سپاہی مزمل شجاع شہید کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کی تحریر
اپنے وطن سے محبت کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ نبی کریم ۖ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اور آپ ۖ نے محبت کااظہار بھی فرمایا ۔آپ ۖ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے: ''ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ'' (بخاری شریف: 5654)
جب وطن سے محبت اور وفا داری کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے ملک کی سرحد وں کے محافظوں کا نام آتا ہے جواپنے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔سپاہی مزمل شجاع بھی شہادت کا جام پی کر اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دے گئے۔سپاہی مزمل شجاع 23جون1996 ضلع لودھراں، تحصیل کہروڑپکا کے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹلہ نرنجن کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔والد رائو شجاع الدین پاک فوج میں الیکٹریکل اینڈ مکینککل انجینئرنگ (ای ایم ای)کور سے بطورلانس نائیک ریٹائرڈہیں۔
شہید مزمل شجاع کے بڑے بھائی آصف محمود بھی پاک فوج میںہیں اور انفنٹری سکول کوئٹہ میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ شہید مزمل شجاع بچپن سے ہی بڑا ہنس مکھ ، انتہائی ملنسار اور بے حد احترام کرنے والامگر بلا کا بہادر اور نڈر انسان تھا۔ہم پانچ بھائی اور دوبہنیں ہیں، شہید بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ۔شہید کی سب سے بڑی اور اچھی عادت یہ تھی کہ کبھی بھی کسی سے ناراض نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی دل میں بغض رکھتا تھا، بڑی سادہ طبیعت کا مالک تھا ،ایک خدمت گزار بیٹا ،ایک محبت کرنے والا بھائی، ایک حیاداراوروفادار دوست تھا ۔بچپن سے ہی عجیب خواہش کرتا تھا بالخصوص مجھے اور ابوکو کہتا تھاکہ ''اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں شہادت لکھی ہے''۔وہ کھیل بھی نرالے کھیلتا تھا، کھیل میں ہمیشہ فوجی بنتا تھا اور ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوجاتاتھا ،اس کھیل سے میری والدہ بہت پریشان ہوتیں اور انکی طبیعت سخت خراب ہوجاتی مگر وہ ہمیشہ ایک ہی بات کرتا تھا کہ دیکھ لینا کہ جس دن میرا جسد خاکی سبزہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گائوں لایا جائے گا تو آپ کو اپنے بیٹے پر فخر ہوگا، اور آپ سب لوگ فخر سے کہیں گے کہ ہم شہید کے والدین ہیں،ہم شہید کے بھائی ہیں ۔اور پھر ایسا ہی ہوا وہ چھوٹا ہوکر بڑا مرتبہ ومقام حاصل کرگیا۔
شہید مزمل شجاع کو فوج میں جانے کاجنون تھا، وہ 12فروری 2018 کو ASC کور میں بھرتی ہوا۔ نوشہرہ سے ٹریننگ کرنے کے بعد پہلی بار جب چھٹی پر گھر آیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی ۔مزمل نے سارے گائوں میں مٹھائی تقسیم کی ۔مزمل شجاع کی پہلی پوسٹنگ مانسہرہ کے قریب بٹراسی کیمپ میں ہوئی۔شہید کے بھائی آصف نے بتایا کہ میری مزمل شجاع سے کم ہی ملاقات ہوپاتی تھی کیونکہ اکثر ایسے ہوتا تھا کہ جب وہ چھٹی پر آتا تھا تب میری چھٹی نہیں ہوتی تھی ۔ہمارا زیادہ تر رابطہ موبائل پر ہی رہتا تھا۔ وہ جب بھی چھٹی پر گھر آتاتو سارا گائوں اسے ملنے کے لیے آجاتا۔ یقین کیجیے وہ ہم بھائیوں میں سب سے منفرد اور مختلف تھا ۔