مفکرین مغربی ہوں یا مشرقی، ان کے ایک دوسرے پر اثرات نظر آتے ہیں۔ جس طرح یونانی مفکرین کے اثرات پوری دنیا کے علم و ادب پر پڑے اسی طرح مسلم فلسفیوں اور سائنس دانوں کے اثرات غیر مسلموں پر پڑے اور فرائیڈ جیسے بابائے نفسیات کی تھیوری آف دی اِڈ(Id) میں ، ایگو اور سپر ایگو کا تصور قرآن کی تعلیمات نفس ِ امارہ ، نفس ِ لوامہ اور نفس ِ مطمئنہ سے لیا گیا ۔ علمی فیض ، استفادہ اور شراکت ِ فکر و فلسفہ ، علما و مفکرین کے ہاں علمی قرینہ رہی ہے ۔ یہ خالصتاً ایک علمی رویہ ہے جو ہمیں اقبال کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ اقبال نے بطور شاعر جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس سے پہلے شاعر کو محض ایک ناکام عاشق اور دیوانہ گردانا جاتا تھا اور شاعری کو عورتوں سے باتیں کرنے یا حال دل کے بیان تک ہی محدود رکھا اور قیاس کیا جاتا تھا لیکن اقبال نے اس تاثر پر بہت سخت ضرب لگائی اور شاعری کو اعلیٰ انسانی و سماجی ، تہذیبی و تمدنی پیغام اور تربیت کے منصب پر فائز کرکے قابل ِ احترام بنا دیا ۔ یعنی اقبال کے بعد یہ سوال باقاعدہ اٹھایا گیا کہ کیا شاعری میں مربوط فکری نظام یا کوئی نظریہ یا فلسفیانہ تصور بیان کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ؟ جہاں تک میری تحقیقانہ رسائی ہے میں نے اقبال کے علاوہ اتنا مربوط فکری اور نظریاتی نظام دنیا کے کسی شاعر کے ہاں نہیں پایا ۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اقبال کو دنیا بھر کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور ایمانی نظریات کے تقابلی جائزے کا موقع ملا اور انہوں نے نہ صرف کھلے دماغ اور روشن دل کے ساتھ مختلف فلسفیوں اور مفکرین کے مثبت فکری ، معاشرتی اور شخصیاتی نظریات قبول بھی کیے اور ان کا تجزیہ بھی کیا بلکہ انسانی فکری و سماجی ارتقا سے متعلق جہاں سے بھی علم و فکر کی روشنی میسر آئی، اسے حاصل کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ بظاہر اسلامی عقائد کی روشنی میں ڈھالے گئے لگتے ہیں لیکن اقبال کے ہاں اجتہاد اور علم الکلام کی تزئین ِنو کی آرزو ایک گلوبل اور یونیورسل تصور ِ سیاست و معاشرت کو جنم دیتی ہے ۔ اقبال یونانی ، اسلامی اور مغربی مفکرین جن میں نطشے ، گوئٹے ، کارل مارکس ، اینگلز ، ہیگل ، آئن سٹائن ، شوپن ہار ، دانتے ، برگساں ، اور ملٹن شامل ہیں ، کے افکار سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ اقبال ایک وسیع النظر شاعر اور مفکر تھے۔ ان کو محض مذہبیدائرے کا مقید شاعر قرار دینا نہ صرف اقبال کے ساتھ بلکہ اسلامی فکر ، رواداری اور انسانی وسیع النظری کے ساتھ بھی بے انصافی ہے ۔
اقبال کے ہاں مردِ مومن کا تصور ہرگز کسی خونخوار اور طاقت کے نشے میں مست جنگجو کا تصور نہیں بلکہ ایک خود دار ، غیرت مند ، بہادر ، صاحب ِ تدبیر اور فراخ دل انسان کا تصور ہے جس سے معاشرے کی اعلیٰ اقدار کی تشکیل کا کام ممکن ہوسکتا ہے ۔ اگرچہ اس موضوع پر مباحث کی ایک کثیر تعداد ملتی ہے جن میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نطشے کے سپرمین کے تصور سے متاثر تھے جو ایک آزاد فکر اور خود پر انحصار کرنے والے فوق البشر کا تصور تھا لیکن کچھ لوگ اسے محض مماثلت قرار دیتے ہوئے نطشے سے اقبال کے متاثر ہونے کے امکان کو یکسر رد کرتے ہیں ۔ جبکہ میرے نزدیک یہ کسی بھی حالت میں ایک فکری اشتراک یا الحاق ضرور ہے جس کا میرے نزدیک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ نطشے مذہب مخالف فکر و نظریات کے شاعر ، ادیب اور فلسفی تھے جبکہ اقبال نطشے کے برعکس صاحب ایمان مفکر تھے ۔ ایک حقیقی اور سچا شاعر و ادیب انسان ، معاشرے اور زمانے کو ہمیشہ اعلی اور مثالی دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی رنگ ، نسل ، جغرافیے اور مذہب سے ہو یا کسی مذہب سے نہ بھی ہو ۔
اقبال کے ہاں مرد مومن کا تصور ہرگز کسی خونخوار اور طاقت کے نشے میں مست جنگجو کا تصور نہیں بلکہ ایک خود دار ، غیرت مند ، بہادر ، صاحب ِ تدبیر اور فراخ دل انسان کا تصور ہے جس سے معاشرے کی اعلیٰ اقدار کی تشکیل کا کام ممکن ہوسکتا ہے ۔
نطشے نے مذہب کے تصور خدا اور خدا سے بندے کے رشتے کے مقابلے میں اپنے super man یا فوق البشر کا تصور پیش کیا۔ یہ ایک آئیڈیل انسان ہے جو کسی بھی الہامی خیر و شر سے ماورا خود اپنے اوپر بھروسہ کر کے زندگی گزارنے کے فن سے آشنا ہے۔ ساتھ میں یہ فوق البشر ہر طرح کے الہامی اخلاق کو بھی شدت سے رد کرتا ہے.ایک گال پر تھپڑ کے بعد دوسرا گال آگے کرنے جیسی سوچ کو انسانیت مخالف درجہ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کا تصور ہے جو بنی نوع انسان کو ہر قسم کی الہامی ہدایات سے ماورا ایک ایسا نظام دینے پر قادر ہے جو انسانیت کی تکمیل خود انسان کے اپنے ہاتھوں کروائے گا۔ اگرچہ نطشے کا مرد کامل خود میں آئیڈیل ہے اور اسکے لیے ہر طرح کی جنگ جائز ہے اور وہ نسلی برتری کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے مگر پھر بھی عمومی تاثر یہی ہے کہ اقبال کے مرد مومن نے نطشے کے مرد کامل سے تھوڑا بہت اثر ضرور لیا ہے کہ جب اقبال جرمنی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تو خودی اور مومن سے نطشے کا فوق البشر جھلکتا نظر آتا تھا ۔ شاید اسی لیے اقبال یہ بھی فرما گئے ہیں کہ نطشے ایک کافر ہے جس کا دل مومن ہے۔
لیکن یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں نطشے کی قدردانی ہمدردی کی قدردانی ہے، اخذ و اکتساب یا اثر پذیری کی قدردانی نہیں۔ اقبال کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نطشے کو کوئی ایسا رہنما نہ ملا جو اس کی واردات قلب اور افکارِ کی تربیت کرتا۔ وہ بڑا ذہین و فطین اور غیر معمولی قابلیتوں والا انسان تھا۔ ایک ایسا انسان جو اپنے دور کی مادیت پرستی کا شکار ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک نطشے کا معاملہ ایک ایسے مریض کا معاملہ ہے جس کا مداوا اطبا کی بجائے کوئی صاحبِ نظر انسان ہی کرسکتا تھا۔ وہ اگر زندہ ہوتا تو شاید اقبال خود بھی اس کی رہبری کرتے ۔۔۔۔۔
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
اقبال اس کی قابلیت اور اس کی فکر کا اعتراف جس اعلیٰ ظرفی سے کرتے ہیں یہ شیوہ ایسے ہی بڑے لوگوں کا ہوا کرتا ہے ۔ نطشے کی فکری بغاوت کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا اسی طرح اقبال نے مذہبی و قرآنی تعلیمات میں رہتے ہوئے ان ملاؤں ، پیروں اور مادہ پرستوں کی سرزنش کی جن کو للکارنا اتنی ہی رفعت کا حامل انکار تھا جتنا کہ نطشے کا ۔ لیکن نطشے اور اقبال کے فوق البشر اور مردمومن کے درمیان فرق یہ ہے کہ فوق البشر وہ اعلیٰ فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔
نطشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوص نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کے لیے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے۔ اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے۔ اس کے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔ نطشے کا فوق البشر طاقت ، دانائی ، خود مرکزیت اور تکبر جیسی خصوصیات کا حامل ہے جبکہ اقبال کا مرد ِ مومن یا انسان کامل وہ مرد حق بندہ آفاقی، بندہ مومن، مرد خدا ہے جو اقبال کے تصور ِ خودی کا مثالی پیکر ہے۔
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں
اور عالم تمام ، وہم و طلسم و مجاز
۔۔۔۔۔۔
عالم ہے فقط مومن ِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
۔۔۔۔۔۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نطشے اور اقبال کے اس تصور کے درمیان واضح فرق یہ بھی ہے کہ نطشے کا فوق البشر مذہب اور خدا پر ایمان کا دائرہ توڑ کر انسانی عظمت کو چھونے کے نظریے پر قائم ہے جبکہ اقبال کا مرد مومن خدا اور مذہب پر ایمان کے دائرے میں رہ کر انسانی رفعت کے درجے پر فائز ہے ۔ البتہ دونوں انسانی معاشروں کے لیے ظلم و بے انصافی کے خلاف دوسرے انسانوں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نطشے اور اقبال کے برعکس برگساں اور اقبال ہم عصر تھے۔ دونوں کے درمیان وجدانی کیفیات اور باطنی واردات کے غالب انسانی و تخلیقی عنصر ہونے کے اعتراف و ابلاغ کے واضح ثبوت ملتے ہیں ۔ دونوں مادی اور عنصری نظر سے دنیا کو دیکھنے سے انکاری ہیں ۔ یورپ کی مادیت پرستی اور مشرق کی تواہم پرستی کے عہد میں دونوں مفکرین نے اپنی اپنی جگہ فکری اور نظری سطح پر مادیت پرستی پر گہری ضرب لگائی ۔ اگرچہ مشرق اور مغرب کے درمیان عشق کے ادراک کے فرق کی طرح روحانیت کے شعور کا فرق بھی نمایاں ہے ۔ ہمارے یہاں روحانی تفہیم کی بنیاد مذہب فراہم کرتا ہے جبکہ یورپ کی روحانی فکر کے پیچھے افسانوی خیالات (ما یتھالوجیکل تھاٹس یا مایتھالوجی بیسڈ تھاٹس) تانا بانا فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے یقین اور شک و شبہ کی کیفیت کا فرق اجاگر ہوتا ہے ۔
برگساں اور اقبال کے درمیان تصور وقت اور تحرک کی مماثلت بھی بدرجہ اتم نظر آتی ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اقبال کے نزدیک وقت میں بے پناہ تسلسل ہے۔یہ ایک ایسے طاقتور بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے جو ڈوبنے اور بہنے والوں سے بے نیاز آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
جہاں تک تسلسل زمان اور کائنات کی تخلیقی حرکت کا تعلق ہے اقبال برگساں سے پوری طرح متفق ہیں لیکن ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اقبال برگساں کی طرح کائنات کے استمرار کو بے مقصد نہیں سمجھتا بلکہ بامقصد قرار دیتا ہے۔برگساں کہتا ہے کہ کائنات کی اصل حرکت ہے اور اسی سے اس کی زندگی ہے لیکن کائنات کی اس حرکت کا کوئی مقصد نہیں۔ اس میں کوئی منصوبہ کارفرما نہیں۔
نطشے اور اقبال کے اس تصور کے درمیان واضح فرق یہ بھی ہے کہ نطشے کا فوق البشر مذہب اور خدا پر ایمان کا دائرہ توڑ کر انسانی عظمت کو چھونے کے نظریے پر قائم ہے جبکہ اقبال کا مرد مومن خدا اور مذہب پر ایمان کے دائرے میں رہ کر انسانی رفعت کے درجے پر فائز ہے ۔ البتہ دونوں انسانی معاشروں کے لیے ظلم و بے انصافی کے خلاف دوسرے انسانوں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
دراصل برگساں کا اعتراض یہ تھا کہ "اگر حرکت حیات میں مقاصد سے متعین مستقبل تک رسائی کے نقطہ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ حرکت ایک تخلیقی عمل کے بجائے میکانکی سرگرمی بن جائے گی اور اس طرح زمان کی حقیقت بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔اقبال اس اعتراض کا ایک جواب تو یہ دیتے ہیں کہ وقت پہلے سے کھنچی ہوئی لکیر نہیں کہ جس پر چل کر میکانکی انداز کے ساتھ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے اور دوسری بات یہ ہے کہ مقصد کے تصور سے یہ مراد لینا کہ مقاصد ایسے بندھے ٹکے، اس طرح سے متعین اور ایک خاص زمانی فاصلے پر موجودہ اہداف ہیں جن تک رسائی مخصوص مراحل سے گزر کر ہونا پہلے سے دیکھی بھالی ہوئی حقیقت اور طے شدہ امر ہے، درست نہیں کیونکہ اس طرح کی مقصدی حرکت بلاشبہ ایک میکانکی عمل بن جاتی ہے. اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مقصد شعور کا ایک ایسا باطنی تخلیقی عمل ہے جو خودی کو دعوت مبارزت دیتا ہے اور مستقبل میں اس کا حصول اس لحاظ سے محض ایک امکان ہوتا ہے کہ اس تک رسائی خودی کی اندرونی قوت عمل، تخلیقی اور اختراعی صلاحیت اور جذبہ کد و کاوش کے ساتھ مشروط ہے ۔
اسی طرح محققین گوئٹے اور اقبال کے درمیان بھی فکری مماثلت کا ذکرتے ہیں ۔
فان ہیمرکے ترجمہ دیوانِ حافظ سے متاثر ہوکر گوئٹے نے اپنا دیوانِ مغرب مرتب کیا جو علامہ اقبال کے فارسی مجموع کلام پیامِ مشرق کی تصنیف کا محرک ہوا۔ گوئٹے کو بیک وقت مختلف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ گوئٹے نہ صرف اپنے عہد کا ممتاز شاعر و ادیب تھا بلکہ موجودہ زمانے میں بھی اس کی عظمت مسلم ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں گوئٹے کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے نے اپنی نظم 'نغمۂ محمد' میں اسلام کو ایک جامع ،کامل اور متحرک دین قرار دیا ہے۔ اقبال نے جوئے آب کے نام سے اس نظم کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا ہے تاکہ اسلام کے متعلق اس عظیم شاعر کے خیالات کا اظہار ہو سکے۔
گوئٹے حضرت محمدۖ کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق دیوانِ مغربی میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
گوئٹے لکھتا ہے۔۔۔
سالہا سال خدا سے نا آشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمدۖ کی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایاتو جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی، دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور آخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی۔ مزید لکھتا ہے: ہم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور ہمیں حیران کر دیا یہاں تک کہ اس کے اصولوں اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سرِتسلیم خم کر دیا ۔
قرآن کے بارے میں لکھتا ہے :
قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتداء میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہوجاتا ہے اور بے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے۔ قرآن کے لسانی و فکری شکوہ اور حضرت محمدۖ کی محبت کی مماثلت ہمیں اقبال اور گوئٹے میں بہت نمایا ںنظر آتی ہے۔
میں نے تنقیدی نقطہ نظر سے جب بھی اقبال کو پڑھا سب سے پہلے مجھے اقبال کی زبان کے شکوہ اور لب و لہجے نے متوجہ کیا ۔ یقینا ایسا شکوہ اور عظمت ِ بیان کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئی جس کی وجہ اقبال کے ملازم الٰہی بخش کے بقول یہ تھی کہ اقبال پر قرآن کے مسلسل مطالعے کے دوران شاعری اترتی تھی اور وہ لکھ لیا کرتے تھے ۔ اقبال خود بھی یہ کہتے ہیں کہ جب ان پہ شاعری اترتی تھی تو انہیں یوں لگتا تھا جیسے ٹین کی چھت پر موسلا دھار بارش برس رہی ہے۔ اقبال کی شاعری کے شکوہ پر قرآن کو عقیدت سے بڑھ کر تخلیقی سطح پر اظہار کے اسلوب کے طور پر اپنا لینے کی کوشش کرنا اور آرزو رکھنا ایسی صفت بنی کہ اس نے اقبال کو دنیا بھر کے شاعروں میں ایک مختلف اور منفرد اسلوب کے شاعر کے طور پر منوایا ۔
اقبال اگرچہ اشتراکیت سے بھی بہت متاثر نظر آئے لیکن مکمل طور پر کارل مارکس کی فکر کے قائل نہ ہوسکے ۔ کارل مارکس کو کتاب کے بغیر پیمبر کہنا دراصل داس کیپیٹل کا رد تھا جو میرے نزدیک اشتراکی فلسفے کے ملکیتی نقطہ نظر کے غیر فطری ہونے اور نظریہ کے فقط معاشی دائرے تک محدود ہونے کے باعث ممکن ہوسکتا ہے ۔
اسلامک اکنامکس کے موضوع پر ایک کانفرنس کے دوران راقم الحروف کے اسلامک مائیکروفنانس ماڈل ، فرض اسلامک مائیکروفنانس ماڈل اور معاشی تھیوری مڈئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پر بات کرتے ہوئے فرزند ِ اقبال جسٹس جاوید اقبال مرحوم نے بتایا کہ زندگی کے آخری ایام میں اقبال اسلامک اکنامکس پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے ان کو مہلت نہ دی ۔ فرزند ِ اقبال کا یہ بیان اس لیے بہت اہم ہے کہ اگرچہ معاشی انصاف اقبال کے نزدیک پوری اہمیت کا حامل تھا لیکن وہ اشتراکی ماڈل سے متفق نہیں تھے ۔
اقبال کی وسیع النظری اور خالصتاً انسانی نقطہ نظر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی کوتاہیوں اور سماجی بے راہ رویوں سے لے کر ہر اس فکر اور فلسفے پر کڑی تنقید کی ہے جہاں انہیں اس سے اختلاف محسوس ہوا ہے ۔ بطور دنیا کو جنت دیکھنے کے خواہشمند شاعر اقبال نے جہاں ضرورت محسوس کی وہاں آواز بلند کی۔ ایک پکا، خالص اور کشادہ ظرف مسلمان شاعر ہوتے ہوئے اقبال نے ہر اعلیٰ فکر و فلسفے کو نہ صرف دل سے قبول کیا بلکہ اسے اپنے لفظوں اور سوچوں میں ڈھال کر تمام دنیا تک پہنچایا ۔ اگر اقبال کے بارے دیگر مفکرین کی فکر سے متاثر ہونے کے بارے مختصراً کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا کہ وہ ایک کثیرالمطالعہ و تحقیق صاحب ِ بصیرت اور وسیع النظر شاعر اور مفکر تھے ۔ انہوں نے ہر اس زاویہ نظر کو قبول کیا جو ان کی کائناتی ، انسانی ، امن و آشتی اور انصاف کی حامل فکر سے متصادم نہیں تھا ۔ ||
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف، تجزیہ کار اور متعدد کتابوں کے خالق ہیں
[email protected]
تبصرے
علامہ اقبال کے بارے میں یہ آرٹیکل بہت ہی اچھا لکھا ہوا ہے