ندا اور بابر آج پھر تصویریں نکال کر بیٹھے تھے۔ جب سے وہ ساحل سمندر(beach) پر پکنک منا کر لوٹے تھے تب سے وہ سمندر کےسحر سے نکل نہیں پارہے تھے۔ ہر وقت دوبارہ جانے کی خواہش سر اٹھاتی رہتی اور وہ تصاویر نکال کر جیسے پھر سے انہی لمحات(moments) میں واپس پہنچ جاتے۔
’’کتنا اچھا ہوتا نا اگر ہم سمندر کنارے ہی رہتے !“ ندا نے حسرت سے کہا۔
’’ہاں! لہروں(waves) کے ساتھ کھیلتے ۔‘‘ بابر نے بھی چمکتی آنکھوں سے کہا۔
’’سمندر ہے ہی اتنا مہربان (kind)۔ وہاں گھروندے بنانا، سیپیاں جمع کرنا اور آتی جاتی لہروں سے شرارتیں کرنا کسے پسند نہیںہوگا۔” ندا جیسے خیالوں ہی خیالوں میں ساحل سمندر پر پہنچ گئی تھی۔
’’سمندر ہر وقت مہربان نہیں ہوتا بچو! اور نہ ہی آتی ہوئی لہر ہر بار واپس بھی چلی جاتی ہے۔‘‘ دادی اماں نے لاٹھی ٹیکتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوکر کہا۔ وہ کب سے ان دونوں کی بات سن رہی تھیں۔
’’کیا مطلب دادی جان؟‘‘ دونوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بس بیٹا! نومبر کا مہینہ ہے تو مجھے آپ سب کی باتوں سے یاد آگیا کہ نومبر میں سونامی(Tsunami) کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔‘‘
’’مطلب ؟سونامی کا دن بھی منایا جاتا ہے...؟‘‘ دونوں بچے دادی جان کی طرف متوجہ تھے۔ اسی وقت ٹی وی پر چلتی خبر نے تینوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
’’کراچی میں سمندری طوفان کی پیشن گوئی(prediction)! لوگوں کی حفاظت کے لیے سمندر کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا گیا، لوگ ان کی جگہ متبادل (alternative)راستہ استعمال کرسکیں گے۔‘‘
ندا نے کھڑکی سے بادلوں کی جانب دیکھ کر کہا، “ واہ! کتنا خوبصورت موسم ہے، ہمیں ضرور سمندر پرپکنک منانےجانا چاہیے۔ “ دادی جان نے ٹوکتے ہوئے کہا:’’لیکن سمندر میں تو طوفان کا خطرہ ہے، جس کے نتیجے میں وہاں تیزتیز لہریں اٹھ رہی ہوں گی۔ایسے میں وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے ورنہ راستے بند نہ کیے جاتے۔‘‘
’’ارے واہ! تیز تیز لہروں سے کھیلنے میں تو اور بھی مزا آئے گا۔” بابر نے چہکتے ہوئے کہا۔
دادی جان نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا، ’’ارے بھئی! سمندری طوفان قدرتی آفات(natural disasters) میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواس آفت سے بچائے رکھے۔ آمین! سمندری طوفان میں لہریں بپھر جاتی ہیں اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتی ہیں۔ ایسے میں ہمیںچاہیے کہ ہم حکومت کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے گھرں میں رہیں اور اللہ تعالیٰ سے سب کی حفاظت اور خیر کی دعائیں مانگیں۔‘‘
’’لیکن دادی جان! بارش اور بپھری ہوئی لہریں تو اچھی ہوتی ہیں ناں۔ “ بابر ہنوز (still)اپنی بات پر قائم تھا۔
دادی جان نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا:’’بیٹا! قدرتی آفات کے سامنے تو ہمارا کوئی بس نہیں لیکن بچاؤ کی تدبیر(protective measure) کرنا، اور ان کے ظہور پذیر ہونے کی علامتوں پرکڑی نگاہ رکھنا بےحد ضروری ہے۔ جیسے ابھی حکومت پاکستان نےکراچی کے ساحل سمندر پر جانے کی پابندی لگادی ہے تاکہ خدانخواستہ سمندری طوفان اگر آبھی جائے تو کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ “
’’بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ دادی جان۔‘‘ ندا کو ان کی بات سمجھ آگئی تھی۔
’’تو پھر ہمیں اس خبر کو سن کر کیا کرنا چاہئے؟‘‘ بابر ابھی بھی تذبذب میں تھا۔
’’ہمیں غیرضروری گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، اگر ہمارے گھر کے پاس کوئی مسافر طوفان میں پھنس (trap)جائے تو اس کی مدد کرنی چاہیے، اور سب سے اہم! ہمیں اللہ سے خیروعافیت کی دعا مانگنی چاہیے۔‘‘ دادی جان نے سکون سے سمجھایا ہی تھا کہ اچانک بابر اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
’’اب یہ کہاں چلا گیا؟‘‘ دادی جان نے تعجب سے ندا کی طرف دیکھا۔
کچھ لمحوں بعد ہی بابر جائے نماز لیے کمرے میں داخل ہوا اور ندا اور دادی جان کی طرف حیرت سے دیکھ کر کہنے لگا،” ارے! آپ دونوں نے ابھی تک وضو بھی نہیں کیا؟ چلیں ہم دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ سے اجتماعی دعا کریں گے کہ وہ ہمیں سونامی سمیت ہر قدرتی آفت سے محفوظ رکھے، آمین!‘‘
“ثم آمین” دادی جان نے زیرلب کہا اور ندا کے ساتھ وضو کرنے چل دیں۔
یوں اس دن سے ندا اور یاسر کا معمول بن گیا تھا کہ وہ قدرتی آفات سے بچاؤ کی دعا ضرور کرتے تھے۔
تبصرے