جنگوں کی تاریخ میں بیسویں صدی کیس سٹڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا نصف اول دوعالمی جنگوں کی نذر ہوا اور نصف آخر میں دنیا نے طویل ترین سرد جنگ دیکھی۔یہ وہ صدی ہے جس میں پاکستان اوربھارت معرض وجود میں آئے۔ دنیا کی تباہی و بربادی قریب سے دیکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد ضروری تھا کہ دونوں ہمسائے ان عوامل سے خود کو دور رکھتے جو امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیںلیکن بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ہمسایہ رکھتا ہے جو پڑوس میں نقب لگانے اور اس کی بیخ کنی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
قطر میں بھارتی بحریہ کے سابق افسران کا کیس مستقبل میں کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم بھارت کی جانب سے اس نوعیت کی سرگرمیاں پاکستان کے خلاف ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ چند سال قبل مارچ2016 میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔
تاریخ دیکھ لیجیے دونوں ممالک نے قلیل عرصہ میں تین بڑی جنگیں لڑیں۔ جنگوں میں ایک اہم 'ہتھیار' جاسوسی بھی ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو سخت ناپسندیدہ ہے۔ جنگ بذات خود کبھی پسندیدہ عمل نہیں رہا۔ تاہم جو قوت جنگی جنون میں مبتلاہو ان کے لیے ہر عمل پسندیدہ ہوتا ہے۔ بھارت کے جنگی جنون سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں ہوا، قرب و جوار کی دیگر ریاستیں بھی اسسے متاثر ہیں۔حال ہی میں خلیجی ملک قطر کی عدالت نے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے دستیاب اطلاعات کے مطابق عدالت سے سزا یافتہ بھارت کے سابق نیوی افسران میں کمانڈر پورنیندو تیواری، کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن سوربھ وششٹھ، کیپٹن بریندرا کمار ورما، کمانڈر سگناکر پکالا، کمانڈر سنجیو گپتا، کمانڈر امت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں۔ یہ دوحہ میں ایک نجی دفاعی سروسز کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے، جو قطر کی نیشنل بحریہ فورس کے لیے تربیت، لاجسٹکس اور دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرتی تھی۔ان افراد کوگزشتہ سال 30اگست کو قطر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے خلاف مقدمے کی سماعت رواں سال 29مارچ کو شروع ہوئی اور26اکتوبر کو قطر کی عدالت نے مذکورہ افراد کو موت کی سزا سنائی۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم کیس ہے۔ ملزمان کے خلاف ٹرائل بھی خفیہ رکھا گیا اور اس کا فیصلہ بھی عام مشتہر نہیں کیا گیا۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ قطری عدالت کی جانب سے دیا گیا فیصلہ خفیہ(Confidential) ہے اور اس فیصلے کی کاپی صرف قانونی ماہرین کی ٹیم کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔ اس فیصلے کے مندرجات کو دیکھا جا رہا ہے اور اس ضمن میں عدالت میں ایک اپیل فائل کی گئی ہے۔بظاہر بھارت اپنے سابق نیوی افسران کے کردار کو جاسوسی کے تناظر میں نہیں دیکھتا۔ تاہم سزا کی نوعیت سے سزا یافتہ افراد کے کردار اور اس کیس کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹس کے مطابق بھارتی بحریہ کے ان سابق افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات ایک ملک کو فراہم کی ہیں۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کے سکیورٹی حکام نے دوحہ میں قطری حکام کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت اور اس کے شہری قطر کے خلاف کسی معاندانہ خفیہ جاسوسی مشن میں ملوث نہیں ہیں۔ لیکن قطری حکام اس بات پر مصر ہیں کہ مذکورہ افراد ان کے آبدوز پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات ایک ملک کو ارسال کر رہے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قطر کی خفیہ ایجنسی قطر سٹیٹ سکیورٹی کا کہنا ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے الیکٹرانک رابطے کے کچھ پیغامات پکڑے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انڈین بحریہ کے یہ سابق افسران آبدوزوں کے پروگرام کی جاسوسی کر رہے تھے۔
قطر میں بھارتی بحریہ کے سابق افسران کا کیس مستقبل میں کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم بھارت کی جانب سے اس نوعیت کی سرگرمیاں پاکستان کے خلاف ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ چند سال قبل مارچ2016 میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔ بعدازاں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اور بلوچستان و کراچی میں تخریبی کارروائیوں کے لیے منصوبہ بندی کرتا تھا۔کلبھوشن یادیو کو اپریل2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی۔ بھارت نے اس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں اپیل کی۔ جولائی2019 میں عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی رہائی کی اپیل مسترد کردی،تاہم پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینے اور ان کی سزا پر نظرثانی کاپابند بنایا۔ پاکستان نے بھارت کوکلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دی اورنظر ثانی کی اپیل کی سہولت بھی دی۔ لیکن بھارت نے اب تک کلبھوشن یادیو کیس کی پیروی کرنے اور ان کے لیے وکیل مقرر کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
یہ محض جاسوسی کا ایک کیس نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ عشروں میں بھارت کے کئی جاسوسوں کو پاکستان میں سزا ہوئی۔ گزشتہ دہائی میں ایک بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ اس وقت خبروں میں نمایاں ہوا، جب 2013 میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کے ایک حملے میں وہ زخمی ہوا اور جانبر نہ ہوسکا۔ اس کی گرفتاری 1990 میں عمل میں آئی تھی۔ پاکستان نے سربجیت سنگھ کے خلاف فیصل آباد، ملتان اور لاہور میں بم دھماکوں کے الزامات میں مقدمہ چلایا اور اسے موت کی سزا سنائی۔ اس وقت بھارت کامؤقف تھا کہ سربجیت سنگھ نشے میں دھت ایک کاشت کار تھا جو کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے غلطی سے سرحد پار کرگیا تھا۔تاہم 2013 میں ان کی موت کے بعد جب ان کی لاش بھارت کے حوالے کی گئی تو ان کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔
اس سے قبل 2008 میں بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو میڈیا میں توجہ ملی تھی۔ وہ 1973 میں راولپنڈی میں گرفتار ہوا تھا اور جاسوسی کے الزام میں اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی جیلوں میں35سال گزارنے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے اس کی موت کی سزا معاف کرکے اس کو رہائی دی۔ کشمیر سنگھ جب تک پاکستان میں رہا، اس نے جاسوسی کے الزامات کو تسلیم نہیں کیا، تاہم رہائی کے بعد بھارت پہنچتے ہی اس نے اعتراف کرلیا کہ وہ پاکستان جاسوسی کے لیے گیا تھا۔ اسی طرح ایک بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ 1982 میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔ پاکستان کی جیلوں میں 30 سال گزارنے کے بعد 2012 میں اس کو رہائی ملی۔ واہگہ بارڈر پار کرتے ہی اس نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ 'را 'کا ایجنٹ بن کر پاکستان جاسوسی کے لیے گیا تھا۔
2004 میں لاہور میں رام راج نامی ایک بھارتی جاسوس پاکستان پہنچتے ہی گرفتار ہوگیا تھا۔ اس کو6برس قید کی سزا ہوئی اور جب وہ اپنی سزا کاٹ کر واپس بھارت پہنچا تو اس کو بھارتی اداروں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ پاکستان آنے سے پہلے 18برس تک بھارت کے خفیہ اداروں میں کام کر چکا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کے سکیورٹی حکام نے دوحہ میں قطری حکام کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت اور اس کے شہری قطر کے خلاف کسی معاندانہ خفیہ جاسوسی مشن میں ملوث نہیں ہیں۔ لیکن قطری حکام اس بات پر مصر ہیں کہ مذکورہ افراد ان کے آبدوز پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات ایک ملک کو ارسال کر رہے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قطر کی خفیہ ایجنسی قطر سٹیٹ سکیورٹی کا کہنا ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے الیکٹرانک رابطے کے کچھ پیغامات پکڑے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انڈین بحریہ کے یہ سابق افسران آبدوزوں کے پروگرام کی جاسوسی کر رہے تھے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے بھارتی جاسوس تھے جو پاکستان میں مختلف وقتوں میں پکڑے گئے ۔ بعض کرداروں کو ان کے جرم کی پاداش میں موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ جاسوسی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے بھی اپنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں متعددبھارتی جاسوس ڈرون طیاروں کو آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب نشانہ بنایا لیکن اس کے باوجود جنگی جنون میں مبتلا پڑوسی اپنے رویے پر نظرثانی کے لیے آمادہ نہیں ہے۔پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تنائو کے باوجود ہمیشہ جنگ سے احتراز برتنے کی کوشش کی ہے۔ چند سال قبل فروری2019 میں جب بھارتی فضائیہ کا ونگ کمانڈر ابھی نندن طیارہ تباہ ہونے کے باعث آزادکشمیر کی حدود سے پکڑا گیا تو پاکستان نے اس موقع پر کشیدگی کے باوجود ابھی نندن کو رہا کیا۔لیکن دوسری جانب بھارت کا رویہ ہمیشہ کی طرح منفی رہا۔ بالخصوص 2014 میں نریندر مودی کی حکومت بننے کے بعد بی جے پی نے تعلقات میں بہتری کے بجائے ہمیشہ ایسے اقدامات کیے جو تشدد اور نفرت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔حال ہی میں بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا، جس میں پاکستانی شائقین اور صحافیوں کو بھارت جانے کے لیے ویزے نہیں دیے گئے۔ بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ تشدد اور نفرت کی پالیسی سے اس خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔جاسوسی اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے باعث بھارت کو دنیا میں جو ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے، اگر جنگی جنون سے باہر نکلا جائے تو رسوائی کا یہ سفر بھی اختتام کو پہنچ سکتا ہے۔
مضمون نگار مصنف، محقق اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے