کیپٹن اکمل شہید اور غازی لیفٹیننٹ ظفرعباسی کی سچی داستان کرنل شاہد آفتاب (ر) کے قلم سے
ہم مقامی یونٹ کے پریڈ گراؤنڈ پہنچے تو سائیس اپنے اپنے گھوڑوں کو تیار کرکے ان کی لگامیں تھامے کھڑے تھے۔ آج ہم ایبٹ آباد سے شنکیاری کی جانب ایک ایکسرسائز کے لیے جانے والے تھے۔ جن افسروں کو اس ایکسرسائز میں اعلیٰ عہدے دیے گئے تھے ان کے لیے گھوڑے موجود تھے۔ میں اور کیپٹن اکمل حالانکہ وقت پر پہنچے تھے لیکن سمجھدار افسر وقت سے پہلے ہی آ گئے تھے تاکہ اپنے لیے آسان یعنی شریف النفس تھوڑے عمررسیدہ اور آسانی سے قابو میں آنے والے گھوڑے حاصل کر سکیں۔
ہمارے لیے اب دو ہی گھوڑے بچے تھے ایک چوکنا، چست و پراعتماد اور دوسرا بے چین، وحشی آنکھوں، چمکتے بالوں اور دُہری لگام والا سیاہ سٹالین۔ میں نے اکمل کو پیشکش کی کہ تم اپنے لیے گھوڑا چن لو۔ اس نے مسکرا کے مجھے دیکھا اور آگے بڑھ کر سیاہ سٹالین کے چہرے کو سہلانے لگا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس نے جان بوجھ کر سب سے اتھرے گھوڑے کو چن لیا ہے۔ میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا، گُڑ کی ڈلی جو میں گھوڑے کو رام کرنے کے لیے ساتھ لایا تھا چسٹ نٹ مسٹینگ کو کھلائی اور پیار سے اس کے چہرے اور بالوں کو سہلانے لگا تاکہ وہ مانوس ہو جائے۔ اس کی زِین چیک کی، رکاب کو درست کیا اور لگام کی نرمی دیکھی۔ گھوڑے کی آنکھوں میں دیکھا اور ہم نے ساتھ چلنے کا ایک خاموش معاہدہ کر لیا۔
اکمل بھی اپنے گھوڑے کو مانوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس سیاہ سٹالین کی آنکھوں میں وحشت اور بے چینی تھی۔ میں نے اکمل سے کہا یار تم تو بالکل 'کریک' ہو جو اس طوفان کو چن لیا۔ وہ بولا مجھ سے زیادہ 'کریک' تو تم ہو جس نے اس خوبصورت سیاہ طوفان کو چھوڑ دیا۔
گھوڑا انسان کا پرانا دوست اور بہت سمجھدار جانور ہے۔ سوار جب گھوڑے پر بیٹھتا ہے تو گھوڑے کو سوار کی طاقت اور مہارت کا فوراً اندازہ ہو جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جنگوں کے اختتام پر سپہ سالاروں کے درمیان جب معاہدہ طے پاتا تو گھوڑوں کو وہاں سے دور لے جایا جاتا کیونکہ گھوڑے شکست خوردہ سالار کو سوار نہیں ہونے دیتے تھے۔ گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے اس کے ساتھ واقفیت پیدا کرنا ضروری ہے اسی لیے اسے پیار کیا جاتا ہے اور گڑ یا کوئی اور میٹھی چیز کھلا دی جائے تو وہ عموما ًسوار کو قبول کرلیتا ہے۔
اس ایکسرسائز میں ہمیں گھوڑوں پر سوار رہ کر عام راستوں سے ہٹ کر پہاڑوں میں مختلف فوجی کاموں کا جائزہ لینا تھا۔سب لوگ چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ہم گھڑسواروں نے خاکی بریچز، لمبے رائیڈنگ شوز اور سلور سپر بھی پہن رکھے تھے جو گھوڑوں کو ایڑ لگانے میں مدد دیتے ہیں۔
زخمیوں نے ایک بار پھر کلمہ پڑھ لیا لیکن یہ راکٹ بائیں جانب سے ہیلی کاپٹر کو چھوتا ہوا گزر گیا۔ افسروں نے پھر سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں اور وہ ابھی آخری سیڑھیوں کے قریب تھے کہ دشمن نے ایک اور راکٹ فائر کر دیا مگر یہ راکٹ بھی دائیں جانب سے ہیلی کاپٹر کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر گزر گیا۔ بالآخر دونوں افسر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے جو انہیں لے کر سی ایم ایچ سکردو آ گیا۔ یہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔ اکمل کے حواس کچھ بحال ہوئے تو وہ پوچھنے لگا کہ کیا موت مجھے ماں سے ملنے کی مہلت دے گی۔ جلد ہی ان کو ایک اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ راولپنڈی روانہ کر دیا گیا۔
