شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال کے نام سے منسوب
اقبال منزل کی دیکھ بھال کے لیے مامور سید ریاض حسین نقوی سے گفتگو
سیالکوٹ شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی جائے پیدائش اقبال منزل کے نام سے منسوب ہے۔اس تاریخی عمارت میں ایک ایسے شخص کو 36سال تک مقیم رہنے کا شرف حاصل ہے جس کا نہ تو حضرت علامہ اقبال اور نہ ہی خاندان اقبال سے کسی قسم کا کوئی خونی رشتہ یا کوئی براہ راست تعلق ہے لیکن اقبال منزل میں ان کے گزرے شب و روز نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ شاعرمشرق حضرت علامہ اقبال سے ان کی عقیدت و محبت اور روحانی رشتہ اتنا مضبوط اور طاقت ور ہے کہ وہ جب بھی اس تعلق کا تذکرہ کرتے ہیں تو انتہائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ 36 سال قبل 21 مارچ 1987 کو شاہی قلعہ لاہور میں محکمہ آثار قدیمہ میں بطور لائبر یرین اپنی ملازمت کا آغاز کرنے والے سید ریاض حسین نقوی کو صرف چودہ دن بعد ہی سیالکوٹ میں اقبال منزل کے انچارج کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہیں اس سے پہلے نہ تو اقبال منزل کا وزٹ کرنے کا موقع ملا اور نہ انہوں نے کبھی سیالکوٹ دیکھا تھا جبکہ ان کی سیالکوٹ میں تعیناتی کے وقت ان کے دوستوں اور ساتھی ملازمین نے سیالکوٹ میں تعیناتی پر اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ اپنی تبدیلی رکوانے کا سوچنے لگے تھے۔ ایک تو انہیں سرکاری ملازمت کا کوئی تجربہ نہیں تھا جبکہ سیالکوٹ میں تعیناتی سے ان کی تنخواہ میں بگ سٹی الائونس نہ ملنے کی وجہ سے کمی ہو جانی تھی۔ اسی طرح دیگر اضافی اخراجات اور اپنے گھر والوں سے جدائی بھی برداشت کرنا پڑنی تھی۔ لیکن اللہ کو جو منظور ہوتا ہے اس بارے انسان کو علم نہیں ہوتا۔ سیالکوٹ تعیناتی سے گھبرانے والے سید ریاض حسین نقوی اب سیالکوٹ سے واپس لاہور جانے کے لیے تیار نہیں۔ جب بھی ان سے کوئی ان کے آبائی شہر لاہور واپس جانے کی بات کرتا ہے تو ریاض نقوی انتہائی پریشان ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں آپ مجھے اپنے پیر و مرشد حضرت علامہ اقبال کی روح سے الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
4اپریل1987کو داتا کی نگری لاہور سے شہر اقبال سیالکوٹ آنے والے ریاض نقوی کا اب لاہور جانے کو دل ہی نہیں کرتا اور وہ ہر وقت اقبال منزل کی خدمت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 25 فروری2017 کواپنی مدت ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انہیں کچھ عرصہ کے لیے اقبال منزل سے باہر رہنا پڑا تو ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ان کے دوست احباب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں نمایاں فرق دیکھ رہے تھے۔وہ ہر وقت پریشان اور بجھے بجھے نظر آتے۔ اپنی اس پریشانی کو کم کرنے کے لیے جب اقبال منزل کے اندر داخل ہوتے تو ایک لمحے بعدہی ہشاش بشاش نظر آنے لگتے۔محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ افسران نے ان کی اس کیفیت اور ان کی اقبال منزل کے لیے گراں قدر خدمات کی وجہ سے 17 اگست 2017 کو تین سال کے لیے کنٹریکٹ پر دوبارہ ملازمت دے دی تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے اس کنٹریکٹ کی مدت اگست 2020 سے ختم ہو چکی ہے اور ان کی جگہ پر محمد نذیر کی تعیناتی بھی ہو چکی ہے لیکن اب بھی سید ریاض حسین نقوی باقاعدگی سے روزانہ اقبال منزل آتے ہیں اور اپنے فرائض رضاکارانہ طور پر اسی طرح سرانجام دیتے ہیں جس طرح اپنے محکمے سے تنخواہ لینے کے دوران سرانجام دیا کرتے تھے۔ ایسا جذبہ کسی ریٹائرڈ سرکاری ملازم میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔یہ بات بھی بڑی حوصلہ افزا ہے کہ ریاض نقوی کا اقبال منزل کے ساتھ جذبہ اور جنون دیکھ کر ان کی جگہ پر تعینات ہونے والے کیئر ٹیکر محمد نذیر ان سے بھرپور تعاون کرتے ہیں اور ان کی رضاکارانہ خدمات سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ریاض حسین نقوی سے ساڑھے تین عشروں پر محیط عرصے کے دوران اقبال منزل میں رہتے ہوئے پیش آنے والے واقعات اور اقبال منزل کی تاریخ اور موجودہ صورت حال کے حوالے سے ایک خصوصی ملاقات ہوئی ۔سید ریاض حسین نقوی نے گفتگو کا آغاز اللہ تبارک تعالیٰ کی اس عنایت پر شکریہ ادا کرنے سے کیا اور کہا کہ انہیں دنیا کی تاریخ کے ایک ایسے درویش منش مفکر و شاعر اور مسلم امہ کے عظیم رہنما حضرت علامہ محمد اقبال کی جائے پیدائش کی دیکھ بھال کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے چنا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اقبال منزل ایک عمارت کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی درس گاہ ہے جس سے کسی نے جتنا بھی پیار کیا اتنا ہی سکون حاصل کیا اور اس کی زندگی بدل گئی۔ریاض نقوی کہتے ہیں کہ اس عمارت میں آنے والے ہر شخص پر جو جادوئی اثر ہوتا ہے وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔اس راز کو جاننے کی بہت کوشش کی ہے ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مکان کے اندر جو روحانیت محسوس ہوتی ہے اورہر کسی کو متاثر کرتی ہے اس کی وجہ حضرت علامہ اقبال ، ان کے بزرگوں کی طرف سے کی جانے والی عبادات ، خلوص نیت اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ معلوم ہوتاہے۔ اقبال منزل میں آنے والوں کو جو روحانی سکون ملتا ہے اور ایک عجیب طرح کی جو کیفیت ان پر طاری ہوتی ہے اس کا جس کسی کو تجربہ ہو جاتا ہے وہ بار بار اقبال منزل میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت علامہ اقبال کی روحانیت پر تحقیق کرنے والے ایک امریکن جب اقبال منزل آئے تو انہوں نے جس کمرے میں حضرت اقبال پیدا ہوئے تھے، اس کمرے میں کچھ وقت اکیلے گزارنے کی درخواست کی ۔ریاض نقوی بتاتے ہیں کہ چونکہ تمام کمروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، اس لیے انہوں نے دیکھا کہ وہ امریکن کمرے کے فرش پر لیٹ کر اسے چوم رہا تھا ۔ کمرے سے باہر آنے پر میں نے ان سے جب ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ میں اس لیے فرش کو چوم رہا تھا کہ اس پر حضرت اقبال کے پائوں لگے ہوں گے اور میں ان کا لمس محسوس کرنا چاہ رہا تھا۔ ریاض نقوی نے مزید بتایا کہ جب بھی کوئی ایرانی اقبال منزل میں آتا ہے تو اس منزل کی دیواروں کو چومتا ہے۔ ایرانی پاکستانیوں کی نسبت حضرت علامہ اقبال اور ان کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اقبال منزل کو محفوظ اور خوبصورت بنانے میں پاک آرمی نے سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ والدین اقبال کی قبروں کو پہچان دینے میں کسٹمز کے دوریش منش افسر یاسین طاہر نے بھی ایک بڑا کام یہ کیا تھا کہ ان پر والدہ محترمہ حضرت امام بی بی اور والد محترم حضرت شیخ نور محمد کے نام لکھوا ئے تھے ۔ والدین اقبال کی قبروں پر صرف مادر اقبال اور پدر اقبال ہی لکھا ہوا تھا اور کسی کو علم نہیں تھا کہ اقبال صاحب کے والدین کے نام کیا ہیں۔سید ریاض نقوی نے والدین اقبال کے نام سے سیالکوٹ کے مختلف اداروں کے نام منسوب کرانے کی ایک رفاہی ادارے مدینہ ٹرسٹ کی طرف سے شروع کی گئی مہم کابھی ذکر کیا جس کے تحت گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کے ایمن آباد روڈ پر زیر تعمیر نیو کیمپس کا نام والدہ اقبال محترمہ امام بی بی رکھنے پر یونیورسٹی کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا جبکہ رنگ پورہ کی ڈسپنسری کانام بھی گورنمنٹ امام بی بی ڈسپنسری رکھنے کو عظیم ماں کی خدمات کے اعتراف کی ایک اچھی کوشش قرار دیا۔ ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ اقبال منزل کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کے درو دیوار اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں ۔
سید ریاض حسین نقوی نے بتایا کہ جب ان کو سیالکوٹ تبدیلی کے احکامات ملے انہیں یہی پتہ تھا کہ حضرت علامہ اقبال تصورِ پاکستان کے خالق ہیں اور انہیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے اور انہیں ان کی جائے پیدائش جسے اقبال منزل کہا جاتا ہے ، اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت کرنی ہے۔ لیکن انہیں یہ بالکل علم نہیں تھا کہ اس اقبال منزل میں رہنے والے تمام افراد کتنے عظیم ہیں اور انہوں نے اپنا اپنا کردار کس اچھے انداز سے ادا کرکے عزم و ہمت کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔
حضرت علامہ محمد اقبال دراصل ایک عظیم انسان ہیں اور انہیں جنم دینے والی والدہ محترمہ حضرت امام بی بی، علامہ صاحب کی تربیت کرنے والے والد محترم حضرت شیخ نور محمد اور ان کی ہر لمحہ مالی معاونت کرنے والے ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے بارے سن کر اور یہاں پڑی ہوئی کتابوں سے پڑھ کر ان کے علم میں جو اضافہ ہوا وہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن ان معلومات سے ان کی اپنی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ بیان سے باہر ہیں۔ایک طویل عرصہ اس عمارت میں مقیم رہنے کی وجہ سے اس عمارت کی ایک ایک اینٹ اور علامہ صاحب کے زیر استعمال رہنے والی تمام اشیاء کے ساتھ ناقابل بیان انسیت ہو گئی ہے۔ اقبال منزل کا ایک طویل عرصے تک مکین رہنے کی وجہ سے ان کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔علامہ اقبال سے عشق اور لگن نے انہیں حقیقی معنوں میں شیدائی اقبال اور ماہر اقبالیات بنا دیا ۔
ریاض نقوی نے بتایا کہ سیالکوٹ میں اقبال منزل وہ منزل سعید ہے جس میں شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال نے آنکھیں کھولیں اور جہان عمل میں اولین سانس لی۔ یہ عمارت شہر کے قدیم ترین بازار چوڑی گراں جو اَب اقبال سٹریٹ کے نام سے منسوب ہے، میں واقع ہے۔ اس مکان نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ مکان وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تعمیر اتی مراحل سے بھی گزرتا رہا اور اس کے ڈیزائن اور رقبے میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ علامہ اقبال کی والدہ ماجدہ امام بی بی نے اسی مکان میں اقبال جیسے عظیم مفکر کو جنم دیا۔ اس مکان نے والدین اقبال کو اس جہان فانی سے رخصت ہوتے اور سب کو سوگوار چھوڑتے بھی دیکھا۔ علامہ اقبال کی بیٹی معراج بیگم کی پیدائش اور نوجوانی میں ان کی جدائی کا منظر بھی دیکھا جبکہ فرزند اقبال جاوید اقبال کا جنم بھی اسی مکان میں ہوا۔ غرض یہ مکان ایک تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ اقبال کا خاندان علا مہ صاحب کے دادا حضور شیخ محمد رفیق کی قیادت میں اپنے بھائی عبداللہ کے ہمراہ جب جموں و کشمیر میں ہونے والے بد امنی کے واقعات کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تو وہ سب سے پہلے سیالکوٹ شہر نہیں آئے تھے بلکہ ان کے خاندان کا سب سے پہلا پڑائو سمبڑیال سے دو کلو میٹر دور واقع گائوں جیٹھی کے میں ہوا تھا۔ شیخ محمد رفیق سائیکل پر سیالکوٹ شہر آتے اور دھسے(موٹی اون کی چادریں )فروخت کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ۔روزانہ جیٹھی کے سے سیالکوٹ شہر آنے اور پھر واپس جانے پر تھک جاتے تو انہوں نے سیالکوٹ شہر ہی میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔جہاں انہوں نے محلہ کھٹیکاں میں کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی جبکہ ان کے ایک بھائی عبداللہ گائوں جیٹھی کے ہی میں رہنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد شیخ محمد رفیق نے اپنے بھائی عبداللہ کے ساتھ مل کر بازار چوڑی گراں میں اپنا ذاتی مکان خرید لیا۔ ڈیڑھ دو مرلے پر تعمیرشدہ مکان ایک سو پچاس روپے میں خریدا گیا ۔یہ ایک منزلہ مکان پرانے فیشن کا تھا ۔کچھ کچا اور کچھ پکا تھا۔ جس میں گلی کی طرف ایک ڈیوڑھی، دو کوٹھڑیاں ان کے ساتھ ایک دالان اور اس کے آگے چھوٹا سا صحن تھا۔دسمبر 1892ء اور مارچ 1895 ء میں علامہ اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد میاں جی نے اس میں اضافہ کرنے کے لیے ایک ملحقہ مکان خریدکر اس مکان میں شامل کرلیا۔اسی مکان کے پرانے حصے کے کونے والی کوٹھڑی جس کی دو کھڑکیاں گلی میں کھلتی ہیں کو علامہ اقبال کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال منزل کا صدر دروازہ عمارت کے اسی پچھلے حصے میں کھلتا ہے جو کہ علامہ صاحب کے بزرگوں کے ہاتھوں کا لگا ہوا ہے اور اصل حالت میں اب بھی موجود ہے ۔ والدہ محترمہ علامہ اقبال حضرت امام بی بی نے اسی مکان کے ناپختہ صحن میں اقبال کو پائوں پائوں چلنا ، بولنا سکھایا، ادب و آداب سکھائے۔ اقبال یہیں کھیلتے کودتے پروان چڑھے۔ بعد ازاںاقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمدنے اس آبائی مکان کے ساتھ ملحقہ ایک اور مکان خرید کر اسے اس میں شامل کرکے موجودہ مکان کی از سرِ نو تعمیر کروا کے اسے ایک عظیم الشان سہ منزلہ حویلی میں تبدیل کیا اور اسے اپنے نام سے منسوب کرنے کی بجائے اپنے عظیم بھائی حضرت علامہ اقبال کے نام سے منسوب کرکے اسے اقبال منزل کا نام دے کر ہمیشہ کے لیے اس مکان کو یاد گار اور اہم بنا دیا ۔
شیخ عطا محمد نے اس آبائی مکان کی از سرے نو تعمیر ضرور کی لیکن اس کی پرانی ہیئت کو پوری طرح برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ دیواریں اور فرش نئے طریقے سے پختہ ضرور کیے مگر ڈیوڑھی، کوٹھڑیاں اوردالان تقریباً اسی طرح رہے اور صحن کا طول و عرض بھی قریب قریب وہی رکھا۔ چونکہ شیخ عطا محمد خود سول انجینئر تھے اس لیے انہوں نے اس عمارت کو اپنے اصلی حسن میں محفوظ رکھنے میں خوب کمال دکھایا۔اس طرح وہ تاریخی جگہ جہاں حکیم الامت نے جنم لیا تھا، اسی طرح موجود رہی۔ اقبال منزل میں وہ کمرہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے جو والد محترم شیخ نور محمد کے لیے مختص تھا اور اقبال اپنے عظیم والد کی نصیحتیں سنتے اور پہروں حاضر خدمت رہتے اور ان سے اکتساب فیض حاصل کرتے۔یہاں وہ کمرہ بھی موجود ہے جو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے لیے مختص تھا جہاں دونوں بھائیوں کا وقت گزرتا۔ اقبال منزل کی اندرونی نشست گاہ میں آج بھی اسی طرح لکڑی کے تخت بچھے ہیں جس طرح پہلے زمانے میں تھے۔ انہی تختوں پر سفید چاندنیوں کے اوپر گائو تکیوں کے سہارے بیٹھ کر شاعر مشرق حقہ نوش فرمایا کرتے تھے۔انہی تختوں کو شرف حاصل ہے کہ جب حضرت علامہ سیالکوٹ میں تشریف لاتے اور یہاں قیام فرماتے توانہی کے اوپر ان کا پلنگ بھی بچھا دیا جاتا۔ یہاں و ہ بیرونی نشست گاہ بھی موجود ہے جس میں مفکرپاکستان مہمانوں اور آنے والے عام لوگوں کو شرف ملاقات بخشا کرتے تھے۔
ریاض نقوی بتاتے ہیں کہ اقبال منزل میںلاتعداد ایسی چیزیں موجود ہیں جنہیں علامہ صاحب کے استعمال میں رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔وہ آرام دہ کرسیاں جن پر انہوں نے آرام فرمایا،وہ پلنگ جن پر وہ محو استراحت رہے،وہ قالین جنہیں ان کے قدم چومنے کی سعادت نصیب رہی،وہ درو دیوار جن کو شاعر مشرق کے ہاتھوں کا لمس میسر آیا، وہ کتابیں جو ان کے مطالعے میں رہیں، وہ آتش دان جس کے سامنے بیٹھ کر مفکر پاکستان طویل اور خنک راتوں میں محو فکر رہے۔ یہاں تیل کے وہ دیوار گیر لیمپ آج بھی موجود ہیں جن کی روشنی میںآپ مصروف مطالعہ رہے۔ اقبال منزل کم و بیش پندرہ کمروں پرمشتمل ہوا کرتی تھی۔ وہ لان اور صحن بھی موجود ہے جس میں ان کا بچپن ، لڑکپن اور جوانی گزری۔ علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا اللہ بھی اس مکان میں پیدا ہوئے۔
میاں شیخ نور محمد17 اگست 1930 ء میں اللہ کو پیارے ہو ئے۔علامہ اقبال 21 اپریل 1938 ء کو وصال کر گئے جبکہ ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد 1940ء میں انتقال کر گئے۔ اس لحاظ سے اقبال منزل آہستہ آہستہ اپنے پیاروں سے محروم ہوتی گئی۔ اقبال منزل کو مئی 1971ء میں محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس وقت اقبال منزل کی چابیاں خالد نظیر صوفی کی تحویل میں ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ انہوںنے تمام اشیاء محکمہ آثار قدیمہ کے حکام کے حوالے کیں اور گھر میں موجود تمام سامان انہیں دکھا یا۔ تمام فرنیچر ، تصاویر ،کراکری، اور دیگر گھریلو سامان اس لیے وہا ں چھوڑا گیا کہ اقبال منزل کو اسی طرح محفوظ کیا جائے گا تاکہ جو لوگ اقبال کے مولدو مسکن کو دیکھنے آئیں انہیں معلوم ہو سکے کہ اقبال فیملی کس طرح یہاں رہتی رہی اور ان کاانداز زندگی کیسا تھا۔
سید ریاض نقوی نے اقبال منزل کے بارے ایک نئی بات یہ بتائی کہ علامہ اقبال روڈ کی طرف اقبال منزل کا عقبی حصہ ہے ۔ عمارت کا اصل ماتھا گلی کی طرفہے۔ اس طرف دیوار پر انی طرز پر بڑی نفاست اور خوبصورتی سے تعمیر کی گئی ہے۔بلاشبہ اقبال منزل ہماری قوم کے لیے ایک انتہائی یادگار ورثہ ہے جس کی حفاظت وتزئین و آرائش ہوتی رہنی چاہیے تاکہ یہ قومی اثاثہ محفوظ رہے۔ ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔
تبصرے