موسمِ سرما کی چھٹیوں میں صارب اورشرجیل بابا جان کے آگے پیچھے گھومنے لگے،دراصل انہوںنے بابا جان سے کہا تھا کہ وہ انہیں کسی گاؤں میں لے جائیںتاکہ وہ وہاں کی زندگی سے لطف اندوزہوسکیں۔
گائوں کے روایتی کھانوں، کچے برتنوں،لہلہاتے کھیت کھلیانوں اوروہاں کے لوگوں کی سادگی اور پیار کے بارے میں انہوں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کودیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے تھے۔
بابا جان کےدوست چچا فاروق ایک گائوں میں رہتے تھے۔ بس انہی کے پاس جانے کا پروگرام بن گیا۔
’’سب پیکنگ کرلیں، ہم صبح سویرےروانہ ہوں گے۔‘‘ یہ سنتے ہی صارب اور شرجیل خوشی سے اچھلنے لگے۔
’’یار!کیمرہ بھی لے لینا۔ گائوں کے مناظر بہت حسین ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ویسے کاش شہروں میں بھی کھیت کھلیان اور درخت ہوتے۔ کچھ سردی اور کچھ بارش ہوتی تو کتنا مزہ آتا، یہاں تو ہر طرف آلودگی ہی آلودگی ہے۔‘‘ شرجیل نے ٹھنڈی سانس بھری۔
سامان پیک کرنے کے بعددونوں بھائی سو گئے۔
’’ بچو! سفر کی دعا پڑھ لیں!‘‘دوسری صبح وہ سب گاڑی میں سوار ہوکرگائوں کی طرف چل دیے۔
’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن کو کتنا خوبصورت بنایا ہے!‘‘ صارب نے راستے میں خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بے شک!‘‘ بابا جان نے اس کی تائید کی۔
سفرواقعی بہت سہانا تھا۔ راستے میں خوبصورت کھیت کھلیان دُور تک دکھائی دے رہے تھے۔ کسان کھیتوں میں کام کررہے تھے۔ مویشی کھیتوں میں چررہے تھے۔ ٹیوب ویل پر بچے نہا رہے تھے۔ صارب اور شرجیل کہیں کہیں رُک کر ان مناظر کو اپنے کیمرے میںمحفوظ کرتے جارہے تھے۔
’’کتنا مزا آرہا ہے... کتنا خوبصورت سفر ہے!‘‘ صارب نے مکئی کا دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’صارب! وہ دیکھو! سامنے والا باغ، کتنے سارے مالٹے لگے ہیں اس میں، چلیں اس کی تصویر بناتے ہیں۔‘‘ شرجیل نے بلند آواز سے کہا۔
’’بابا جان! یہاں زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ ہم اب یہاں سے جلدی واپس جانے والے نہیں۔‘‘ شرجیل نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے کہا اور صارب نے بھی سر ہلا کر اس کی تائید کردی۔
’’بالکل، ہم چند دن یہاں ضرور گزاریں گے۔‘‘ بابا جان کی بات سن کر دونوں خوشی سے چہکنے لگے۔
گاڑی اب ایک کچے راستے پر آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک گائوں میں تھے۔ ابو کے دوست چچا فاروق ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ گاڑی وہیں ایک میدان میں کھڑی کرکے وہ سب چچا کی رہنمائی میں ان کے گھر چل دیے۔
’’یہ رہا ہمارا گھر!‘‘ چچا فاروق نے ایک بہت بڑے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک بہت بڑا صحن ان کے سامنے تھا جہاں چچا فاروق کی والدہ، چچا کے کچھ دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں نے ان کا استقبال کیا۔
’’گاؤں کی یہی خاص بات ہے یہاں کے لوگ بہت ملنسار ہوتے ہیں۔‘‘ بابا جان نے ان سے ملتے ہوئے کہا۔
’’کھانا تیار ہے۔ آپ منہ ہاتھ دھو لیں۔ تھوڑی دیر آرام کرلیں اور پھر باہر چلتے ہیں۔‘‘ چچا فاروق بولے۔
’’ہم ہاتھ دھوئیں گے ،کھانابھی کھائیں گے لیکن آرام نہیں کریں....مجھے ابھی گائوں دیکھنا ہے۔‘‘ شرجیل کی بات پرسب مسکرا دیے۔
صحن کے ایک کونے میںکچی اینٹوں سے بنی چھوٹی سی چار دیواری میںمٹی کے چولہے پر ہنڈیا رکھی تھی۔ اس کے نیچے لکڑیاں جل رہی تھیں۔ ہنڈیاکی مزیدار خوشبو نے ان کی بھوک میں اضافہ کردیا تھا۔
کھانے میں سرسوںکا ساگ ،باجرے کی روٹی، مکھن ،لسی اور مرچوں کا اچارسب موجود تھا۔ سچ میں لکڑیوں پر بنے کھانے کا ذائقہ ہی الگ تھا۔
کھانے سے فارغ ہوکر وہ سب صحن میں رکھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔کسی نے کچے مٹی کے آنگن میں پانی چھڑکا تو ہر طرف مٹی کی سوندی سوندی خوشبو پھیل گئی۔شرجیل اور صارب آنکھیں بند کرکے لمبے لمبے سانس لے کر مٹی کی خوشبو محسوس کرنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد چچا فاروق بچوں کو گائوں اور کھیتوں کی سیر کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔ گائوں کے بہت سے بچے بھی ان کے ہمراہ تھے۔
گائوں کا ہر بڑا چھوٹا شخص شرجیل اور صارب کی خوب آئو بھگت کررہا تھا۔وہ محبت اور اخلاص سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیر کر ان کا استقبال کررہے تھے۔
کھیتوںمیں لہلہاتی فصلوں نے ان کا استقبال کیا۔ ایک طرف ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ جہاں انہوں نے تازہ پانی پیا اور اپنے منہ ہاتھ بھی دھوئے۔
یہاں واقعی انہیں بہت مزا آرہا تھا۔ایک باغ مالٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے قریب مویشی بھی تھے۔ گائے بھینسیں، بکریاں، مرغیاں اور طوطے بھی۔دونوں بھائی شام تک یہاں کھیلتے رہے۔ جب سورج کھلے آسمان میں آہستہ آہستہ زمین میں اتر رہا تھا وہ گائوں واپس آئے۔
صبح بھی خوب روشن تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سورج کی کرنوں سے اٹکھیلیاں کرتی ان سے ٹکرا رہی تھی۔ ناشتے میں پراٹھے ، نان ، دودھ ، دہی ، لسی اور دیسی انڈے سب موجود تھے۔
آج پھر انکل فاروق انہیں باہر کھیتوں میں لے گئے۔ کسان اپنی فصلوں کی دیکھ بھال کررہے تھے۔ وہ بڑی محنت سے فالتو جڑی بوٹیوں کی تلافی کررہے تھے۔ کوئی اپنے مویشیوں کے لیے چارا کاٹ رہا تھا تو کوئی کھیتوں کو جانے والے پانی کےر استے کو صاف کررہا تھا۔ کوئی ٹریکٹر پر بیٹھا ہل چلا رہا تھا ۔
’’گائوں کے لوگ کتنے محنتی ہیں۔‘‘ شرجیل بولا۔
’’جی بیٹا! ان کی محنت سے فصلیں اگتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پیداوار کی صورت میں انہیں ان کا صلہ دیتا ہے۔ یہ فصلوں کی پیدوار کو بیچ کر اپنی دوسری ضروریات پوری کرتے ہیں۔ہمیں کسانوں اور محنت کشوں کی خوب قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہی ہمارے لیے گندم، چاول اور دوسری اجناس بوتے ہیں۔‘‘
’’جی بابا جان!‘‘ دونوں نے دُورکھیتوں میں ہل چلاتے ایک کسان کودیکھتے ہوئے سر ہلایا۔
گائوں کی خوبصورت زندگی میں رہتے ہوئے کسی کو وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔
’’ آج ہم واپس جارہے ہیں۔ ‘‘ اباجان کے ان الفاظ نے سب کو پریشان کردیا۔ چچا فاروق اور ان کی ماں شرجیل اور صارب کی واپسی کا سن کر اُداس تھے۔
’’ماں جی! ہم بہت سی جگہوں پر گھومنے گئے لیکن جو مزا یہاں آپ کے پاس آیا، کہیں اور نہیں آیا۔ ‘‘ شرجیل نے ماں جی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
’’پھر آجانا بیٹے!‘‘ ماں جی کی آنکھوں میں نمی تھی۔
’’اداس نہ ہوں، ہم گرمی کی چھٹیوں میں پھر آپ کے پاس آئیں گے۔‘‘ صارب نے چہکتے ہوئے کہا تو سب مسکرا دیے۔جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے گائوں سے نکل رہے تھے تو سورج اور بادلوں کی ٹکڑیاں آنکھ مچولی کھیلتےانہیں الوداع کہہ رہی تھیں۔
تبصرے