دوسروں کے کام کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ چھٹی پر ہوتا مگر وہ اس دوران بھی خدمت خلق کے کاموں میں مشغول رہتا۔ گائوں کے بیمار افراد کو ہسپتال لے کر جاتا ،اگرکسی غریب بچے کے پاس سکول کا یونیفارم نہ ہوتا تو اسے یونیفارم لے کر دیتا،لوگوں کو کھانا کھلاتا ،والدہ اسے پیار سے نمبردارکہتیں اور گائوں کا ہر فرد اس سے بے حد پیار کرتا تھا۔مزمل شجاع کو دین سے بڑا لگائو تھا، وہ پانچ وقت کا نمازی تھا اورکثرت سے درود شریف پڑھتا تھا۔
شہید کے بھائی آصف محمود بتاتے ہیں کہ وہ میرے بچوں سے بے حد محبت کرتا تھا اور مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز تھا ۔اسے کھانے میں میٹھا بہت پسند تھا اور جب وہ گھر ہوتا تو روز حلوے کا بڑا پتیلا پکتا کیونکہ اس کے دوست واحباب ہمہ وقت تو اس کے پاس بیٹھے رہتے۔شہید کے بچپن کے ساتھی بتاتے ہیں کہ شہید مزمل شجاع بہت اچھا اور ایک سچا انسان تھا ہم نے اسے کبھی جھوٹ بولتے ہوئے نہیں دیکھا، وہ سکول میں گھر سے لائی ہوئی اپنی روٹی دوسروں کو کھلاکر خوش ہوتا۔
شہید کی سب سے بڑی اور اچھی عادت یہ تھی کہ کبھی بھی کسی سے ناراض نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی دل میں بغض رکھتا تھا، بڑی سادہ طبیعت کا مالک تھا ،ایک خدمت گزار بیٹا ،ایک محبت کرنے والا بھائی، ایک حیادار اور وفادار دوست تھا ۔بچپن سے ہی عجیب خواہش کرتا تھا بالخصوص مجھے اور ابوکو کہتا تھاکہ ''اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں شہادت لکھی ہے''۔وہ کھیل بھی نرالے کھیلتا تھا، کھیل میں ہمیشہ فوجی بنتا تھا اور ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوجاتاتھا ،اس کھیل سے میری والدہ بہت پریشان ہوتیں اور انکی طبیعت سخت خراب ہوجاتی مگر وہ ہمیشہ ایک ہی بات کرتا تھا کہ دیکھ لینا کہ جس دن میرا جسد خاکی سبزہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گائوں لایا جائے گا تو آپ کو اپنے بیٹے پر فخر ہوگا، اور آپ سب لوگ فخر سے کہیں گے کہ ہم شہید کے والدین ہیں،ہم شہید کے بھائی ہیں ۔اور پھر ایسا ہی ہوا وہ چھوٹا ہوکر بڑا مرتبہ ومقام حاصل کرگیا۔
شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ہماری والد ہ امراض قلب کی مریضہ ہیں اس لیے ڈاکٹر ز نے والدہ کو خوش رکھنے کاکہا ہے تو مزمل شجاع والدہ کو فون پر بھی مزاحیہ قصے کہانیاں سناسناکر ہنسایاکرتا تھا۔آخری بار وہ 6اپریل 2023کوچھٹی پر آیا ،گھر میں خوب رونقیں لگائیں،مجھے باربار کہتا کہ آپ جلدی آجائیں، آپ سے ملنے کو دل کرتاہے اور بچے بھی یاد آتے ہیں، میں نے اسے بتایا کہ عید پر ضرور ملاقات ہوگی،چھٹی آرہا ہوں۔ اس کے آخری الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں تو میں راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں اس نے مجھے بڑے اداس لہجے میں کہا تھا کہ ''بھائی ممکن ہے کہ پھر کبھی زندگی میں ملاقات نہ ہوسکے'اور اب جنت میں آپ سے ملوں گا'' اس کے آگے وہ احمد فراز کی یہ غزل گنگنانے لگا ۔
''اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں''
