قائداعظمؒ وہ عظیم رہنماہیں جنہوں نے اپنی بے خوف قیادت، عزم کی بدولت برصغیر کےمحکوم مسلمانوں کوآزادی دلائی۔ وہ قوم جو انگریزوں اور ہندوئوں کی سازشوں کے بدولت دو صدیوں سے ابتری کی زندگی گزار رہی تھی، قائداعظمؒ نے اس کی قیادت کرتے ہوئے اسے ان کا کھویا ہوا مقام دلایا۔ یہ آپؒ ہی کی شخصیت تھی جس نے علامہ محمداقبالؒ کے خواب کوعملی تعبیربخشی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے برصغیرمیں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا۔ وہ اس خواب کی تعبیر تو نہ دیکھ سکے لیکن قائداعظمؒ کی عظیم قیادت پرانہیں پورایقین تھا کہ مسلمان اپنی منزل ’پاکستان‘ لے کے رہیں گے۔
نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
(علامہ محمد اقبالؒ)
قائداعظمؒ کی بلند نگاہوں نےآزادی کی راہ میں کسی مشکل کوآڑے نہ آنے دیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ تمام معاملات میں اخلاقی اقدارکوسربلندرکھتے۔ انہوں نے کامیابی کو چار خوبیوں یعنی مضبوط کردار، جرات مندی، محنت اوراستقلال کا کرشمہ قرار دیا۔
قائداعظمؒ کی فہم و فراست،اعلیٰ کرداراورمضبوط ارادے کی بدولت ان کے حریف ان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوجاتے۔ یہ قائداعظمؒ کا پختہ عزم ہی تھا کہ تحریک پاکستان کے دوران کوئی رکاوٹ انہیں اپنے ارادے سے متزلزل نہ کر سکی اور بہت سی مشکلات کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پرایک آزاد مملکت کی حیثیت سے ابھرکررہا۔ اگرقائداعظمؒ کےعزم ،ارادے اور اصول پسندی میں ذرا بھی لچک ہوتی توانگریز اورہندو کبھی پاکستان بننے نہ دیتے۔
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
(میاں بشیر احمد)
معروف مصنف سٹینلےوالپرٹ نےاپنی کتاب ”جناح آف پاکستان“ میں قائد اعظمؒ کی تاریخ سازشخصیت کوان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:
’’چند ہی شخصیات ایسی ہیں،جو تاریخ کا دھارا تبدیل کردیتی ہیں۔ان میں سے مُٹھی بھر ہی دنیا کا نقشہ تبدیل کر پاتی ہیں اور ایسے شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوں ، جنہوں نے ایک قومی ریاست بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہو، مگرمحمّد علی جناح نے یہ تینوں کام انجام دیے۔‘‘پاکستان کی آزادی قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ہی کارنامہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کوایک عظیم قیادت فراہم کی کہ وہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
ملّت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے، محمد علی جناح
(میاں بشیر احمد)
قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو دنیا کا ترقی یافتہ اورمضبوط ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں قوم کے نوجوانوں سے قوی امید تھی کہ وہ پاکستان کو مضبوط اور مستحکم مملکت بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قوم کو ’’اتحاد، ایمان، تنظیم‘‘ اور ’’کام، کام اور بس کام‘‘ کے زریں اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کی۔31 اکتوبر 1947 کو مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران قائداعظم نے ان الفاظ میں نوجوانوں اور طلبا کو نصیحت کی:
’’پاکستان کواپنے جوانوں اور بالخصوص طلباء پر فخر ہے جو آزمائش اورضرورت کے وقت ہمیشہ صف اوّل میں رہے ہیں۔ آپ مستقبل کےمعمارِقوم ہیں‘اس لیے جو مشکل کام آپ کے سر پرکھڑا ہے‘اُس سےنمٹنے کے لیے اپنی شخصیت میں نظم وضبط پیدا کیجیے‘مناسب تعلیم اورتربیت حاصل کیجیے۔آپ کو پورا پورا احساس ہونا چاہیے کہ آپ کی ذمہ داریاں کتنی زیادہ ہیں اوران سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہر وقت تیار اور مستعد رہنا چاہیے۔‘‘ساتھیو! قائداعظمؒ کے یوم ولادت (25 دسمبر) پر ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کرداراوراوصاف کو اپنی شخصیت میں سمونے کی کوشش کریں۔ اسی طرح ان کے اقوال امید اور یقین کی شمع ہیں، جن کی روشنی میں چلتے ہوئے ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کی ترقی، خوشحالی اورامن وسلامتی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
تبصرے