بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے،حال ہی میں جمہوریت کے قاتل بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کے اسیر رہنما سید شبیر احمد شاہ کی جماعت ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت کے منقولہ وغیر منقولہ اثاثہ جات کو قبضے میں لینے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ نے یہ پابندی عائد کرتے ہوئے جماعت پر پاکستان حمایت اور بھارت مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی 1998 میں شبیر احمد شاہ کی سربراہی میں سری نگر میں قائم ہوئی اور اس وقت سے یہ تنظیم حریت کانفرنس کی ایک سرگرم اکائی ہے۔ پابندی کے حکم نامہ میں شبیر احمد شاہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بارہا اپنا مؤقف دہرا رہے ہیں کہ جموں و کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اور اس کا حل دستور ہند کے دائرے میں نہیں نکالا جا سکتا۔اس طرح وہ دستور ہند کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ اس کے علاوہ بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ بھارت کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے کارکن بھی بھارت مخالف تحریک میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ شبیر احمد شاہ وہ حریت شخصیت ہیں کہ جن کو بھارت نے سب سے زیادہ قید میں رکھا اور جیلوں میں ان پر بے پناہ تشدد ہوا ،قریباً 17 سال جیل میں گزر گئے۔انہیں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ضمیر کا قیدی قرار دے چکے ہیں۔ وہ آخری بار 2017 میں گرفتار ہوئے اور مسلسل چھ سال جیل میں ہی گزر گئے۔شبیر احمد شاہ کشمیر میں سید علی گیلانی مرحوم کے بعد طویل ترین قید کاٹنے والے رہنما اور ان قیدیوں میں شامل ہیں جن کے ساتھ جیلوں میں ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ اہل خانہ کو ملنے کی بھی اجازت نہیں۔ زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گزارنے والے شبیر احمد شاہ نوے کی دہائی کے آغاز میں کشمیر کے مقبول ترین رہنما تھے، بعد میں بھارتی حکومت نے انہیں جیل میں بند کر دیا۔شبیر احمد شاہ کے اہل خانہ ان کی صحت کے حوالے سے اکثر خدشات اور خطرات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔بھارت شبیر شاہ کی ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی سے قبل جماعت اسلامی جموں وکشمیر، پیپلزلیگ جموں وکشمیر اور لبریشن فرنٹ جموں و کشمیر سمیت آزادی کی بات کرنے والی کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دے چکا ہے اور ان سب جماعتوں کے قائدین اور کارکن جیلوں میں بند ہیں۔اسی دوران مقبوضہ کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے حوالے سے ایک اہم رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی جیلوں میں محبوس سیاسی قیدیوں کے حالات قابل رحم ہیں۔ان میں اکثر لوگ صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کی وجہ ناقص غذائیں،علاج کی نا کافی سہولیات، ذہنی تعذیب اور نفسیاتی ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں۔اس وقت جیلوں میں سیاسی اسیروں میں نوے کی دہائی کے مقبول کشمیری رہنما جنہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل ضمیر کا قیدی قرار دے چکی ہے، شامل ہیں۔ صرف شبیر شاہ ہی نہیں لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک بھی شدید بیماری کے باوجود کئی سال سے جیل میں بند ہیں اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' اور تحقیقاتی ایجنسی'' این آئی اے،'' تحقیقات اور تفتیش کے نام پر کشمیر کے اس عظیم حریت پسند رہنما کو اذیت ناک قید میں رکھ کر تحریک آزادی دبانا چاہتی ہیں۔جب ان کو مکمل تفتیش اور تحقیقات سے بھی کچھ نہ ملا تو دہشت گرد قرار دے کر سزائے موت دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، ان کی اہلیہ محترمہ مشعال ملک اور ان کی معصوم اکلوتی بیٹی رضیہ سلطانہ نے کئی بار عالمی اور قومی سطح پر یاسین ملک کی رہائی اور ان کے علاج معالجہ کے لیے آواز بلند کی مگر دنیا کے بے ضمیر امن اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اسی طرح دیگر حریت پسند رہنما نعیم خان، محترمہ آسیہ اندرابی، قاسم فکتو،مسرت عالم بٹ، انسانی حقوق کے علمبردار خرم پرویز اور فریدہ بہن جی سمیت درجنوں معروف ناموں کے علاوہ ہزاروں افراد جیلوں میں محبوس ہیں اور سیکڑوں نظر بند بھی ہیں۔محمد اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ جیسے قدآور رہنما جیلوں میں ہی انتقال کر گئے ہیں اور انہیں علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے صاف انکار کیا جاتا رہا۔ بابائے حریت سید علی گیلانی کو بھی گھر میں نظر بند رکھاجاتا رہا ان کو علاج معالجہ، چہل قدمی اور سماجی تقریبات و مسجد جانے کی بھی اجازت نہ تھی حتی کہ حالت نظر بندی میں ہی وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور ان کی نماز جنازہ میں بھی عوام کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
حال ہی میں چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس میرواعظ مولانا عمر فاروق کو 4 سال اور دو ماہ بعد رہا کیا گیا تھا اور ان کی نظر بندی ختم کی گئی تو وہ تاریخی جامع مسجد سری نگر تشریف لائے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور دھاڑیں مار مار کر روتے رہے، میرواعظ بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اوردلیرانہ مدلل جامع خطاب میں طویل بے جا نظر بندی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات سے نکالا جائے ورنہ دنیا کا امن تہہ وبالا ہو جائے گا۔ مگر چند روز بعد ہی ان کی آزادی پھر سلب کرلی گئی اور میرواعظ صاحب کو دوبارہ نظر بند کرکے خطیب سری نگر کی پرسوز آواز میں اللہ کا ذکر بھی بند کروادیا گیا۔ اسی طرح سید صلاح الدین کے بیٹے بھی اب قیدیوں میں شامل ہو چکے ہیں ۔
اہل خانہ کو قیدیوں سے ملاقات کے لیے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔عام شکایات ہیں کہ جیل حکام رشوت لے کر قیدیوں سے ملاقات کراتے ہیں۔اب ہر کشمیری پر یو اے پی اے، پی ایس اے کے کالے قوانین لاگو کرنا معمول بن گیا ہے۔ یہ سیدھا سادہ غداری اور بغاوت کا قانون ہے جس کے تحت جرم ثابت ہونے کی سزا موت اورعمر قید ہو سکتی ہے۔ قابل افسوس یہ کہ یہ قانون جنگلات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا مگر سازش کے تحت اب سیاسی مخالفین پر لگادیا گیا ہے مگر بھارت یاد رکھے کشمیر ی عوام اور قید وبند کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔1947کے بعد ہی جن کشمیریوں نے بھارت کے قبضے کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ بھارت نے انہیں جیلوں میں ڈال دیا۔یہ جیلیں صرف قید رکھنے کے لیے قائم نہیں تھیں بلکہ ان سے عقوبت خانوں کا کام بھی لیا جاتا تھا۔کشمیریوں کے اعصاب توڑنے کے لیے جیلوں کو نازی جرمنی کے انداز میں استعمال کرنا بھارت کی حکمت عملی رہی ہے۔
70 کی دہائی میں ایک معروف سیاسی کارکن غلام محمد بُلہ کو جیل میں اس قدر تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھا اور بعد میں وہ بارہ مولہ کی گلیوں میں عالم دیوانگی میں پاکستان پاکستان پکارتا ہوا نظر آتا تھا اور بعد ازاں صاحب فراش ہوکر چل بسا۔1990 کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں تو ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ان قیدیوں کو آزادی کے راستے سے ہٹانے کے لیے اور ان کے اعصاب توڑنے کے لیے ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے۔ ان میں بہت سے قیدیوں کواس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ عملی زندگی میں دوبارہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ان میں سے سیکڑوں قیدیوں کو جسمانی تشدد اور سیکڑوں کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنا کر جرم آزادی کی سزادی جاتی رہی۔ان میں بڑے اور قد آور سیاسی رہنما بھی شامل تھے اور عام سیاسی کارکن بھی،نوعمر لڑکے بھی اور 80 سالہ بزرگ اور خواتین بھی شامل تھیں۔ان میں کئی قیدیوں نے اپنے حالات کو مضامین اور کتابی شکل میں بیان بھی کیا۔تحریک آزادی کے رہنما سید علی گیلانی کی دوجلدوں پر مشتمل کتاب ''روداد ِقفس'' اس حوالے سے بہت سے روح فرسا واقعات سے بھری پڑی ہے۔یہ قیدیوں کے ساتھ90 کی دہائی میں ہونے والے سلوک کی ایک کہانی کے ساتھ ساتھ ادبی شاہکار بھیہے۔انجم زمرودہ حبیب کی کتاب ''قیدی نمبر ایک سو''بھی تہاڑ جیل میں بیتے ان کے تاریک دنوں کی کہانی ہے کہ کس طرح سیاسی قیدیوں کو عادی مجرموں کے ساتھ رکھ کر ذہنی اذیتیں دی جاتی تھیں ،ان میں قتل کے مجرم اور منشیات کے عادی قیدی بھی شامل تھے۔کشمیر کے معروف صحافی افتخار گیلانی کی تہاڑ جیل میں بیتے شب وروز کی کہانی ''مائی ڈیز اِن پرزن'' کے نام سے شائع ہوئی تھی۔اس میں بھی کشمیری قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی داستان بیان کی گئی ہے۔اس کتاب کا ترجمہ بعد میں تہاڑ جیل میں میرے شب وروز کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
جموں و کشمیر کے سیاسی قیدیوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہوتا وہ مجرموں اور عام قیدیوں سے الگ سلوک کے حقدار ہوتے ہیں مگر بھارت نے کشمیری قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔کشمیری قیدیوں کے جنازے بھی جیلوں میں اُٹھتے رہے۔محمد اشرف صحرائی اسکی زندہ مثال ہیں 74 سالہ محمد اشرف صحرائی جو کئی عارضوں میں مبتلا تھے آخر میں کرونا کا شکار ہوئے مگر بھارتی حکام ان کی موت کا نظارہ کرتے رہے اور انہیں عارضی طور پر بھی رہائی نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو تیمارداری کی اجازت ملی۔یوں قید کی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کو جیلوں میں پھانسی دی گئی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے جسدِ خاکی بھی ورثا کے حوالے نہیں کیے گئے۔کشمیری قیدیوں کو پیرول پر رہائی کا حق بھی نہیں دیا گیا۔حریت رہنما ایاز اکبر تہاڑ جیل میں عرصہ دراز سے بند ہیں، ان کی شریک حیات کینسر جیسے موذی مرض سے انتقال کرگئیں ان کے والد کرونا کے باعث انتقال کرگئے مگر بھارتی حکام نے انہیں ان کے جنازوں میں شرکت کے لیے پیرول پر رہائی نہیں دی۔ایسے بہت سے واقعات ہیں جب بھارت نے انسانی اور عالمی اصولوں اوراقدار کو پیروں تلے پامال کیا۔آج بھی کشمیر کی جیلوں میں سیکڑوں قیدی سڑ رہے ہیں، ان کے انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے، نہ ہی انہیں قیدیوں کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔ان میں سے بہت سے قیدی جو ظالمانہ قوانین کے تحت بند ہیں یہ جان چکے ہیں کہ ان کا مقدر یاتو پھانسی کا پھندہ ہے یا تمام عمر جیل میں سڑناہے کیونکہ بھارت میں کشمیر کی حد تک کوئی قانون اورآئین نہیں رہا۔یہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والے خرم پرویز خود ایک ایسی قید بھگت رہے ہیں جس میں وہ یا تو تمام عمر جیل میں گزاریں گے یا پھر کسی روز خاموشی سے پھانسی گھاٹ کی نذر ہوجائیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے ان رویوں پر خاموش ہیں۔دنیا بھر میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور این جی اوز کام کر تی ہیں مگر بھارت کے خوف یا کسی مصلحت کے تحت یہ تنظیمیں کشمیر کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن بھی مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ او آئی سی اگرچہ امت مسلمہ کا بڑا اور واحد فورم ہے مگر اس کی کہیں بھی نہیں سنی جارہی۔ کاش کہ امت مسلمہ اقتصادیات اور معاشی فوائد کی خاطر ظالم بھارت اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنا چھوڑ دیں تو یہ جارح، ظالم اور مسلم دشمن ممالک اپنی اوقات میں واپس آسکتے ہیں۔
مضمون نگار ایک کشمیری صحافی اور تجزیہ نگارہیں جو مظفرآباد سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے