قومی ترانے کی اہمیت ، احترام اور معانی و مفہوم کے حوالے سے
پیارے بچو! قومی ترانہ کسی قوم کی الگ پہچان کے ساتھ ساتھ اس کی آزادی اورخود مختاری کی علامت ہوتا ہے۔ یہ قوم کی امنگوں ، روایات، عقائد، نظریات کا ترجمان ہو تا ہے ۔ اس سے کسی قوم کے عظیم تاریخی ورثے،آن بان شان کی بھی وضا حت ہوتی ہے۔ قومی ترانے کی شاعری اور دھن اس وطن کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی اورجوش وخروش کوابھارتی ہے۔ یہ آزاد ملک کے آئین کی بالادستی اوراقدارکی علامت سمجھا جا تا ہے ۔
1947 میں جب اسلام کے نام پر لیا جا نے والا خطہ’’ پاکستان‘‘ دنیا کے نقشے پرابھرا تو نواب زادہ لیاقت علی خان نے قومی ترانہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی میں دوذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں، ایک کا کام ترانے کے بول لکھنا اور دوسری کا کام ترانے کی دُھن تھا۔
قومی ترانے کے لیے لکھےجانےوالےالفا ظ معمولی حیثیت کےحامل نہیں ہوتے۔انہیں دائمی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جب تک وہ قوم زندہ رہتی ہے،وہ اسے یاد رکھتی ہے۔اس لیے قومی ترانہ لکھنے کےبا قاعدہ اعلانات کیے گئے ۔اس وقت کے مایہ ناز شعراء نے ترانے تحریر کیے جن میں سے ابو الاثر حفیظ جالندھری کی نظم”پاک سرزمین“ کوپاکستان کا’’قومی ترانہ‘‘ بننے کا اعزازحاصل ہوا۔قومی ترانہ کے ترنم کے لیے احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کا انتخاب کیا گیا ۔
پاکستان کا قومی ترانہ جہاں اس کے عزم واستقلال کا بیان ہے وہیں یہ پاکستانی قوم کے لیے داستانِ عہدوپیمان ہے۔ محبانِ وطن کے لیےایساعظیم پیغام ہے جو ان میں جوش وولولہ بیدار کردیتا ہےاورانھیں ایک سمت عطا کرتا ہے۔ نغمے میں لطافت کے غرض سے اسے فارسی زبان کی چاشنی عطا کی گئی نیزاردو زبان سے لفظ”کا“لیا گیا جو کہ شاعر کی اعلیٰ فنی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ شاعری میں اعلیٰ پائے کا ربط، وزن اور بحر کا انتخاب کیا گیا۔ اس ترانے کو تحریر کرنے میں تین ماہ، دن رات کی محنت لگی۔
14اگست 1954ء کو پہلی بارریڈیو پاکستان پرقومی ترانہ سنایا گیا۔ ایک منٹ اوربیس سیکنڈ کے دورانیے پر مشتمل پاکستان کا قومی ترانہ شاعری کی مخمس شکل میں ہےاور اس میں کل پندرہ مصرعےہیں۔ اس ترانے کوملک کے ممتاز گلوکاروں، شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اخترعباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وصی علی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ قومی ترانہ مرتب کرنے میں 21آلات اور 38ساز استعمال کیے گئے۔ ہمارا قومی ترانہ دنیا کے بہترین قومی ترانوں کی فہرست میں شامل ہے۔
قومی ترانے کے کچھ آداب بھی ہیں۔ قومی ترانہ کے وقار کو بلند کرنے کے لیے ہمیشہ اسے کھڑے ہو کر اور مؤدب انداز میں سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ اگرکسی جگہ قومی ترانہ بجایا جارہا ہو تو ہر پاکستانی پرلازم ہے کہ اگر چل رہاہوتووہیں رک جائےیعنی سارے کام چھوڑدے ۔ سکولوں ، کالجوں میں ، صبح کی اسمبلی یا قومی تقاریب میں اسے گا یا یا بجایا جا تا ہے۔ اندرون و بیرون ملک تمام قومی تقریبات کا آغاز بالعموم قومی ترانے سے ہوتا ہے ۔
پیارے بچو! اب آپ کو قومی ترانے کے پیغام اور مفہوم سے آگاہ کرتے ہیں۔ پہلے بند میں حفیظ جالندھری ’’ پا ک سر زمین ‘‘ کے الفاظ لاتے ہیں جس سے فوراً اس ملک کا مقصد اور نظریہ سامنے آجا تا ہے ۔ اپنے پیارے وطن پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں اے پاک لو گوں کے رہنے کی جگہ تجھ پر ہمیشہ خوشحالی آئے۔ تجھ پر کو ئی برا وقت نہ آئے۔ تیرے اندربسنے والے لوگ ہمیشہ خوش رہیں۔ان کا ہرقدم ملک کی ترقی،بقا اورخوشحالی کےلیےاٹھےپھروطن کی خو بصورتی کا دم بھرتے ہیں ۔ پاکستان قدرت کا ایک عظیم اور حسین شاہکارہے۔ یہاں قراقرم کے اونچے پہاڑوں سے لے کر کراچی کا ساحل ہے۔ نیلم ، کنہار، راوی، جہلم، سندھ، چناب اور ستلج کے دریا ہیں۔ پنجاب کی زرخیز زمین ہے اور بلوچستان میں نایاب پتھر اور قیمتی دھاتوں کے پہاڑ ہیں، سکردو کےٹھنڈے صحرا سے لے کر تھرکا گرم ریگستان ہے، چٹانوں اور پتھروں سے گھرے راستے ہیں اور شور مچاتی خوبصورت آبشاریں ہیں،الغرض یہ کہ ہر موسم اور ہرمنظرسے قدرت نے اس ملک کو نوازا ہے۔ جب ہم کشورِ حسین کی بات کرتے ہیں تو نگاہوں میں پاکستان کا یہ قدرتی حسن عیاں ہوجاتا ہے۔ اللہ اس پاک سرزمین کو اوراس کی خوبصورتی کو ہمیشہ خوشحال، ہرا بھرا اور آباد رکھے۔آمین!
پھر کہتے ہیں اے میرے وطن!تو مسلمانوں کے بلندارادوں کی یادگاراورہمارے اسلاف کی امانت ہے۔’’عزم عالی شان‘‘کےپس منظر میں قیامِ پاکستان کی تمام تر تاریخ سمو دی ہے ۔’’ارضِ پاکستان ‘‘ میں وطن کی مٹی کی زرخیزی اور خصوصیات سبھی کا تذکرہ کر دیا ۔یہ وطن اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ یہ ہمارے اعتقاد اور یقین کا مرکز ہے جسے خدائے ذوالجلال سدا شاد و آباد رکھے۔آمین!دعا دی کہ تجھ پر کبھی کوئی آنچ نہ آئے ۔ تو تا ابد اہلِ وطن کی امنگوں کا ترجمان اور اعتماد کا مرکز رہے۔ دوسرے بند میں کہتے ہیں اس پاک سرزمین کا نظام ، لا ریب ضا بطہ حیات’’ اسلام‘‘کے مطابق ہو گا۔ یہاں لو گوں کے درمیان قلبی محبت اوربھائی چارہ ہے ، جس سے ان کی قوت میں اضافہ ہو تا ہے ۔ جس کے پس منظر میں’’موا خاتِ مدینہ ‘‘ کی اخوت ہے جو مسلمانوں کی قوت بنی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے متعلق فرمایا تھا کہ ’کوئی بھی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی‘ کیونکہ ان کا اس چیز پر پختہ اعتقاد تھا کہ یہ ملکِ خداداد ہے اوراس کی بنیاد کلمہ طیبہ پررکھی گئی ہے ۔
منزلِ مراد کے لیے جہدِ مسلسل کی گئی تھی۔ یہ منزل جس کی چاہ میں خدا جانے کتنے لوگوں نے اپنی جان گنوا دی، کتنی ہی اولادوں کے سر سے ماں باپ کا سایہ ہٹ گیا، کتنے ہی لوگوں نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی لٹا دی۔ کتنوں ہی نے اپنا گھر بار اور رشتہ داراس منزلِ مراد کو پانےکے لیے چھوڑ دیے۔ اس منزلِ مراد کو پالینے پراللہ تعالیٰ کا کروڑہا شکرادا کرنا چاہیےاور اس کی سالمیت کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہنا چاہیے۔ جنھوں نے’’ پا کستان‘‘ منزل کی صورت پا لیا یعنی اہلِ وطن تم سبھی ہمیشہ خوش وخرم رہو ۔
آخری بند میں وطن کے قومی نشان’’ چاند ستارے‘‘ کا ذکر ہے۔ ہلال ترقی اورخوشحالی کی علامت ہے اور ستارے کے پانچ کو نے پانچ ارکانِ اسلام کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ ہلال ہمارے اسلاف کی جہدِ مسلسل کا ترجمان ہے۔ قومی ترانہ کے اس فقرے کو پڑھ کر ذہن میں مسلمانوں کا روشن دور یاد آجاتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسلام ہی کے نام پر ہی اس کی بقا ہے۔ یہ پرچم ہمیں اپنی اعلیٰ تاریخی روایات کا درس دیتا ہے اور انہی کی پیروی کرکے ہمارے حال کی شان برقرارہے۔ پاکستان کی شان اسی میں ہے کہ ہم اپنی تاریخ یاد رکھیں۔ علم کی شمع سے اپنے قلوب و اذہان کے اندھیرے مٹائیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو کر اس ملک کو کل عالم کے لیے رہبر بنائیں۔
دُعا ہے کہ اس ملک پر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا کرم و فضل رکھے اور اس دیس کے باسیوں کو یہ توفیق بخشے کہ وہ اس کی آن، بان ، شان پہ کبھی کوئی حرف نہ آنے دیں۔ آمین!
قومی ترانہ
(1)
پاک سرزمین شاد باد کشور حسین شاد باد
تونشانِ عزم عالی شان ارض پاکستان !
مرکز یقین شادباد
ترجمہ ومفہوم:
اے پاکستان کی سرزمین !تو (اس میں بسنے والوں سمیت )خوش اور آبادرہے !
اے حسین سلطنت !تو ہمیشہ خوش وخرم رہے۔ تو بلند ارادوں کی علامت ہے(تیرے ملنے کے بعد ہم سہانے سپنے دیکھنےکے قابل ہوئے)۔ اے پاکستان کی سرزمین ! تو ہماری خود اعتمادی اور یقین کا مرکز ہے، ہمیشہ خوش اور آباد رہے۔
(2)
پاک سرزمین کا نظام قوتِ اخوت ِعوام
قوم ،ملک ،سلطنت پائند ہ تابندہ باد
شاد بادمنزل مراد
ترجمہ ومفہوم:
(یااللہ )اس پاک سرزمین کا نظام (قرآن وسنت کے مطابق )عوام کے بھائی چارے اور اتحاد سےپیدا ہونے والی طاقت ہو !پاکستانی قوم، اس کے باسی (عوام)،اس کی ریاست اور اس کی حکومت ہمیشہ (تاقیامت ) قائم و دائم اورچمکتی دمکتی رہے! اے ہماری خواہشوں اور امیدوں کی منزل !توہمیشہ خوش وخرم اور آباد رہے !
(3)
پرچم ستارہ وہلال رہبرِ ترقی وکمال
ترجمانِ ماضی شان حال جان ِاستقبال
سایہءخدائے ذوالجلال
ترجمہ ومفہوم:
اے چاندو ستارہ کے پرچم! تو بلندی اور ترقی کی طرف ہماری رہنمائی کرتاہے۔تو مسلمانوں کے عظیم ماضی کا ترجمان ،حال کی شان وشوکت کا امین اور تو بہترین مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کا سایہ ہمیشہ تجھ پر قائم رکھے!(آمین)
قومی ترانہ کیسے پڑھیں! (امتہ الزہرا)
قومی ترانہ اسی جذبے اور محبت کے ساتھ پڑھنا چاہیےجیسے اس کے خالق ابولاثرحفیظ جالندھری نے تحریر کیا تھا کیونکہ ان کو آزادی سے قبل کی وہ زندگی یاد تھی جب مسلمان انگریزوں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اور وہ لوگ آزاد وطن جیسی نعمت کےلیے تڑپ رہے تھےجہاں وہ اپنی مرضی سے اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرسکیں۔ وہ تمام مناظر ان کی نظروں کے سامنے سے گزرے تھے ۔جب اس وطن کو حاصل کرنے کےلیے ان کےساتھ بے شمار لوگوں کو اپنی عزیز ہستیوں اور چیزوں کی قربانی دینی پڑی۔وہ ترانہ لکھنے لگے توانہوں نے محض وطن کی محبت کو موضوع نہ بنایا اورصرف پاکستان کے حسین علاقوں کی قصیدہ گوئی نہ کی بلکہ اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے خشوع و خضوع سے بارگاہ الٰہی میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کےلیے دعاکی۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا آج ’’قومی ترانہ ‘‘ کی صورت میں ہماری زبانوں کی زنیت ہے۔
’’قومی ترانہ‘‘ پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے دل میں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ سب سے پہلی بات ترانہ شروع کرنے لگیں تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام تصور کریں اور شکر بجا لائیں کہ ہم آزاد ہیں اورہمیں اپنے پیارے وطن کا ترانہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دوسرا اسے بلند آواز سے اس کی’ لے‘ اور دھن کے اتار چڑھائو کو مدنظررکھ کرپڑھیں۔اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ قومی ترانے کا آخری مصرعہ پڑھتے وقت اپنے سر کو لفظ ’سایہ ‘ پر نہیں بلکہ ’خدا ئے ذوالجلال ‘پر جھکائیں اور مصرعہ کی تکمیل کے بعد سر کو اوپر اٹھائیں کیونکہ یہاں لفظ ’سایہ اصلی معنوں میں نہیں آیا بلکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سایہ ہے۔
تبصرے