میں نے گھوڑے کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیا، بائیں رکاب میں پاؤں رکھا اور زین کا سہارا لے کر گھوڑے پر سوار ہوگیا، سائیس نے لگام میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے گھٹنوں اور رانوں کو پوری طاقت سے دبایا تاکہ گھوڑے کو میرے زور اور صلاحیت کا اندازہ ہوجائے۔ میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور لگام کو ڈھیلا چھوڑا تو گھوڑا چل پڑا۔ جلد ہی ہم ایبٹ آباد مانسہرہ روڈ پر آگئے۔ صبح کا وقت تھا اس لیے ٹریفک بہت کم تھی۔ گھوڑوں کے نعل کی سڑک سے ٹکرانے کی آواز سے ایک ردھم پیدا ہوگیا اور سب جانور اس ردھم پر دلکی چال چلنے لگے۔ اکمل میرے آگے تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ اس کا سیاہ گھوڑا اس کی رانوں سے نکلنے کے لیے بے چین ہے۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑا اچانک بھڑکا، نتھنوں سے زور دار آواز نکالی اور اگلے پاؤں اٹھا کر الف ہو گیا۔ اکمل نے لگام ڈھیلی چھوڑی اور گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے چمکارا۔ گھوڑے نے پاؤں تو نیچے رکھ دیے لیکن سڑک پر سرپٹ بھاگنے لگا۔ باقی جانور بھی یہ سب کچھ دیکھ کر بدک اور سہم گئے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ سرپٹ بھاگتا گھوڑا کہیں سڑک پر سلپ نہ ہو جائے جس سے گھوڑے اور سوار دونوں کا نقصان ہو سکتا تھا۔اکمل نے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور گھوڑے کی دائیں راس پوری قوت سے کھینچ لی۔ یہ گھوڑے کو قابو کرنے کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ جیسے ہی راس کھچی گھوڑے کا منہ مڑ کے گردن کے ساتھ آ لگا مگر رکنے کی بجائے وہ دائیں جانب مڑ کرسڑک کے ساتھ ایک خشک نالے میں سرپٹ بھاگنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ اکمل اس سیاہ بادل پر قابو پا لے گا۔ میں نے بھی اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اسے خشک نالے میں اکمل کے گھوڑے کے پیچھے ڈال دیا۔اکمل کے گھوڑے کے نتھنوں اور سموں سے نکلنے والی آوازیں ہر لمحہ دور ہو رہی تھیں۔ میں ایک معتدل رفتار سے اسی راستے پر چلتا رہا۔ تقریباً بیس منٹ بعد مجھے اکمل اپنے گھوڑے پر سوار واپس آتا نظر آیا۔ جب نزدیک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اسکے گھوڑے کے منہ سے جھاگ بہہ رہا ہے اور اس کی گردن پر لگام کی رگڑ اور پسینے کی وجہ سے سفید جھاگ سا جم چکا تھا جبکہ باقی جسم بھی پسینے میں شرابور تھا۔ اکمل کے چہرے پر البتہ مسکراہٹ تھی۔ لگ رہا تھا کہ وہ گھوڑے پر حاوی ہوگیا ہے۔ گھوڑے کی آنکھوں میں واضح التجا تھی کہ مجھے اس سوار سے بچاؤ۔ اس کے بعد کسی جانور نے کوئی شرارت نہ کی اور ایکسرسائز خیریت سے گزر گئی۔
میں اور کیپٹن اکمل اکٹھے نوشہرہ میں بیسک کورس کر رہے تھے۔ ایک رات تقریباً دو بجے جب ہم صبح ہونے والے امتحانوں کی تیاری میں مصروف تھے، کہنے لگا چل بائیک پر پشاور چلتے ہیں اور ماں سے مل کر آتے ہیں۔ میں نے کہا تم تو بالکل 'کریک' ہو، رات کے اس پہر پشاور اور وہ بھی بائیک پر۔ بولا کریک تو تم ہو اس وقت بائیک پر پشاور جانے سے ڈرتے ہو۔ ماں کی یاد اسے اکثر ستاتی رہتی۔ ہم بائیک پر پشاور اس کے گھر پہنچے تو ماں نے ہمیں بہت پیار کیا اور اس وقت آنے پر ڈانٹ بھی پڑی۔ ماں اسے چاند کہتی تھیں۔
میں کیونکہ گلائیڈر پائلٹ بھی ہوں اس لیے میرا ارادہ تھا کہ اس کورس کے بعد میں اپنے فلائنگ کے تجربے کے ساتھ آرمی ایوی ایشن میں شمولیت اختیار کر لوں گا۔ جب میں نے اکمل کو یہ بتایا تو وہ کہنے لگا کہ میں تو سپیشل سروس گروپ میں شمولیت کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم جیسے شخص کے لیے وہی یونٹ مناسب ہے۔ میری بات پر اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔
کورس کے خاتمے پر ہم اپنی اپنی یونٹ میں چلے گئے۔ ایک دن چراٹ سے اکمل کا فون آیا، وہ بتانے لگا کہ میں نے سپیشل سروس گروپ جوائن کر لیا ہے۔ اور پھر اپریل 1986 میں اس نے مجھے اپنے ایس ایس جی کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوایا۔ ان دنوں بھارت اپنی فوج براس ٹیکس ایکسرسائز کے بھیس میں سرحد کی طرف بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور میری یونٹ بھی اپنے آپریشنل ایریا میں تھی اس لیے چاہنے کے باوجود میں چراٹ نہ جا سکا۔ اور پھر اس کو ایک کمانڈو یونٹ میں پوسٹ کر دیا گیا۔
اسی دوران سیاچن کے محاذ پر بھی بہت گرما گرمی تھی۔ بیلافونڈ لا اور سیا لا کے علاقوں میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے تھے۔ بیلافونڈ لا کے علاقے میں پاکستان نے 21153 فٹ پر سب سے بلند قائد پوسٹ قائم کر دی اور کمانڈوز کی شاہین کمپنی کے جانبازوں کو یہاں کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اپنی بلندی کی وجہ سے تقریباً سارا گلیشیئر اس پوسٹ کے سامنے تھا اور بھارت کی زیادہ تر مورچہ بندیاں ان کے فائر کی زد میں آ گئیں۔ یہاں موسم نہایت سخت تھا۔ بلند چوٹیوں پر چڑھنے والے کوہ پیما اس بلندی کو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ڈیتھ زون کہتے ہیں اور رکنے کے بجائے یہاں سے جلدی گزر جاتے ہیں۔ برفانی طوفانوں میں یہاں جمے رہنا بہت حوصلے کا کام تھا۔ان دنوں نوجوان افسر سیاچن پر سروس کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتے تھے اور اکمل نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ وہ اپنے عروج کے سفر پر چل نکلا تھا۔ دم سم پہنچ کر اکمل کو کچھ دن کا وقت دیا گیا تاکہ وہ موسم اور بلندی کے ساتھ مطابقت پیدا کرلے اور پھر اس کو قائد پوسٹ پر جانے کا حکم مل گیا۔ وہ قدم بقدم بلندیاں چڑھنے لگا۔ سکردو سے دم سم سے گیاری سے بیلافونڈ لا اور پھر قائد پوسٹ جس کو ناممکن پوسٹ بھی کہا جاتا تھا لیکن ناممکن کو ممکن بنانے والے ہی تو ہمارے یہ جوانمرد ہوتے ہیں۔
قائد پوسٹ پر اکمل کے ساتھ تین ایس ایس جی کے جوان بھی تھے مگر توپوں کا درست فائر گرانے کے لیے ایک توپ خانے کے افسر کی بھی ضرورت تھی۔ اس دوران لیفٹیننٹ ظفر عباسی سیکٹر کی نچلی پوسٹوں پر اپنی ڈیوٹی کا دورانیہ ختم کر کے چھٹی پر گھر جارہے تھے۔ انہیں جب ان کے کمانڈنگ آفیسر نے قائد پوسٹ پر توپخانے کے افسر کی ضرورت کے بارے میں بتایا تو لیفٹیننٹ عباسی نے وہاں جانے پر آمادگی ظاہرکر دی اور گھر جانے کے بجائے قائد پوسٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ قائد پوسٹ پر چڑھائی کے دوران ایک مقام ایسا بھی آتا جہاں انسان سوچتا کہ اوپر چڑھنے کی تکلیف کی نسبت نیچے گر کر مر جانا زیادہ آسان ہے۔ لیفٹیننٹ عباسی اور کیپٹن اکمل نے مل کر اپنی توپوں سے دشمن پر ایسی گولاباری کی کہ دشمن کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور انہوں نے دن کے وقت اپنے مورچوں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔
تقریباًپندرہ دن پوسٹ پر گزارنے کے بعد لیفٹیننٹ عباسی نے اب نیچے جانا تھا کیونکہ اس بلندی پر زیادہ دن گزارنا پلمونری اور سیریبرل اوڈیما جیسی جان لیوا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیفٹیننٹ عباسی جب نیچے جانے کے لیے تیار ہوئے تو موسم خراب ہونا شروع ہو گیا، بادل آگئے اور ٹھنڈ بڑھ گئی۔ظفر عباسی نے پوسٹ سے نیچے اترنے کا پروگرام کل صبح تک ملتوی کر دیا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ قیامت کے موسم ان کی گھات میں ہیں۔ قائد پوسٹ کے باسیوں کے لیے ایک ایسی آزمائش کا آغاز ہونے والا تھا جو بغیر رکے کئی دن تک اپنی پوری شدت، تندی اور جان لیوا پینتروں کے ساتھ جاری رہنے والی تھی۔ دنیا میں کم لوگ اس طرح کی مسلسل اور جان لیوا آزمائش سے گزرے ہوں گے۔رات ہونے تک برف باری شروع ہو گئی اور درجہ حرارت بتدریج گرنے لگا۔ تیز ہوا برفانی طوفان میں بدل گئی۔ درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری سے بھی نیچے چلا گیا۔ اِگلو میں مٹی کے تیل سے جلنے والے چولہے کی گرمی ناکافی ہو گئی۔ ہاتھ پیر ٹھٹھرنے لگے اور طوفان کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی بڑھ گئی۔ آدھی رات کے بعد پوسٹ پر لگا ہوا اگلو اور ٹینٹ چیختی چنگھاڑتی ہوا کے آگے بے بس ہو کر اڑ گیا۔ اب پانچوں جانباز ایک سیاہ رات میں کھلے آسمان تلے حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ برفانی ہتھوڑے لگاتار ان پر برس رہے تھے۔ وائرلیس سیٹ پر ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرنے کی تمام کوششیں بھی ناکام ہوچکی تھیں۔ ٹھنڈ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں میں آہستہ آہستہ سرایت کرتی انہیں ناکارہ بناتی چلی جارہی تھی۔سب ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہے تھے لیکن سپاہی حسین کی زبان کی لکنت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سیریبرل اوڈیما کا شکار ہو کر چڑچڑا ہو چکا ہے۔ فرسٹ ایڈ کا ڈبہ بھی ڈھیروں برف کے نیچے دب چکا تھا۔دن کی ہلکی روشنی فضا میں نظر آ رہی تھی مگر طوفان کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ سپاہی حسین بالآخر دم توڑ گیا۔ باقی دونوں سپاہی بھی بے ہوش ہو چکے تھے جبکہ اکمل ہوش اور بے ہوشی کی سرحد پر ہوش کو اپنی گرفت میں لینے کی سعی میں مصروف تھے۔ لیفٹیننٹ عباسی البتہ مکمل ہوش میں سب کچھ سہہ رہے تھے۔نیچے ہیڈکوارٹر اور بیس کیمپ میں لوگ بے بسی سے طوفان میں کمی کا انتظار کر رہے تھے تاکہ قائد پوسٹ پر کمک بھیجی جاسکے لیکن طوفان میں کمی کے کوئی آثار نظر نہ آتے تھے۔ اسی دوران دونوں سپاہی بھی دم توڑ گئے اور طوفان کے تھپیڑوں نے اکمل کو بھی اٹھا کر بے ہوشی کے ملک میں پھینک دیا جہاں وہ سردی کے احساس سے آزاد ہو کر بے حس و حرکت ہو گئے۔ شدید ٹھنڈ اُن کی انگلیوں کے پوروں کو برف کرتی ہوئی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ لیفٹیننٹ ظفرعباسی ابھی تک ہوش و حواس میں تھے لیکن وہ سمجھ رہے تھے کہ موت بس اب کچھ ہی دور ہے تو انھوں نے بھی اپنے آپ کو تیار کرلیا اور کلمہ طیبہ کا وِرد کرنے لگے۔ برف کی چادر آہستہ آہستہ سب جانبازوں کو ڈھانپنے لگی جیسے کوئی دلدل اپنے شکار کو نکل جاتی ہے۔
چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے لیکن طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ پوسٹ پر کسی کے زندہ بچنے کا امکان بھی دم توڑ رہا تھا۔ طوفان کی شدت میں معمولی کمی ہوئی تو ایک شیر دل بہادر کیپٹن جنید مزید انتظار نہ کر سکا اور اپنی اور اپنی ٹیم کی جان خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کو بچانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ شدید سردی اور اندھا کر دینے والے طوفان میں یہ ٹیم قائد پوسٹ کیسے پہنچی یہ بہادری، بے جگری، جرأت اور برداشت کی ایک علیحدہ داستان ہے۔ ان کے راستے میں پڑنے والی برفانی کھائیاں، بالکل عمودی برفانی دیواریں اور تیز برفانی طوفان بھی ان بہادروں کا راستہ نہ روک سکے اور بالآخر یہ لوگ قائد پوسٹ پر پہنچ گئے جہاں تینوں جوان شہید ہوچکے تھے جبکہ کیپٹن اکمل بے ہوش اور تشویشناک حالت میں تھے۔ لیفٹیننٹ عباسی البتہ ابھی تک ہوش میں تھے۔ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیپٹن جنید نے شہداء کو فی الحال وہیں چھوڑ دیا اور کیپٹن اکمل اور لیفٹیننٹ عباسی کو نیچے لے جانے کا فیصلہ کیا۔
اس کام میں پوری رات لگ گئی۔ بیس کیمپ سے کچھ پہلے ایک برفانی کھائی تھی جس کے اوپر سے ایک وقت میں ایک ہی شخص کو اٹھا کے لے جایا جا سکتا تھا۔ لیفٹیننٹ عباسی نے ریسکیو پارٹی سے کہا کہ وہ پہلے کیپٹن اکمل کو پار لے جائیں اور خود وہ اکیلے بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ اچانک برف ٹوٹنے کی آواز آئی اور سامنے والی چوٹی سے ایک برفانی تودہ گر کر عباسی کی طرف بڑھنے لگا۔ اب انہوں نے ایک بار پھر کلمہ پڑھ لیا۔ لیکن وہ تودہ عباسی تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ ایک گھنٹے بعد ریسکیو ٹیم اور کیپٹن جنید واپس پہنچے اورلیفٹیننٹ عباسی کو لے کر بیس کیمپ آ گئے۔
میں ہسپتال پہنچا تو اس کے ایک بستر پر سیاہ اور نیلی جلد والے کیپٹن اکمل شہادت حاصل کر کے مطمئن ہو چکے تھے۔ جبکہ دوسری جانب ایک غازی لیفٹیننٹ عباسی جن کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے، پورے ہوش و حواس میں تھے۔ میرے نصیب میری آنکھوں نے کیا کیا دیکھا۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوا تو آنسو میری آنکھوں سے رواں ہو گئے۔میں نے اکمل کے چہرے پر اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور دونوں دلیروں کو سلیوٹ کر کے ہسپتال سے باہر آگیا۔ کچھ عرصہ بعد دونوں افسروں کو ایک تقریب میں ستارہ ٔبسالت سے نوازا گیا۔
بیس کیمپ میں زخمیوں کو حرارت اور گرم مشروبات دیے گئے لیکن شدید فراسٹ بائیٹ کے علاج کے لیے زخمیوں کو فوری طور پر سکردو اور پھر راولپنڈی لے جانے کی اشد ضرورت تھی۔ دوسری جانب برفانی طوفان نے ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کر لی تھی اور یہاں ہیلی کاپٹر کے اترنے کے لیے کوئی مناسب جگہ بھی نہیں تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور فراسٹ بائٹ امر بیل کی طرح دونوں افسروں کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا خصوصا اکمل کا فراسٹ بائٹ ہاتھ پاؤں سے گزر کر اندرونی اعضاء پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ مزید دیر ہوتی تو یہ دونوں افسر بیس کیمپ میں ہی شہید ہوجاتے۔ ہیڈکوارٹر کو صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا جا رہا تھا۔
اس موسم میں جب کہ طوفان شدت اختیار کر چکا تھا اور حد نگاہ صفر تھی ہیلی کاپٹر اڑانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن ہمارے پاس جذبۂ حب الوطنی سے سرشار بہادروں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک اور شیر دلیر پائلٹ نے رضاکارانہ طور پر اس موسم میں جب کچھ نظر نہیں آرہا تھا اپنے سمت شناسی کے آلات پر انحصار کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کو اڑانے اور مریضوں کو لانے کی پیشکش کر دی۔ ہیلی کاپٹر کیوں کہ اتر نہیں سکتا تھا اس لیے مریضوں کو اٹھانے کے لیے اس میں رسی کی سیڑھیاں رکھ دی گئیں۔ بیس کیمپ پہنچ کر ہیلی کاپٹر نے ہوا میں رہتے ہوئے سیڑھیاں نیچے پھینکیں۔ دونوں افسروں نے اپنی تمام قوت کو جمع کیا اور ساتھیوں کی مدد سے آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگے۔ سامنے دشمن کی ایک پوسٹ نے ہیلی کاپٹر کی آواز سے اس کی موجودگی کو محسوس کر لیا تھا۔ ہیلی کاپٹر ان کو نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن انہوں نے اندازے سے ایک راکٹ اس پر داغا۔
زخمیوں نے ایک بار پھر کلمہ پڑھ لیا لیکن یہ راکٹ بائیں جانب سے ہیلی کاپٹر کو چھوتا ہوا گزر گیا۔ افسروں نے پھر سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں اور وہ ابھی آخری سیڑھیوں کے قریب تھے کہ دشمن نے ایک اور راکٹ فائر کر دیا مگر یہ راکٹ بھی دائیں جانب سے ہیلی کاپٹر کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر گزر گیا۔ بالآخر دونوں افسر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے جو انہیں لے کر سی ایم ایچ سکردو آ گیا۔ یہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔ اکمل کے حواس کچھ بحال ہوئے تو وہ پوچھنے لگا کہ کیا موت مجھے ماں سے ملنے کی مہلت دے گی۔ جلد ہی ان کو ایک اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ راولپنڈی روانہ کر دیا گیا۔
ان دنوں میں آرمی ایوی ایشن بیس دھمیال میں اپنی فلائنگ کی تربیت کا آغاز کر چکا تھا۔ اکمل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی اطلاعات مجھے مسلسل موصول ہو رہی تھیں۔ اکمل کے والدین کو بھی تمام حالات سے باخبر رکھا جا رہا تھا۔
کیپٹن اکمل اور لیفٹیننٹ عباسی کے راولپنڈی سی ایم ایچ آنے کی اطلاع پر میں فلائنگ چھوڑ کر سی ایم ایچ پہنچ گیا۔ دونوں افسروں کے والدین بھی پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ راولپنڈی پہنچنے پر زخمیوں کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں اکمل کی ملاقات اپنی والدہ سے ہوگئی۔ اسکی آخری خواہش پوری ہو چکی تھی۔ زخمیوں کے تفصیلی معائنے کے بعد ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ اکمل کے بیرونی اعضاء کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء بھی فراسٹ بائٹ کا شکار ہو کر کام چھوڑ چکے ہیں۔ اکمل کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹر کچھ بھی اور کرنے سے قاصر تھے جبکہ لیفٹیننٹ ظفر عباسی کی جان بچانے کے لیے ان کی دونوں ٹانگیں، ایک ہاتھ اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کاٹنی پڑیں ورنہ زہر سارے جسم میں پھیل جاتا۔ عباسی کی عینک ان کی ناک کی کھال میں کھب گئی تھی اسے بھی آپریشن کے ذریعے نکالا گیا۔
اکمل کی آخری خواہش پوری ہو چکی تو اللہ نے انہیں انعامات سے نوازنے کے لیے اپنے پاس بلا لیا اور شہادت کا عظیم مرتبہ عطا فرمایا۔
میں ہسپتال پہنچا تو ان کے ایک بستر پر سیاہ اور نیلی جلد والے کیپٹن اکمل شہادت حاصل کر کے مطمئن ہو چکے تھے۔ جبکہ دوسری جانب ایک غازی لیفٹیننٹ عباسی جن کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے، پورے ہوش و حواس میں تھے۔ میرے نصیب میری آنکھوں نے کیا کیا دیکھا۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوا تو آنسو میری آنکھوں سے رواں ہو گئے۔میں نے اکمل کے چہرے پر اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور دونوں دلیروں کو سلیوٹ کر کے ہسپتال سے باہر آگیا۔ کچھ عرصہ بعد دونوں افسروں کو ایک تقریب میں ستارہ ٔبسالت سے نوازا گیا۔ ||
تبصرے