لاہور ملتان روڈ پر ہمارا یہ کوئی پہلا سفر نہیں ۔ بچپن سے ان راستوں کے بننے اور بگڑنے کے عینی شاہد ہیں ہم۔ لیکن دیپالپور سے پاکپتن کی مسافت پہلی بار اختیار کی تھی ۔کوئی پونے دو گھنٹے بعد دیپالپور کی جانب بڑھتی سڑک پرہماری سواری رواں دواں تھی۔ پنجاب کے کھیت کھلیان لاجوا ب ہیں، خوش نما، خاموش، زیادہ تر کھیتوں میں چھلیاں(مکئی کی فصل) لگی ہوئی تھیں۔ سفید بگلے نیچی اڑان کا مزہ لے رہے تھے۔ یہ اکہری سڑک تھی جو بابا فرید کے شہر کو جارہی تھی۔
ہر شہر کی دکانوں کے نام اس سرزمین کی شناخت بیان کررہے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی بہت سے تجارتی مراکز کی نسبت بابا فرید سے تھی، جیسے بابا فرید آٹوز، بابا فرید ٹریکٹرز وغیرہ۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر کے دفتر کے بعد ہماری گاڑی دوراہے پر پہنچ گئی۔ دائیں جانب پاکپتن کی نشاندہی تھی اور بائیں طرف کا راستہ قصور کو جاتا تھا۔ہم نے دائیں جانب والا راستہ لیا اور گلبرگ ٹائون سے ہوتے ہوئے تھانہ پاکپتن کی چوکی کو پار کیا۔ پاکپتن شہر وہاں سے 29 کلومیٹر دُورتھا۔ بڑے منظم طریقے سے نیلے رنگ کی تختیوں پر سفید لکھائی سے راہ پڑتے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے ناموں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
جا تو ہم شہید رفیق کے گھر رہے تھے لیکن راہ میں اور بھی کئی شہیدوں کے ناموں کے بورڈ دکھائی دیئے۔ سفید گنبد والی مسجد کے بعد بائیں مڑے تو سپاہی رفیق کے چک 65/D ناظر کا بورڈ دکھائی دیا۔ کنویں کے پاس کپڑے دھوتی عورتوں اور بچوں کے پاس سے گزرتے گئے۔ غوثیہ مسجد سے پہلے بائیں جانب جاتے قدرے کچے راستے پر حوالدار محمد رفیق کے نام کا بورڈ لگا ہوا تھا۔
گاڑی سڑک کنارے کھڑے تین افراد کے پاس رک گئی۔ محلے والے بھی اپنے گھروں کے دروازوں سے جھانک رہے تھے۔ بیٹھک سے گزر کر گھر کے وسیع صحن میں داخل ہوئے۔ کچا فرش تھا جس میں شہتوت کے پیڑ تلے چا رپائی بچھی ہوئی تھی۔ ہر چیز پر سکوت طاری تھا۔ برآمدے کے اس پار دو یا تین کمرے تھے، ایک کشادہ کمرے میں ہم بیٹھ گئے۔
''20مارچ کو ہر سال ہم اس کا ختم دلواتے ہیں۔ شہید تو وہ کہتے ہیں کہ 18 مارچ کو ہوا تھا لیکن ہمارے پاس وہ اس کو 20 مارچ کو لائے تھے۔ یہی کوئی دن دس بجے کے قریب کھٹکا ہوا تو میں دروازے پر گئی۔ دو فوجی کھڑے تھے ان کی ٹوپی پر لگے پھول سے مجھے پتا چل گیا کہ 12پنجاب سے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ گھر پر کوئی اور ہے۔ اتنی دیر میں قاسم اور رفیق کا بھائی بھی دور سے آتے نظر آگئے۔ ان فوجیوں میں سے ایک آگے بڑھا اور اس نے قاسم کو گلے لگایا اور کچھ بات آہستگی سے کی۔ اس نے قاسم کے کندھے پرہاتھ رکھااور گھر کی طرف لے آیا۔ میرے بیٹے نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے۔اس نے بتایا کہ 'رفیق شہید ہو گیا ہے'۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میرا رفیق موڑ پر کھڑی ایمبولینس میں جھنڈے میں لپٹا پڑا ہے۔'' اماں جی یہ کہہ کر خاموش ہوگئیں۔ میں جو نظریں ان کے پیروں پر گاڑھے ان کی بات سن رہی تھی، ان کے خاموش ہونے پر ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔ لیکن ان کی آنکھیں مجھے خشک لگیں۔ شاید آنکھوں میں صرف نمک باقی رہ گیا تھا پانی تو تیرہ برسوں میں سوکھ گیا ہوگا۔
''میں تو بہت چھوٹی تھی تب۔ لیکن مجھے یاد ہے جب بھائی کو لے کر آئے۔ یہاں صحن میں چارپائی پر ڈال دیا تھا اس کو۔ اس کے چہرے پر لگا خون ابھی جیسے تازہ تھا۔ وہ گھر میں مجھے سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ جب آخری بار آیاتھا تو میں نے اس سے کہا کہ میرے امتحان میں اچھے نمبر آئے تو میرے لئے نیا بستہ اور کتابیں لے کر آنا۔ اس کی شہادت کے وقت فوج نے اس کاجو سامان ہمیں دیا اس میں نیا بستہ اور کتابیں توتھیں لیکن وہ خود نہیں تھا۔'' شہید رفیق کی بہن نسیم، جو کہ اب بیاہ کر بونگا حیات چلی گئی تھی اور آج خاص ہماری ملاقات کے لئے آئی ہوئی تھی، نے اپنے پیارے بھائی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے لوگ اس کے شہید بھائی کی قبر کی زیارت پر آتے ہیں۔ کوئی پھول رکھ جاتا ہے اور کوئی پیسے۔اکثر لوگ وہاں نمک نذر کرتے ہیں جو اس کی قبر پر پڑا رہتا ہے۔ اکثر مریض وہاں سے چٹکی بھر نمک چکھ لیتے ہیں اور ان کی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔
اماں جی نے شہید رفیق کے ابا جی کو آواز دی کہ وہ پیڈسٹل فین بھی کمرے میں لگا دیں۔ بظاہر ضعیف بابا جی نے معذور بیوی کے کہے پر عمل کیا۔باباجی کو میں نے اپنی کرسی پیش کی اور خود ساتھ والی نشست سنبھال لی۔ ان کی خیریت اور صحت دریافت کی۔
''پتر میں بیاسی سال کا ہوں۔ جب پاکستان بنا تو میں بارہ سال کا تھا۔ بس اب تو آخری وقت ہے اور کیا ہونا باقی رہ گیا ہے اس ملک میں۔ ہمارے بچے جانیں دے رہے ہیںاور کچھ لوگ کس طرح سے ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔'' انہوں نے کچھ توقف کے بعد کہا ''اللہ کا شکر ہے، رفیق نے ہماری عزت رکھ لی۔ وہ جب اس کو لے کر آئے تھے تو ایک گولی سامنے اس کی گردن پر لگی ہوئی تھی اور ایک سینے پر۔'' باباجی نے انگلی اپنے گلے پر اور پھر سینے پر رکھ کر کہا۔
''شکر ہے فوج ہمارا خیال کرتی ہے۔ رفیق کی ماں جاتی ہے اکثر فوج کی دعوت پر۔پائوں سے اپاہج ہے لیکن تگڑی ہے''۔ باباجی نے اپنی مستعد بیوی کی تعریف کی جو کہ اندر باہر کے چکر لگا رہی تھیں۔جو کبھی اپنی بہو کی کھانے کی تیاری پر تنقیداورکبھی میاں قاسم کو ڈرائیور کی آئو بھگت کی تاکید کر رہی تھیں۔
بابا جی نے ہمیں پاکپتن اور انڈیا کے بارڈر کو بھی دیکھنے کا مشورہ دیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ جشن آزادی کے موقع پر وہاں بہت خوب تقریب ہوتی ہے۔ لوگ جھومر ڈالتے ہیں، عنایت حسین کے گانے لگتے ہیں۔ ہیڈ سلیمانکی پر ایک بہت اونچا ٹاور لگا ہے جہاں سے پرے انڈیا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اطلاع کے مطابق چین والے شاید کوئی پل بھی بنا رہے ہیں ستلج پر۔
حوالدار رفیق کی شادی ہو چکی تھی۔ شہادت سے پہلے وہ اپنی بیوی کو منگلا نوکری پر ساتھ لے گیا تھا۔ پھر پتا چلا کہ یونٹ آپریشن پر جا رہی ہے تو بیوی کو گھر چھوڑ گیا۔ بس وہ آخری بار آیا تھا۔ پھر کچھ دن بعد اس کو لایا گیا۔ حوالدار رفیق کے بچے نہیں تھے اور اس کی شہادت کے بعد سے اس کی بیوی زیتون بی بی اپنے میکے جا کر رہنے لگی تھی۔ اسی لئے رفیق کی بیوی سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔
شہید کے بھائی محمد بلال کو فوج نے اس کے بھائی کی شہادت کے اعزاز میں بھرتی کر لیا تھا جو کہ آج کل نوشہرہ میں ڈیوٹی پرہے۔ محمد بلال سے فون پر بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ہمارے گھر کا بڑا رفیق ہی تھا ۔ سب کو سنبھالا ہوا تھا اس نے۔ اس کے جانے کی دیر تھی، زندگی کی مشکلیں کیا ہوتی ہیں سمجھ میں آ گیا۔ فوج کی مہربانی ہے کہ مجھے فوراً بھرتی کر لیاگیا۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق: ''حوالدار محمد رفیق کمپنی کمانڈر میجر ثاقب زمان کے زیر کمان اس سپاہ کا حصہ تھے جنہوں نے جنوبی وزیرستان کے علاقے شین ورسک سے لے کر اعظم ورسک تک کے علاقے کو محفوظ بنایا تھا۔ ہیلی سے اترنے کے کچھ دیربعد یہ سپاہ دہشت گردوں کے فائر کی زد میں آگئی۔ ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا یہ فائر اتنا شدید تھا کہ ان کے لئے آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ انہوں نے ڈٹ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ۔ فائرنگ کے تبادلے میں گولیاں لگنے کی وجہ سے حوالدار رفیق کافی زخمی ہو گئے ۔ زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت کے بلند درجے پر فائز ہو گئے۔''
مضمون نگار نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ فارسی میں لیکچرار کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تبصرے