جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
دھماکوں ، میزائل حملوں کا شور ، زخموں سے چور درد سے کراہتے بچے، خواتین ، مرد، ملبے میں دبے افراد کی آہ و بکا، بچوں کے بے جان جسم اٹھائے اللہ کو پکارتے بے بس ماں باپ، والدین کی لاشوں کو دیکھ کر غم سے چیختے بچے، ہر طرف خون ہی خون ، بکھرے ہوئے جسمانی اعضاء موت کا سایہ، یہ سب منظر نامہ کسی خوفناک فلم کا یا کوئی بھیانک خواب نہیں بلکہ اسی دنیا میں یہ ان دنوں فلسطین میں بیت رہی ایک حقیقت ہے۔ذرا ایک پل کے لیے فلسطینیوں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں تو احساس ہوتا ہے کہ والدین کے لیے اپنے معصوم بچوں کی لاشوں کو دیکھنا ، زخموں میں کراہتے دیکھنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا۔ کیسے دل دکھتا ہو گا اور خود کو بے بس محسوس کرتے ہوں گے۔ غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا کو اسرائیلی فوج نے صرف ایک گھنٹے کا نوٹس دیا کہ پورا ہسپتال خالی کر دیں۔ اس وقت کی وائرل ہوئی ویڈیو میں افراتفری کا یہ منظر جیسے کوئی قیامت کا سماں ہو۔ زخمی بچے اور بڑے زمین پر پڑے ہوئے ہیں لیکن ہر طرف خوف ہے۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کیا کریں کہاں جائیں۔ انکیوبیٹرز میں موجود قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے انکیوبیٹر کا ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شہید ہو چکے۔
ہم کیسے اس معصوم بچے کی ویڈیوبھول سکتے ہیں جس کے گھر والوں میں سے کوئی بھی نہیں بچا اور وہ آسمان کی طرف دیکھ کر یا رب یا رب پکار رہا تھا۔ بچے اپنے گھر والوں کی شہادتوں کے بعد کتنا غیر محفوظ محسوس کرتے ہوں گے۔ چھوٹے سے معصوم دل کتنے دکھی ہوں گے۔
یہ وہ بہادر قوم ہے جو اتنے مشکل وقت میں بھی اللہ کو یاد کررہی ہے اوربس اسی سے مدد مانگ رہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اگرفلسطین ، غزہ میں جاری اسرائیلی سفاکی، قتل و غارت، فلسطینیوں کی نسل کشی کو ویڈیوز کے ذریعے وہاں موجود بہادر اور دل گردہ رکھنے والے افراد، جن میں صحافی بھی شامل ہیں، دنیا کوانسانی حقوق کی ہر طرح سے ہونے والی پامالی نہ دکھاتے تو شاید صیہونی ریاست اسرائیل اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہتا۔
دنیا میں رہنے کے کچھ رہنما اصول ہیں جن کو مہذب قومیں مانتی ہیں لیکن پچھتربرس سے جاری اسرائیل کے مظالم کم ہونے کے بجائے انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی آڑمیں اسرائیل اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کا بے دردی سے قتلِ عام کیے جا رہا ہے۔ اوراسرائیل کے ارادے تو گزشتہ برس سے ہی اس کے حکومتی نمائندوں کی تقریروں سے عیاں تھے۔
یہ صرف مسلمانوں کا نہیں انسانیت کا بھی امتحان ہے اوردنیا کے لیے لمحہ فکریہ بن چکا ہے جس کی مذمت نہ صرف مسلمان بلکہ ہر رنگ نسل مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کر رہے ہیں۔ حتی کہ ان میں یہودی بھی شامل ہیں جو اسرائیلی صیہونی مملکت کے خلاف ہیں اور ان کو یہودیت سے بالکل الگ سمجھتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسرائیل کے حالیہ مظالم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ہر طرف سے فری فلسطین اور فلسطین ول بی فری کے نعروں کی گونج آ رہی ہے۔
انسانی حقوق کے تمام اداروں بشمول اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں جیسے کہ عالمی ادارہ برائے صحت کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔اور اسرائیل حماس کے حملے کی آڑمیں اپنے معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو انکی سرزمین سے نکالنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی بربریت کی انتہا ہے کہ غزہ میں شہری آبادی والے علاقوں، سکولوں،مساجد، تعمیرات، پانی کے ذخائر حتی کہ ہسپتالوں کے اوپرحملے کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہے۔ فلسطین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے اعلان کیا کہ توانائی کے وسائل کی کمی کے باعث غزہ کی پٹی میں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ مواصلاتی خدمات مکمل طور پر منقطع ہیں۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے اب تک دس ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔جن میں75فیصدکے قریب بچے اور خواتین شامل ہیں۔زخمیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے۔ لاشوں کی تدفین ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہسپتالوں میں نہ صرف زخمی بلکہ پناہ گزین بھی موجود ہیں اور انکو میزائل اور فاسفورس بموں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹرز بغیر بے ہوش کیے مریضوں کے آپریشنز کر رہے ہیں جن میں بچوں کی پیدائش کے آپریشنز بھی شامل ہیں۔ ایندھن ختم ہونے کے باعث انکیوبیٹرز میں موجود بچے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ شہری کھانے اور پانی کے لیے سسک رہے ہیں۔
غزہ کی صورتحال پر بین الاقوامی اداروں کا ردِ عمل:
• اقوامِ متحدہ کے مطابق سو سے زائد تو اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے سٹاف ممبرز ہیں جو اسرائیل کے حالیہ حملوں میں مارے گئے ہیں۔
• ایندھن کی فراہمی میں کمی کے باعث غزہ کے 35 ہسپتالوں میں سے 16 کو آپریشن معطل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے کیونکہ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 15 لاکھ سے زیادہ لوگ جو کہ غزہ کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں۔
• بے بس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر, نیویارک دفتر کے ڈائریکٹر نے استعفی دے دیا۔
• گریگ مخیبر نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین وولکر ترک کے نام لکھے استعفیٰ میں اس کی وجہ ادارہ کی غزہ میں جینوسائیڈ کورکوانے میں ناکامی کو قرار دیا۔
• کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 42 صحافی اور میڈیا کارکنان 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہلاک ہونے والے 12,000 سے زیادہ افراد میں شامل تھے، جس میں غزہ اور مغربی کنارے میں 11,000 فلسطینی اور اسرائیل میں 1,200 اموات ہوئیں۔
• انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال تیزی سے بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔
• اقوامِ متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ میں شدید غذائی قلت کی وجہ سے عوام کا ایک بڑا حصہ بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔
• ورلڈ فوڈ پروگرام کے علاقائی دفتر نے جاری کردہ تحریری بیان میں کہا ہے کہ غزہ کو غذائی ضرورت کا محض 10 فیصد فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس وقت غزہ کی پٹی کو وسیع پیمانے پر غذائی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ غزہ کی تقریباً پوری عوام نہایت بے بسی کے عالم میں غذائی امداد کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ اور غزہ میں ایندھن کی قلت کے باعث علاقے کی 130 بیکریوں میں روٹی کی پیداوار رکی ہوئی ہے۔ ایندھن کا مسئلہ خوراک اور امداد کی تقسیم میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے۔
• اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے لیے قائم ذیلی ادارے یونیسیف کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر ایڈیل کھودر نے ایک حالیہ بیان میں کہا غزہ کی پٹی کی صورتحال ہمارے اجتماعی ضمیر پر بڑھتا ہوا داغ ہے۔ بچوں کی موت اور زخمی ہونے کی شرح حیران کن ہے۔
• انسانی حقوق کی سنگین پامالی اس وقت فلسطینیوں کے ساتھ غزہ اور ویسٹ بینک میں جاری ہے۔ انسانی ہمدردی کے تحت جو ممالک امداد بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں انکی امداد کوغزہ مصر کے بارڈر رفاع کراسنگ پر روکا جا رہا ہے۔
غزہ کی پٹی کیا ہے ؟
• یہ چالیس کلو میٹر پر پھیلا خشکی کا ایسا ٹکڑا ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح موجود ہے۔
• غزہ کے ساتھ ہی مغربی کنارے کا فلسطینی علاقہ بھی ہے۔ یہ دونوں جگہیں غزہ اور مغربی کنارا فلسطینی علاقے ہیں۔ دونوں کئی دہائیوں سے جنگی مرکز بنے ہوئے ہیں۔
• اسرائیل نے غزہ شہر کو پہلے سے ہی محصور کر رکھا ہے۔ یہ محاصرہ کئی برسوں پر محیط ہے۔ اس وجہ سے غزہ کے ارد گرد، دیواروں کی صورت میں باڑ اور دوسری رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ غزہ کی یہ پٹی 1917 تک عثمانی خلافت کا حصہ رہی۔ 1917 میں اس کا کنٹرول برطانیہ کے پاس چلا گیا۔
• جب اسرائیل کا 1948 میں قیام عمل میں لایا گیا تو ہزاروں فلسطینی مہاجرین کو غزہ میں دھکیل دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے مطابق غزہ میں پچانوے فیصد شہری صاف پانی سے محروم ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کا نام انسانی حقوق کی تنظیم ، دی ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کو دیا ہے۔
مسئلہ فلسطین کی تاریخ :
• پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر ایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔مقامی عربوں اور نئے آنے والے یہودی باشندوں میں تنائو اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں قومی گھر کی تشکیل کریں۔
• یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔1920کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ادھر یہودی رہنمائوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔
• بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ کی۔
• لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ (یعنی تباہی)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
غزہ میں قتل ِ عام پردنیا کے مختلف ممالک میں عوام کا احتجاج :
• دنیا بھر میں اسرائیل کے ظالمانہ حملوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں ہزاروں لاکھوں افراد شرکت کررہے ہیں اور غزہ میں جاری حملوں کے خاتمے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں۔
• سوشل میڈیا بھی ان مذمتی بیانات سے بھرا پڑا ہے جس میں لوگ غزہ میں جاری جنگ بندی اور دو ریاستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی ان اقدامات میں شامل ہے جو بی ڈی ایس موومنٹ کے تحت بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔
• لندن میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔یورپ کے مختلف ممالک اور امریکا میں بھی دہشت گرد ریاست اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن کے ذریعے یورپی اور امریکی عوام اپنے حکمرانوں کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کرنے والے صہیونیوں کا ساتھ دے کر انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں۔ اس سب کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتیں نہایت ڈھٹائی سے غاصب اسرائیل کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہی ہیں۔
• عراق میں اردن کے ساتھ ملک کی سرحدی گزرگاہ پر ، اردن میں ، مصر بھر کے مختلف مقامات میں ، ترکی کے دار الحکومت انقرہ اور اس کے سب سے گنجان آباد شہر استنبول میں، انڈو نیشیا ، ملائیشیا ،مراکش اور جنوبی افریقہ میں بھیہزاروں افراد کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
• امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہزاروں شہریوں نے اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے خلاف اور جنگ بندی کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔اس احتجاج میں امریکہ میں مقیم بہت سے یہودی شہری بھی شامل تھے۔ جو کہ صیہونی افواج کے غزہ میں جاری حملوں کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔
• پاکستان میں بھی فلسطینیوں کی حمایت میں مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کے دوران پاکستان نے فلسطین کی پوزیشن کے دفاع اور اس کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
• پاکستان وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے شہری انفراسٹرکچر اور پارلیمنٹ جیسی انتظامی عمارتوں کو تباہ کر کے غزہ کو فلسطینیوں کے لئے قصدا ًناقابل رہائش جگہ بنا دیا ہے۔
• سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ مشترکہ عرب و اسلامی ممالک کے غیر معمولی سربراہ اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ میں تباہی، لوگوں کے بے گھر ہونے ،بنیادی خدمات اور ضروریات کی فراہمی روکنے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرے اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے فوری خاتمہ کو یقینی بنائے۔
فلسطینوں پر جاری اسرائیلی حملوں پر دنیا کے بڑے ممالک کی حکومتوں کا ردِ عمل :
• چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے تمام فریقوں کو مستقل امن کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے کو فروغ دینا چاہیے اور کہا کہ وہ مسئلہ فلسطین پر عرب اور اسلامی ممالک کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔
• روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو برباد کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کی اپنی سر زمین سے ہٹ کر آباد کاری سے فلسطینی ریاست کا قیام کھٹائی میں پڑ جائے گا، روس کو اس چال اور سازش پر تشویش ہے، فلسطینیوں کی نئی جگہ آباد کاری خطے میں امن نہیں لا سکتی۔
• فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ پر بمباری اور فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے۔
• وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے بھی اقوام متحدہ سے غزہ پر اسرائیلی بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
• بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ نے کہا کہ غزہ میں طبی اور انسانی امداد، خوراک، ادویات، پانی اور بجلی کے لیے ہنگامی امدادی گزرگاہیں کھول دی جائیں۔
غزہ کی صورتحال کا کیا کوئی حل ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عام شہریوں، آبادیوں ، ہسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔ اگراسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔دنیا کی بڑی اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اوروہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے۔ اگرفلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہو گی۔ ||
مضمون نگار معروف صحافی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے