مستحکم معاشی نظام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ بھوک زندگی کی دشمن ہے ۔ رزقِ حلال عین عبادت ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے انسان کسی نہ کسی طور محنت شاقہ کے بل بوتے پر انفرادی اور اجتماعی خوشحالی کے لیے کام کررہا ہے ۔ ایوانوں سے مکانوں تک زندگی کی رعنائی و زیبائی معاشی ترقی سے ہی ممکن ہے ۔ اسلام کے معاشی نظام کی افادیت و اہمیت ریاست مدینہ میں ظہور پذیر ہوئی ۔ خاتم النبیین، سرورِ انبیائ، تاجدارِ ختم نبوت ، سپہ سالارِ اعظم محمد مصطفی ۖ نے مواخات کے ذریعے ریاست کے نظام کا معاشی خاکہ پیش کیا ۔ اخوت ، مساوات اور انصاف کی اعلیٰ روایات نے ایک فعال ریاست کے معاشی نظام کو تقویت عطاء کی۔ خلفائے راشدین کے دور میں بیت المال کے نظام نے مستحکم روایات قائم کر کے دنیا کو مضبوط اور مربوط معاشی نظام عطا کیا۔ زکوٰة و عشر کی ادائیگی نے معاشی خوشحالی کا راستہ ہموار کیا۔ اسلام رزقِ حلال کمانے کی دعوت دیتاہے ۔ غریب کی حالت سنوارنے کے لیے زکوٰة کی تقسیم پر زور دیتاہے ۔ دنیا کے ماہرین معاشیات نے اسلام کے معاشی نظام سے استفادہ کیا۔ پاکستان 14اگست 1947ء کو منصہ شہود پر آیا۔ ہمارے مشاہیر نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لیے بہت سے نظریات پیش کیے ۔ اقلیمِ سخن، ترجمانِ حقیقت ،گنجینۂ علم و آگہی ، مفکر پاکستان اور مفسرِ اسلام ، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال (1877-1938ء )نے اربابِ دانش کو مختلف گنج ہائے گراں مایہ سے فیض یاب کیا۔ اقبال کا عالمگیر پیغام انسانیت کو اُمید اور سوچ کی تازگی عطاء کر رہا ہے ۔ نورِ سحر اور شفقِ شام انسانیت کو زندگی کی حرارت عطاء کر رہے ہیں۔ غربت میں گھرے مسلمانوں کے لیے اُن کا معاشی نظام صبحِ نمودِ زندگی عطاء کر رہا ہے ۔ زندگی کی اس اٹل حقیقت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی آسودگی کے بغیر انسان کی انفرادی اور اجتماعی ترقی محض ایک خواب ہے ۔ جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے میں معاشی ضروریات کی تکمیل بہت ضروری ہے ۔ آسودہ زندگی کا راستہ ہموار کرنا ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔ اقبال کی نظر میں دنیا کا کوئی معاشرہ اقتصادی ترقی کے بغیر فلاح و بہبود کی منازل طے نہیں کر سکتا ۔
معاشی ترقی کے بل بوتے پر فرد اور معاشرہ فعال اور مستحکم ہو تا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال چو نکہ فکر و عمل میں مطابقت رکھنے والے مفکر تھے اس لیے انھوں نے محنت ، مزدوری ، جانبازی، سرفروشی اور جہدِ مسلسل کا پیغام دیا۔ رزقِ حلال کا حصول اسی صورت میںکامیاب ہو سکتا ہے جب ترقی کرنے کا جذبہ اور ذرائع معاش کی راہیں ہموار ہوں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے لاتعداد سیاسی ، علمی ، ادبی ، مذہبی اور تعلیمی دانشوروں کے نظریات کا وسیع مطالعہ کر رکھا تھا اس لیے ان کے معاشی نظریات بھی اسلامی سانچے میں ڈھل کر قرطا س کی زینت بنے ۔ اقبال نے بہت سے علوم و فنون کا مطالعہ کیا ۔ مغرب کے معاشی نظام کا جائزہ لیا۔ اُن کا وسیع مطالعہ ، تجربہ، مشاہدہ اور جائزہ کامیاب زندگی کے نمایاں راستے ہموار کرتاہے۔ علامہ محمد اقبال نے جس ریاست کا خاکہ پیش کیا اُس میں اسلامی طرزِ حیات اور معاشی ترقی سرِ فہرست ہے ۔ اقبال کی نثر اور شاعری میں اقتصادی ترقی کے استعارات اور نظریات پیش کیے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی مسلسل ریاضت انسانوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاًخوشحالی کے نمایاں خاکے ہیں۔
اقبال 13مئی1899ء کو اوریئنٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ ان فرائض منصبی کے علاوہ انھوں نے تاریخ'پولیٹیکل اکانومی پڑھانے کے علاوہ کئی ایک کتب کا اردو ترجمہ بھی کیا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اقبال نے فاؤسٹ کی پولیٹیکل اکانومی اور واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا اردو ترجمہ بھی کیا۔اقبال کا ذہن اکانومی کے مختلف زاویوں پر غور کرتا رہا ۔ اُن کی معاشیات کی طرف دلچسپی سے انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے کسی شعری مجموعے یا مضامینِ اقبال کی اشاعت کے بجائے اپنی کتاب ''علم الاقتصاد'' شائع کرنے کا عزم کیا۔ ''علم الاقتصاد'' 1903ء میں منظر عام پر آئی۔ ایک سال میں ہی '' علم الاقتصاد'' ماہرین معاشیات کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اقبال کی خوش قسمتی ہے کہ اُنھیں سید میر حسن جیسے تجربہ کار استاد کی رہنمائی حاصل ہوئی ۔ اُنھوںنے اقبال کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ کئی زبانوں پر دسترس حاصل کرنا اقبال کے لیے ایک بڑی سعادت تھا۔ اقبال کے دوسرے استاد پروفیسر آرنلڈ کی مشاورت سے اُنھوں نے مسلمانوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے قلم سے بیداری کا پیغام دیا۔
اقبال اور محنت کش کے حوالے سے اقبال کی شاعری اور نثر میں بہت سے حوالے ملتے ہیں۔اگر ''علم الاقتصاد ''کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو ہم محنت کے بل بوتے خوشحالی کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔ زمین اس کتاب کا ایک مضمون ہے ۔ زمین کو ہموار کرنا ، بیج بونا ، آبیاری کرنااور پھر کاشت کاری سے سرمایہ حاصل کر کے ریاست کو مضبوط قدم بنانا ، اقبال کا ایک فکری کارنامہ ہے۔آبادی کے توازن کو برقرار رکھنا اقبال کا اہم خاکہ ہے ۔ محکمہ بہبودِ آبادی کے اکابر کو چاہیے کہ وہ ''علم الاقتصاد '' کے اس باب کا خصوصی مطالعہ کریں۔ اگر قیام پاکستان کے بعد سے ہی آبادی کی فلاح و بہبود اور بچوں کی تربیت کا نظام درست کر لیا جاتاتو آج ہماری یہ حالتِ زار نہ ہوتی۔
معاشی ترقی سے ہی قومی زندگی فعال ہوتی ہے ۔اقبال نے جس ماحول میں شعوری کوشش کو اپنا شعار بنایا وہ مسلمانوں کی پسماندگی میں گھرا ہوا تھا۔ انگریزوں اور ہندوئوں نے مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے تعلیم کی طرف راغب کیا تاکہ مسلمان محنت اور علم کے بل بوتے پر دوسروں کا مقابلہ کر سکیں۔ '' علم الاقتصاد'' میں بچت اور سرمایہ داری کا تذکرہ پاکستان میں فعال معاشی نظام کے لیے بہت ضروری ہے ۔جاگیرداری نظام نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں مسلمانوں کو مزدور بنایاجب کہ اس کے مالکان اُن کی شبانہ روز محنت کا پھل کھاتے رہے ۔ اقبالنے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جاگیرداری نظام کی بھرپور مخالفت کی ہے ۔ ٹیکس کی ادائیگی سے ہی ریاست مضبوط ہوتی ہے لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں سے ٹیکس نظام کامیاب نہیں رہتا۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوجاتاہے۔ اقبال ٹیکس کی ادائیگی کو قومی فریضہ تصورکرتے ہیں۔ اگر زکوٰة ، عشر اور بیت المال کے ادارے انصاف اور مساوات کا دامن تھام کر کام کریں تو غرباء کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال 21اپریل 1938ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے لیکن مسلمانوں کی پسماندگی کا درد اُن کے سینے میں موجود تھا۔ اگر ہم اقبال کے کلام میں شخصیات کا تذکرہ تلاش کریں تو خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ اقبال نے ہزاروں مشاہیر کا کسی نہ کسی طور ذکر کر کے اُن کے معاشی خیالات ہمیں تفویض کیے ہیں۔ اہلِ علم و دانش کے نام لکھے گئے خطوط کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ بھارت میں خطوطِ اقبال پر مشتمل ضخیم کتب منظر عام پر آئی ہیں۔ اِن خطوط میں بھی اقبال کی مسلمانوں سے محبت اور اُن کی خوشحالی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ ایک اقتباس مشت نمونہ از خروارے :
'' میری قوت و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہتی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے او رغالباً یہ ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات ، رتبہ و درجہ ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے ۔ ''
(سید مسعود عالم ندوی کے نام اقبال کا ایک خط )
تحریکِ پاکستان میں اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد (1930 ء )اُن کی فکری جولانیوں کا آئینہ دار ہے ۔ اُنھوںنے مسلمانوں کے لیے ایک الگ خود مختار ریاست کا مطالبہ کر کے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے دل جیت لیے۔ 1930ء سے 1938ء تک اقبال کے شعری اور نثری پیغامات میں مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے مشورے شامل ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام اقبال کے خطوط تاریخی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان خطوط میں بھی سیاسی صورت حال کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کا تذکرہ ملتاہے ۔ 1935ء کے انڈین نیشنل ایکٹ کے نفاذ کے بعد 1937ء میں قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں کو معاشی طور پر کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ناسازیٔ طبع کے باوجود اقبال مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے سوچتے رہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال محسوس کرتے تھے کہ مسلمانوں کی ڈگمگاتی کشتی کو قائد اعظم محمد علی جناح ہی منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں ۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اقبال نے قائد اعظم کو مسلمانوں کے اقتصادی بحران سے بھی آگاہ رکھا۔ وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
''روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہو تا جا رہا ہے ۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ سو سال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے ۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو کی ساہو کاری و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصہ دار ہے اگرچہ ابھی قوی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کر کے رہے گا ۔ ''
( قائد اعظم کے نام خط 28مئی1937ء )
قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خطوط میں اقبال اپنے معاشی نظریات کا اظہار کرتے رہے ۔ اسلام کے معاشی نظام کے مطابق نظامِ سیاست کے رموز سمجھانے کے لیے اقبا ل نے اپنے خطوط کا سہارا لیا ۔ اقبال کے معاشی نظریات کا مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کے معاشی اور سیاسی دونوں طرح کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ آپ ایک ایسے معاشرے کو ذہن میں لائیے جو انسانی برادری اور برابری پر قائم ہو جس کی معیشت انصاف پر اور جس کی سیاست عطائے حقوق پر مبنی ہو جس میں غریبی اور جہالت نہ ہو۔ جہاں افراد کی روحانی یا ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھا جائے۔
''کوئی ملک اپنے سیاسی حقوق حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے اقتصادی حالات درست نہ ہو جائیں ۔ ہمارے اہل رائے سیاسی آزادی پکارتے ہیں مگر کوئی اس بار یک نکتے کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ سیاسی آزادی کی شرائط میں سب سے پہلی شرط کسی ملک کا اقتصادی دوڑ میں سبقت لے جانا ہے۔''
(انوارِ اقبال … مرتبہ بشیر احمدڈار ص 26)
مذکورہ اقتباس میں اقبال نے اسی بات پر زور دیا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اقتصادی حالات بھی درست ہوں ورنہ وہ ملک سیاسی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہے گا ۔ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال دور اندیش اور درویش صفت انسان تھے وہ لوگوں کی نفسیات اور معاشیات کو بڑی باریک بینی سے دیکھتے تھے اور اس کے حل کے لیے بھی کوشاں رہے ۔ اُنھوں نے اس مسئلہ کے حل کے لیے نہ صرف خطوط لکھے ،بلکہ اپنے کئی مضامین اور اشعار میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی ، پیداواری اور صنعتی اعتبار سے ماہر معاشیات ان کی کتاب '' علم الا اقتصاد '' سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔اقبال چوںکہ اسلامی فکر و فلسفہ کے حامل تھے اس لیے ان کے معاشی نظریات اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہیں۔
اقبال نے قرآن ِ پاک کے احکامات کے مطابق دولت جمع نہ کرنے کی تبلیغ کی ہے ۔ جاوید نامہ میں اشتراکیت و ملوکیت ، ساقی نامہ ، ابلیس کی مجلسِ شوریٰ، خضرِ راہ اور کئی مقامات پر اقبال نے زمین کی تقسیم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ انسان اُس کا امین ہے ۔ اقبال اپنی نظم ''الارض للہ'' میں فرماتے ہیں :
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
دہِ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں!
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں!
اِن اشعار سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ ہماری ترقی کا راز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زمین کو آباد کرنے میں مضمر ہے ۔ انسان محنتِ شاقہ سے اِسے آباد کرتاہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نقادِ حیات کی حیثیت رکھتے تھے ۔ انھوں نے امت مسلمہ کوحلال وحرام کے فرق کی وضاحت بھی کی ہے ۔ رزقِ حلال میں سراسر برکت اور رزقِ حرام معاشرتی بگاڑ اور تباہی کا باعث ہے ۔ برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی معاشی ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر علامہ اقبال نے مسلمانوں کی معاشی طور پر رہنمائی کی ۔ اقبال لکھتے ہیں :
'' دولت ، اگر ہمارے افضل ترین مقاصد کے حصول میں ہمیں مدد نہیں دے سکتی تو پھر اس کا کیا فائدہ ۔ '' (علم الا قتصاد ، ص 21)
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اقتصادی نظریات کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی ترقی ، فلاح و بہبود اور اجتہادی فکر کے حامل نظریات تھے۔ وہ کسی ایک وقت یا کسی ایک مدت کے لیے نہیں سوچ رہے تھے بل کہ ان کی سوچ عالمگیر یت کا درجہ رکھتی تھی وہ انسان کی اقتصادی ضروریات کو آنے والے وقت کے لیے بھی ضروری خیال کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کے اقتصادی نظریات کو آج کے دور میں بھی دیکھا جائے تو وہ ہمارے معاشی مسائل کے حل کے راستے کشادہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اقتصادیات کا علم سیکھنے کی تلقین بھی مفلسی کے خلاف جہاد کی دعوت ہے ۔ آج دولت کی تقسیم کا نظام فکرِ اقبال کے برعکس ہے ۔ عدم مساوات نے طبقاتی جنگ کو ہوا دی ہے ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے زمانے میں مارکسزم ، سوشل ازم،کیپٹل ازم اور دیگر اقتصادی نظریات کا چرچا تھا۔ اقبال نے خوابیدہ مسلمانوں کو پسماندگی دور کرنے کی دعوت دی۔
ڈاکٹر محمد اقبا ل محنت ، مزدوری ، سرمایہ اور اقتصادی پہلوؤں کے ضمن میں اشتراکیت کا نام تو نہیں لیتے لیکن ان کے پیغام میں بھی طرزِ تکلم ملتا جلتا ہے ۔ علامہ اقبال کی بہت سی منظومات میں '' مساوات شکم '' کا تصور ملتا ہے ۔ان کا انداز مغربی مفکرین سے جدا ہے ۔ انھوں نے ایک مسلمان کی حیثیت سے غربت کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت فکر اقبال کی روشنی میں بہتر کی جا سکتی ہے ۔ غربت بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے ۔ غربت کی وجہ سے جرائم پروان چڑھتے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد اقبال ' مغرب کے علوم و فنون کو گردشِ وقت کے لیے ضروری سمجھتے تھے لیکن اسلامی تعلیمات کو زندگی کی اساس قرار دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت' مزدوری اور مشقت کا چارٹر پوری دنیا میں زندہ ہے۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک ضابطہ ٔحیات کے گرد گھومتے ہیں۔