اس کی اس بات نے مجھے اندر سے کاٹ کررکھ دیا ،میں نے اسے ہمیشہ کی طرح پیار سے ڈانٹ کر کہا کہ چھوٹے اس طرح نہیں کہتے اور دوسری بات یہ کہ ہم نے اپنی زندگی اپنے ملک کی حفاظت کے لیے وقف کی ہوئی ہے اور اس ملک کی بقاء سا لمیت ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اس سے زیادہ خوش نصیبی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہماری یہ زندگی اپنے وطن کے کام آجائے۔
عید الفطر پر میں فیملی سمیت چھٹی پر گھر گیا تو شہید مزمل شجاع کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ بار بار میرے گلے لگتا اور کبھی میرے ماتھے کو چومتا تو کبھی میرے ہاتھوں کو۔ شہید کی آواز بہت پیاری تھی وہ جب قرآن پاک کی تلاوت کرتا تو سننے والا بے خود ہوجاتا ،اکثرکوئی غزل یازیادہ تر قومی ترانے گنگناتا رہتا۔ شہید کے بھائی رائو عاقب بتاتے ہیں کہ 5مئی کو میرے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تومزمل نے ایک مرتبہ پھرپورے گائوں میں مٹھائی تقسیم کی ۔ چھٹی گزارنے کے بعد وہ 25مئی 2023کو واپس اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔یہ دن میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ ہم بھائی روزانہ رات کو اپنی والدہ سے وہی بچپن کی کہانیاں سن کر سوتے۔ 3جون 2023کو دن 2بجے شہید ڈیوٹی کے سلسلہ میں تین جوانوں سمیت بٹراسی کیمپ سے دودھنیال کے لیے سرکاری گاڑی میں روانہ ہوئے ۔4جون 2023کو چانگن کے مقام پر گاڑی دریائے نیلم میں جاگری،جس میں موجود 4جوان شہید ہوگئے۔ہمارا پیارا بھائی مزمل شجاع جنتیوں کا مہمان بن گیا۔
بے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے مگر جوان بیٹے ،بھائی کی موت پر غم سے نڈھال ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ اس سے آگے بتاتے ہوئے شہید کے بھائی آصف محمود سسکیاں لے کررو رہے تھے،ان سے بات نہیں ہوپارہی تھی ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ مجھے 4جون 2023بروز اتوار کو صبح 9:30پرکال آئی کہ آپ کے بھائی سپاہی مزمل شجاع شہید ہوگئے ہیں۔میں نے ان سے عرض کی کہ یہ بات میرے گھر نہ بتائی جائے کیونکہ میری والدہ دل کی مریضہ ہیں ۔میں فیملی سمیت کوئٹہ سے گائوں کے لیے روانہ ہوا ۔ملتان پہنچ کر میں نے تما م عزیز واقارب کو کال کرکے بتایا کہ مزمل شہید ہوگیا ہے اور اس کا جسد خاکی گھر لایا جارہا ہے۔میرے گھر پہنچنے سے پہلے ہی والدہ کو علم ہوچکا تھا، کیونکہ رشتہ دار گھر آنا شروع ہوچکے تھے۔جب میں گھر پہنچا تو اس وقت والدہ اور بہنوں کا جوحال تھا ان کو بیان کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ والدہ کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ 5جون صبح 9:30 پرمزمل شجاع کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گھر پہنچا۔ میرے والد محترم نے بڑی ہمت کے ساتھ جوان بیٹے کا جسد خاکی اپنے بوڑھے کندھوں پر اٹھایااور اونچی آواز میں کہا کہ مزمل تو سچ کہتا تھا کہ ''جس دن تیرا جسد خاکی سبزہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گھر لایا جائے گا تو ہم تجھ پر فخر کریں گے۔ ہمیں تجھ پر فخرہے،ناز ہے کہ تو ڈیوٹی کرتا ہواشہید ہوا ہے اور میں اپنی قسمت پہ نازاں ہوں کہ میں ایک شہید کا باپ ہوں۔''بعد نماز ظہر 2بجے کے قریب سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہید کو ان کے آبائی قبرستان کوٹلہ نرنجن میں سپرد خاک کردیا گیا۔دھرتی کا ایک اور بیٹا دھرتی پر قربان ہوگیا۔||
مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے