دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے ایس ایس جی کے جری سپوت،میجرعلی رضا شہید
سبزہلالی پرچم کا رکھوالا ایک اوربہادربیٹا وطن عزیز کادفاع کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے قافلہ شہداء میں شامل ہو گیا۔ 9اکتوبر2023ء کو اس خبر نے پوری قوم کو اداس کر دیا کہ پاک فوج کے کمانڈو میجر علی رضا ژوب (بلوچستان) کے علاقہ سمبازہ میں دہشت گردوں کے خلاف'' انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن'' کے دورا ن اپنے ساتھی حوالدار نثار احمد کے ساتھ جام شہادت نو ش کرگئے ہیں۔اس کارروائی میں پانچ دہشت گرد بھی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔پاک وطن کے اس بہادر بیٹے کو آبائی علاقے میں فوجی اعزاز اور بھرپور عوامی جوش و جذبے کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔میجر علی رضاشہید کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے تھا۔پاک فوج کے افسروں کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ کسی محفوظ مقام پر بیٹھ کر محض اپنے سپاہیوں کو ہدایات نہیں دیتے بلکہ اپنے جوانوں کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف فرنٹ پر لڑتے ہیں۔ اس کارروائی میں میجر علی رضا نے بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ سب سے آگے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
میجر علی رضا 1992ء میں شاہ پور شہر ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی سید عاشق حسین ایک محب وطن انسان تھے۔سید عاشق حسین کو اللہ کریم نے تین بیٹوں سید آفتاب رضا،سید آصف رضا ، میجر علی رضا اور ایک بیٹی سے نوازا ۔علی رضا سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ شہید کی والدہ صاحبہ غلام سکینہ اپنے جوان بیٹے کی شہادت پر بہت زیادہ افسردہ و دل گرفتہ ہیں ۔ ظاہری سی بات ہے کہ یوں جگر کے ٹکڑے کو پال پوس کر سبزہلالی پرچم کی آن بان پر نچھاور کر دینا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ دھرتی کی ان ماؤں کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قربان کر کے بھی وطن کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی ہیں۔ بچوں کی جدائی کا دُ کھ انہیں اندر ہی اندر سے کھوکھلا ضرور کردیتا ہے لیکن وہ اپنے وطن سے شکوہ ہرگز نہیں کرتیں۔میجر علی رضاشہید کی اولاد نہیں تھی اور ان کی بیوہ بھی غم کی تصویر بن چکی ہیں۔شہید کی والدہ اور ان کی بیوہ کا دُکھ دیکھا نہیں جاتااور نہ ہی غم و اندوہ کی اس کیفیت کو قرطاس پر منتقل کیاجاسکتا ہے۔
میجر علی رضا کے والد سید عاشق حسین نے 2008ء میں وفات پائی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین خوبصورت بیٹوں سے نوازاتھا۔ یوں ان کے اندر جذبہ عودآیا کہ کم از کم ان کے ایک بیٹے کو تو پاک فوج میں جانا چاہیے لیکن قسمت نے موقع نہ دیا اور وہ اپنی آنکھوں سے یہ خواہش پوری ہوتی نہ دیکھ سکے۔ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے علی رضا جو اپنے والد کے سب سے لاڈلے بھی تھے، کے ذہن میں ایک ہی بات سما گئی تھی کہ میں فوج میں ضرور جائوںگا اور اپنے مرحوم والد کی تمنا پوری کروں گا۔میجر علی رضا کے ماموں حوالدار(ر) صداحسین بھی پاک فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ' یوں ان کے خاندان کے اندر کہیں نہ کہیں پاک فوج کا حصہ بننے کاجذبہ موجود رہا۔میجر علی رضا شہید کو بچپن ہی سے فوج میں شمولیت کا شوق تھا،پھر ان کے والد کی بھی خواہش تھی۔ یوں میجر علی رضا زمانۂ طالب علمی ہی سے وطن کے لیے اپنا تن من اور دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔وطن سے محبت کا یہی جذبہ تھاکہ تمام مراحل باآسانی طے کرکے 2013ء میں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول پہنچ گئے اور انہوں نے ٹریننگ کے بعد سخت جان گروپ ''انفنٹری''کاانتخاب کیا ۔ علی رضا نے اسی پر ہی اکتفاء نہیں کیا اور مسلسل اس کوشش میں رہے کہ مجھے موقع ملے تو ایس ایس جی کمانڈو بن جائوں۔
شہید کے بڑے بھائی سید آفتاب رضا نے بتایا کہ'' علی رضانے میٹرک کاامتحان سروش پبلک سکول سیالکوٹ سے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ پنجاب کالج سیالکوٹ سے کیا۔ علی رضا نے 2013ء میں 132پی ایم اے لانگ کورس کے ذریعے پاک فوج میں شمولیت اختیارکی۔ پاسنگ آئوٹ پریڈ کے بعدانہوں نے اپنی مرضی سے انفنٹری کاانتخاب کیا اور 12پنجاب رجمنٹ کاحصہ بن گئے ۔انہوں نے اس لیے انفنٹری کا انتخاب کیاتھا کیونکہ وہ باقاعدہ پیدل لڑاکا فورس کا حصہ بننا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرنے کے بعدان کی پہلی پوسٹنگ پشاور میں ہوئی ۔اس کے بعد مختلف ادوار میں چراٹ، سیالکوٹ، منگلا اور کوئٹہ میں فرائض انجام دیتے رہے۔میجر علی رضا کو کھیلوں سے بھی خصوصی دلچسپی تھی ۔والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے اور بڑھ چڑھ کر مختلف میچز میں حصہ لیتے۔ میجر علی رضا 2018ء میں ایس ایس جی میں شامل ہوئے اور چراٹ ٹریننگ سنٹر میں کمانڈو کی خصوصی تربیت حاصل کرنے کے بعد ''ون کمانڈوکمپنی ''کا حصہ بن گئے ۔ شہید کے بڑے بھائی آفتاب رضا بتا رہے تھے کہ جب بھائی کے سینے پر ''کمانڈو''کا بیج لگا تو ہماری والدہ بہت زیادہ خوش ہوئیں اور وہ فخر سے بتایا کرتیں کہ ''میرا بیٹا اب کمانڈو بن گیا ہے''۔ والدہ کے شوق کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی وردی پر لگا ایس ایس جی کا بیج اُتارکر والدہ کو دیا کہ امی یہ بیج آپ خود میری وردی پر لگا ئیں۔ والدہ نے خود ان کے سینے پر ایس ایس جی کا بیج بھی لگایا۔ ایسے میں ان کا چہرہ ٹمٹمااُٹھاکہ میںایک جری سپوت کی ماں ہوں۔علی رضا پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
ان کے بھائی آفتاب رضا نے بتا یا کہ'' جب علی رضا کی پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوئی تو ہم سب بہن بھائی اپنی والدہ کے ساتھ پی ایم اے گئے ۔وہ ایک بڑا یادگار دن تھا،علی رضااپنی اجلی خوبصورت یونیفارم میں بہت ہی بھلے لگ رہے تھے۔علی رضا پی ایم اے کاکول سے فارغ ہو کر سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے تو اس روز ہمارے گھر میں جشن کا سماں تھا۔علی رضا کو آرمی میں سب سے پہلا رینک میں نے لگایا تھا اور کیپٹن ،میجر کے رینکس ہماری والدہ نے لگائے تھے۔میجر علی رضا کی یونٹ کے افسروں اورجوانوں نے شہید کے ورثاء کو بتایا کہ پوری یونٹ میں انہیں نہایت قدر کی نظر سے دیکھاجاتا تھا۔ وہ ایک بہترین اوربروقت فیصلہ کرنے والے فوجی افسر تھے۔ یونٹ میں ان کی بڑی عزت تھی۔''
