اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 19:22
اداریہ نومبر 2023 تُو شاہیں ہے! نشان حیدر کیپٹن محمد سرور شہید  اپنے ناخنوں کا خیال رکھیں! گائوں کی سیر فیڈرل بورڈ کے زیر اہتمام انٹرمیڈیٹ امتحانات میں  قہقہے اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان اداریہ جون 2024 صاف ستھرا ماحول خوشگوار زندگی ہمارا ماحول اور زیروویسٹ لائف اسٹائل  سبز جنت پانی زندگی ہے! نیلی جل پری  آموں کے چھلکے میرے بکرے... عیدِ قرباں اچھا دوست چوری کا پھل  قہقہے حقیقی خوشی اداریہ۔جولائی 2024ء یادگار چھٹیاں آئوبچّو! سیر کو چلیں موسم گرما اور اِ ن ڈور گیمز  خیالی پلائو آئی کیوب قمر  امید کا سفر زندگی کا تحفہ سُرمئی چڑیا انوکھی بلی عبدالرحیم اور بوڑھا شیشم قہقہے اگست 2024 اداریہ بڑی قربانیوں سے ملا  پاکستان نیا سویرا   ہمدردی علم کی قدر ذرا سی نیکی قطرہ قطرہ سمندر ماحول دوستی کا سبق قہقہے  اداریہ ستمبر 2024 نشانِ حیدر 6 ستمبر ... قابل ِفخر دن  اے وطن کے سجیلے جوانو! عظیم قائدؒ قائد اعظم ؒ وطن کی خدمت  پاکستان کی جیت سوچ کو بدلو سیما کا خط پیاسا صحرا  صدقے کا ثواب قہقہے  اداریہ اکتوبر 2024 اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ حضرت محمد مصطفیٰﷺ حضرت محمد ﷺ ... اسمائے گرامی ’’شکریہ ٹیچر!‘‘ میرا دیس ہے  پاکستان استاد اور زندگی آنکھیں...بڑی نعمت ہیں سرپرائز خلائی سیرکاقصہ شجر دوستی بوڑھا بھالو قہقہے گلہری کا خواب اداریہ : نومبر 2024 اقبال  ؒ کا خواب اور اُمید کی روشنی پیغام اقبالؒ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ! جلد بازی صبر روشنی ہے! کامیابی فلسطین کے بچوں کے نام پانی والا جن ماحول دوستی زیرو ویسٹ لائف اسٹائل داداجان کا ٹی وی ناں
Advertisements

ہلال کڈز اردو

حیرت کا مجسمہ 

دسمبر 2023

’’ریل گاڑی لکھنؤسےبمبئی جارہی تھی۔راستے میں ایک چھوٹا سا اسٹیشن آیا جہاں اسے دومنٹ کے لیےرکناتھا۔ مقررہ وقت پرگاڑی دھیرے دھیرے ریلوے اسٹیشن پرآکررُکی، تو انتظار گاہ میں بیٹھے مسافروں نے اپنا سامان سنبھالا اور بھاگتے دوڑتے ریل گاڑی میں سوار ہونے لگے۔انہی مسافروں میں انگلینڈ سے واپس آئی ایک ہندوستانی لڑکی بھی شامل تھی۔ وہ اپنا پرس اُٹھائے دوڑکر ایک ڈبےمیں سوار ہوگئی ۔ ڈبے میں جگہ دیکھتے دیکھتے آخر کار وہ ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔اس کے ساتھ والی سیٹ پر پہلے سے ایک دبلا پتلانوجوان بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا ۔ نوجوا ن نے لڑکی کی آمد کے باوجود کتاب سے نگاہ نہ ہٹائی ۔ وہ مطالعہ میں اس قدرمگن تھا کہ اسے آس پاس ہونے والی سرگرمیوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ‘‘



سر اشفاق ہفتم جماعت کے بچوں کو کہانی سنارہے تھے ، بچے بڑی توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے ۔اُن کی دلچسپی کودیکھتے ہوئے سراشفاق نے سب پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور کہانی دوبارہ سنانا شروع کی :
’’بچو!جب ریل گاڑی نے پھر سے اپنے سفرکا آغاز کیا توکچھ دیربعد ایک انہونی ہوگئی ۔ ڈبے میں سوار ہونے والی اس انگلینڈ پلٹ لڑکی نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے نوجوان کو مخاطب کیا اور کہا : ’تمہارے پاس جو کچھ ہے چپکے سے نکال دو، ورنہ شور کرکے بدنام کردوں گی کہ اس لڑکے نے میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔‘سراشفاق نے اتنا کہا اور ایک بھرپور نظر کلاس پر ڈالی :’’عزیز طلبا ! فرض کریں کہ اگر آپ لوگوں میں سے کوئی اس ریل گاڑی میں سفر کررہا ہوتا،اور اُس کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا ،تو بتائیے اس لمحے وہ کیا کرتا؟ شاباش...ایک ایک کرکے سب بتاتے جائیں۔‘‘ سر اشفاق نے پہلے بنچ پہ بیٹھے نوید کی طرف اشارہ کیا تو وہ کچھ دیر سوچ کربولا :’’سر! اگر میں اُس نوجوان کی جگہ ہوتا ،تو لڑکی کو کھری کھری سنا دیتا...‘‘نوید کی بات پر طلبا ہنس دیے،سر اشفاق نے کہا: ’’بیٹا جی !یوں تو پھر لڑکی کی بدتمیزی والی بات درست ثابت ہوجائے گی ،کوئی اور بچہ بتائے۔‘‘
اچانک عثمان اپنی سیٹ سے اٹھا اور بولا:’’سر !میں لڑکی کے شور سے پہلے خود ہی شور کرکے لوگو ں کواس کی اصلیت بتادیتا۔‘‘
’’سر!میں اس جھوٹی لڑکی کو تھپڑ رسید کردیتا۔‘‘ افنان نے کہا ۔
’’سر...! میں گارڈ کو بلا لیتا ۔‘‘ سمیر نے کہا ۔
’’سر۔۔۔!میں لڑکی کو ٹرین سے باہر پھینک دیتا۔‘‘ بلال نے کہا تو سب ہنس دیے ۔
یوں باری باری ساری کلاس نے اپنی سوچ اور فہم کے مطابق جواب دیا ۔ اب سراشفاق نے کہا نی دوبارہ شروع کی :’’بچو!  
ٹرین میں بیٹھا نوجوان چونکہ بہت ذہین اور بہادر تھا ،چنانچہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ، جو آپ سب نے بتائے ہیں ۔‘‘
’’تو پھر سر !اس نوجوان نے اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا؟‘‘
’’ہاں تو بچو!وہ کوئی عام نوجوان ہوتا ،تو شاید گھبرا جاتا ، مگر وہ وکالت کا طالب علم اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا، اس نے گھبرائے بغیر لڑکی کو نظر انداز کردیا ۔ لڑکی نے دوبارہ چیخ کروہی مطالبہ کیا،مگراس بارپھرنوجوان نے سنی اَن سنی کردی۔ تیسری مرتبہ لڑکی نے اُسے جھنجھوڑ کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی تو،نوجوان نے ہاتھ کا اشارہ اپنے کانوں کی طرف کیا اور لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں بہرہ ہوں اور تمھاری بات سمجھ نہیں پارہا ۔ تم مجھے کاغذ پر لکھ دو،جو بھی کہنا ہے ۔اس پر لڑکی نے بیگ سے کاغذ نکال کراس پر لکھاکہ ’’جو کچھ ہے نکال دو ،ورنہ ...‘‘ اس نوجوان نے فوراً لڑکی کے ہاتھ سے کاغذ کا ٹکڑا لیا ،پھرریل گاڑی کی زنجیر کھینچ کرگارڈ کو بلالیا اور ثبوت کے طور پرکاغذ کا ٹکڑا اسے دکھایا۔ سارا معاملہ معلوم ہونے پر ٹرین انتظامیہ نے لڑکی کو گرفتار کروادیا ۔‘‘
’’ارے واہ!کیا خوب ذہانت تھی اس نوجوا ن کے پاس۔‘‘ کلاس کے بچے پکار اُٹھے ۔اس پر سر اشفاق مسکرادیے:’’تو کیسا لگا بچو!کیا تم جانتے ہو کہ یہ نوجوان کون تھا؟اگرکسی کو معلوم ہو تو بتائے۔‘‘ 
سر کے سوال پر بچے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے،شاید کسی کو بھی اس نوجوان کا نام معلوم نہ تھا۔اس پر اشفاق صاحب نے بچوں کو اس نوجوان کا ایک واقعہ سنایا :’’ عزیز طلباء ...یہ نوجوان بیرون ملک سے قانون کی اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد وطن واپس آیا تو اس نے وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا ۔ کچھ ہی عرصے بعد اس کا نام ملک بھر میں جانا پہچانا جانےلگا۔ایک بار کسی نے انھیں کلکتہ میں ایک کیس کی پیروی کرنے کی درخواست کی ۔ انھوں نے ایک یوم کی فیس ایک ہزار روپے کا مطالبہ کیا ۔ یہ اس زمانے کے حساب سے بہت زیادہ تھی۔ مگراِن کا مطالبہ مان لیا گیا۔ کلکتہ جاکر انھوں نے ایمان داری سے کیس لڑا،اور کئی مہینے لگانے کے بجائے صرف کچھ ہی دنوں میں کیس جیت لیا۔اس پران کا کلائنٹ بہت حیران ہوا،اس کا خیال تھا کہ یہ وکیل کیس کو کئی ماہ طول دے کرکے اپنی روزانہ کی فیس وصول کرتا رہے گا،مگر اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ چنانچہ کلائنٹ نے خوش ہوکر اُنھیں زیادہ رقم دینا چاہی ،مگر اس اصول پسند اور ایمان دار وکیل نے اضافی رقم لینے سے صاف انکار کردیا۔‘‘
سراشفاق نے بات ختم کی، بچوں کے چہروں پر حیرت ہی حیرت تھی۔ اچانک بلا ل نے پوچھا:
’’سر! یہ نوجوان تو پھرواقعی بہت باکمال تھا،جو نہ صرف بہادر، ذہین اورایمان دارتھا بلکہ بہت زیادہ اصول پسند بھی تھا،مگر سر! آپ نےابھی تک اُس نوجوان کا نام نہیں بتایا !!‘‘
’’چلو ہم نام بھی بتائے دیتے ہیں ،کیا یاد کرو گے آپ لوگ!‘‘ سراشفاق نے مسکرا تے ہوئے کہا:’’ وہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اور آپ کے محبوب قائد بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒتھے۔ـ‘‘
ایک دم کلاس کے بچوں پرجیسےحیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ سب حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں سراشفاق نے انھیں مخاطب کیا: ’’بچو!اب آپ چونکہ اس شخصیت کانام جان چکے ہیں ۔ ضرور آپ کوان کے زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی بچہ ان کی زندگی کا کوئی اہم واقعہ سنائے،تاکہ ہم سب اس سے سیکھ سکیں ۔‘‘
سراشفاق نے کہا تو ایک دم سے کلاس میں تین بچوں نے ہاتھ کھڑےکردیے۔ یہ بلال ،ذیشان اورارشد تھے ۔
’’سر!میں سنائوں؟...سر جی! میں بتاتا ہوں ...سر!مجھے معلوم ہے ۔‘‘کلاس میں اِن تینوں کی آواز گونج رہی تھی۔سر اشفاق نے سب سے پہلے ارشد کی طرف اشارہ کیا اوراُسے قائد کا کوئی واقعہ سنانے کو کہا ۔
ارشد اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اوریوں مخاطب ہوا :
’’پہلی گول میز کانفرنس کے موقع پر برطانوی وزیراعظم نے مسٹر جناح سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہندوستان میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر برطانوی حکومت کو صوبوں کے لئے گورنرز کی ضرورت ہوگی ۔اگر آپ اپنا رویہ بہتر کرلیں تو آپ کو بھی گورنر بنایا جاسکتا ہے ۔ اس پر قائد اعظمؒ نے دوٹوک انداز میں انھیں جواب دیا کہ میں لالچی یا بکائو نہیں ہوں ۔ انھوں نے واضح الفاظ میں ان کی یہ پیش کش مسترد کردی ۔اس کا مطلب تھا کہ قائد اعظمؒ اس عہدے کو اپنے لیےایک طرح کی رشوت تصورکرتے تھے۔‘‘
’’شاباش...بہت خوب!!‘‘ سراشفاق نےاب ذیشان کی جانب اشارہ کیا،تواس نےکھڑے ہوکربات شروع کردی: ’’سر!ہندوستان کےآخری وائسرائےلارڈ مائونٹ بیٹن سےپہلےسر ویول نام کےوائسرائےہوا کرتے تھے۔ایک بار سابق امریکی صدر رابرٹ ہوور (Hoover)ہندوستان آئے۔ سرویول نےہندوستان کےتمام بڑےسیاسی رہنمائوں کو اُن سےملاقات کے لیےاپنے دفتر بلایا ،گاندھی،پٹیل،نہرو سمیت سبھی کانگریسی رہنما ملاقات کرنے چلے گئے ،مگر قائد اعظمؒ نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کردیا کہ اگررابرٹ ہوور کو ملاقات کرنی ہے تو میرے دفتر آجائیں ،میرے پاس اگر وقت ہوا تو چند منٹ اُسے دے دوں گا۔ مزید یہ کہ ہوور کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی سے ملاقات کرنی ہو تو چل کر اس کے پاس جاتے ہیں نہ کہ اُسے اپنے پاس بلاتے ہیں ۔اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قائد اعظمؒ ہر کسی سے بہت جلد مرعوب نہیں ہوتے تھے۔‘‘
ذیشان نے بات ختم کی تو سب بچوں کے چہروں پر حیرت نمایاں تھی۔ سر اشفاق نے اسے شاباش دی اور بلال کی طرف اشارہ کیا ۔
بلال اپنی سیٹ پرکھڑا ہوا اوراپنی بات کا آغاز کیا :
’’سر! قائد اعظمؒ نےہندوستان میں جب دو قومی نظریہ پیش کیا تو کئی حلقوں کی طرف سےاس پراعتراضات اُٹھے۔ایک بارقائد اعظمؒ ایک یونیورسٹی میں تشریف لے گئے، وہاں طلبا سے خطاب کیا۔ اس دوران ایک ہندو نوجوان نے قائد اعظمؒ سے سوا ل کیا کہ ہم سب ہندو مسلم اپنے دیس ہندوستان میں رہتے ہیں۔سب ہندوستانی کہلاتے ہیں، سب ایک قوم ہیں،اس میں دوقومیں یا دو قومی نظریہ کہاں سے آگیا؟ تب قائد اعظمؒ نے پانی کا ایک گلاس منگوایا اوراس میں سے تھوڑا سا پانی خود پی کراس ہندونوجوان کو گلاس دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے پانی پی کر دکھائو،مگر اس ہندو نوجوان نے اس گلاس سےپینے کے بجائے کراہت سے منہ دوسری طرف پھیر لیا، قائداعظمؒ نے وہ گلاس ایک مسلم نوجوان کو دیا اورکہا یہ پی کردکھائو۔مسلم نوجوان نے فوراً وہ گلاس پکڑا اور بسم اللہ پڑھ کر پانی پی لیا۔ قائد اعظمؒ نے اس ہندو نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا :’’اب شاید آپ کو دو قومی نظریے کی بات سمجھ میں آچکی ہوگی۔‘اس پر وہ نوجوان لاجواب ہوگیا۔‘‘
’’واہ...ہمارے قائداعظمؒ بہت حاضر جواب تھے۔‘‘ کلاس میں آواز گونجی تو سراشفاق نے کہا :’’جی ہاں بچو! قائد اعظم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ نے ان کی بہادری ،ذہانت ،اصول پسندی اور سچائی کے واقعات تو سن رکھے ہیں،اب آخر میں ان کا ایک اور واقعہ سنتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر سر اشفاق نے کلا س پر ایک نگاہ ڈالی اور بات شروع کی:
’’یہ قیامِ پاکستان کے بعد کی با ت ہے،ایک بار کابینہ کا اجلاس شروع ہونے والا تھاجس کی سربراہی بطور گورنر جنرل قائد اعظمؒ نے کرنا تھی۔اُن کے سیکرٹری نے دریافت کیا کہ مہمانوں اوروزراء کو کھانے میں کیا چیز پیش کی جائے؟ اس پر قائد اعظمؒ نے حیرت سے پوچھا:’کیا وہ لوگ اپنے گھر سے کھانا کھا کر نہیں آئیں گے؟‘‘پھر ساتھ ہی فرمایا کہ سرکاری سرمایہ یوں فضول خرچی میں لگانے کے لیے نہیں ہوتا۔ کابینہ کا اجلاس شروع ہوا تو کچھ وزراء تاخیر کاشکا رہوگئے،اس پر قائداعظم نے ناراضی کااظہار کرتے ہوئے ان کی کرسیاں اٹھوا دیں اور فرمایا :’جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔‘‘
سر اشفاق نے بات مکمل کی تو طلبا ء کے چہرے قائد کے واقعات سننے کے بعد دمک رہے تھے ۔ اچانک سر اشفاق نے بچوں کو مخاطب کی:’’بچو! یہ واقعا ت سنانے کا مقصد صرف واہ واہ سمیٹنا نہیں ہے، بلکہ ہمیں چاہیے کہ قائد کی زندگی سے سبق سیکھ کر،ان کے سنہری اصولوں پر چلتے ہوئے خود بھی اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں اور اپنے دیگر پاکستانیوں کو بھی اس بات پرقائل کریں کہ ذہانت، بہادری ،جرأت، اصول پسندی، سچائی،دیانت داری کےساتھ ساتھ وقت کی پابندی کو بھی اپنا شعار بنانا ہے اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بناناہے،جونہ صرف ہمارے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے حیرت کا مجسمہ تھے۔