مغربی مفکرین کایہ خیال بالکل غلط ہے کہ مغرب نے مزدور کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جو مزدور اور آجر کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے ۔ آنخصورۖ نے فرمایا'' مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو اور کسی کو کام پر لگا نے سے پہلے اس کی اجرت بتا دو ''۔ قرآن و حدیث میں محنت کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ حضور اکرم ۖ خود محنت کیا کرتے تھے اور دوسروں کو محنت کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال چوںکہ شاعر انقلاب تھے اس لیے وہ لفظوں کے ذریعے لوگوں کی زندگی میں ایک نئی ترنگ پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔ وہ انصاف اور مساوات کے علمبردار تھے۔ ان کے نزدیک انسانی رفعت ' محنت میں مضمر ہے۔ محنت کی قدر اور معاشی خوشحالی کے پیغامات کی وجہ سے کئی ناقدین انھیں اشتراکیت پسند شاعر بھی کہتے ہیں لیکن وہ معاشی خوشحالی کی خاطر ''خودی'' فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ فرماتے ہیں:
بندۂ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا یہ ہے پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
علامہ محمداقبال اشتراکیت کے حامی نہ تھے۔وہ دولت جمع کرنے ' جاگیر داری ' سرمایہ داری اور استحصال کے خلاف تھے۔
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
معاشی نظام کا استحکام ہر دور کی ضرورت ہے ۔ دوسروں کا حق مارنے والے ایک دن اپنے حقوق کے لیے در بدر پھرتے ہیں۔ آج بلند و بالا عمارات کے سایے تلے بے چراغ چھونپڑیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ہسپتالوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور فٹ پاتھوں پر لیٹے ہوئے انسان ہمارے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والوں نے غریبوں کا عرصۂ حیات تنگ کر دیا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات
فکرِ اقبال کا تجدیدی معاشی پہلو آج کے معاشی مسائل کا حل ہے ۔ دنیا نجانے کیوں دولت کے پیچھے بھاگ رہی ہے ۔ مادہ انسان کو در گور کر دیتا ہے ۔آج کے معاشی حیوان کے سامنے روح کی پاکیزگی دھیر ے دھیرے دم توڑ رہی ہے ۔ زمینداری ، جاگیرداری اور سرمایہ داری رجحان نے دل کی موت کا راستہ ہموار کر دیا ہے ۔ دنیا بھر کے ہسپتالوں میں زیر علاج سرمایہ دار اپنی ہی دولت کی وجہ سے ذہنی توازن کھو رہے ہیں ۔ دولت انسان کو آسودگی تو دے سکتی ہے لیکن ذہنی سکون مہیا نہیں کر سکتی ۔ سرمایہ کے بارے میں اقبال کہتے ہیں:
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں!
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
اقبال کے معاشی نظام کا عمیق نظری سے مطالعہ آج کی اہم ضرورت ہے۔ بہت سے ماہرین اقبال مختلف ادوار میں حکومت کو اہم نکات پیش کرتے رہے لیکن کسی نے بھی اُن پر عمل نہیں کیا۔2023ء کے یومِ اقبال کے موقع پر اقبالیاتی ماہرین کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے متوازن معاشی نظام کی ترتیب و تدوین کے لیے افکارِ اقبال سے استفادہ کریں۔ اقبال ہر دور کے شاعر ہیں۔ جہانِ تازہ کی نمو میں اقبال کے معاشی نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ||
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے