تبصرے