ایک سوال کہ میجرعلی رضا 12پنجاب رجمنٹ سے ایس ایس جی کی طرف کیوں چلے گئے تھے؟ اس پر آفتاب رضا نے بتایا کہ ''دراصل علی رضا کی اپنی خواہش تھی کہ میں کمانڈو بنوں ۔فوجی حضرات کو اس کا بہتر علم ہے کہ آرمی میںزبردستی کسی کو بھی ایس ایس جی میں شامل نہیں کیاجاتا۔صرف انہی افسروں اور جوانوں کو کمانڈوکی ٹریننگ دی جاتی ہے جو اپنے جذبے کے تحت ایس ایس جی کا انتخاب کرتے ہیں۔یوں ہمارے بھائی کی خواہش بھی انہیں سپیشل سروسز گروپ میں لے گئی۔''
میجر علی رضا شہید کے ایک فوجی ساتھی نے بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے میجرعلی رضا کو گولیاں لگیں تو ان کے آخر ی الفاظ یہ تھے ''میرے گھر والوں کو بتاناکہ میں بہادری کے ساتھ لڑا''میجر علی رضا کی یونٹ کے ایک اور دوست نے بتایا کہ'' وہ اپنی فٹنس کا بہت خیال رکھتے۔ ان کی اپنے پروفیشنل کاموں میں بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اور بھی کافی چیزوں سے دلچسپی تھی۔ مثلا ًانہیں جو گھر الاٹ ہوا تھا، اس کی دیواریں انہوں نے خود بڑی نفاست سے پینٹ کروائی تھیں ، ان کا ڈرائنگ روم بھی بہت شاندار تھا۔ان سب چیزوں سے ان کے عمدہ ذوق کا پتہ چلتا ہے۔وہ ایک تخلیقی ذہن کے انسان تھے۔گھر کے فرنیچر سے لے کر پینٹنگ تک سبھی کا انتخاب وہ خود کرتے۔وہ ایک اچھے دوست اور ایک بہترین محافظ وطن تھے۔اللہ کریم انہیں غریق رحمت فرمائیں۔آمین''
میجر علی رضا شہادت سے تین چار ماہ قبل چھٹی پر گھر آئے اوراہل خانہ کو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی لہر اور مختلف متاثرہ علاقوں کے متعلق آگاہ کرتے رہے۔علی رضا مجھ سے چار سال چھوٹے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں میں بہت زیادہ محبت تھی۔ میں توکہتاہوںکہ علی رضا میرا چھوٹا بھائی بھی تھا اور بالکل میرے بیٹوں جیساتھا۔ والدصاحب کی وفات کے بعد میں نے اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھااور اس نے بھی مجھے بہت زیادہ عزت اوراحترام دیا۔ انتہائی عاجزی اورادب کے ساتھ میری ہر بات مانتا۔ان کے بھائی نے مزیدبتایا کہ میری عادت تھی کہ گھریاخاندان کے حوالے سے کوئی بھی اہم بات ہوتی تو میں علی رضا سے مشور ہ ضرور کرتا ۔ شہادت سے صرف چند گھنٹے قبل میںنے اسے کال کرکے اس کی خیریت دریافت کی اورپھر اسے ایک مسئلہ سے آگاہ کیا اور اس سے رائے لینا چاہی تو وہ کہنے لگا ''بھائی جان!آپ ہمارے بڑے ہیں۔ میری وہی رائے ہے جوآپ کی ہوگی ۔ آپ جو بھی فیصلہ کریںگے،میں ہمیشہ کی طرح اس فیصلے کی تائید کروںگا''۔بس یہ میری ان سے آخری بات تھی اور پھر.......چندگھنٹے ہی گزرے تھے کہ مجھے ان کی شہادت کی اطلاع مل گئی۔
آفتاب رضا کہنے لگے کہ میں اُس گھڑی کا وہ دُکھ آپ سے شیئر نہیں کر سکتا جب مجھے بھائی کی شہادت کی اطلا ع ملی۔میری جو کیفیت تھی اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔9اکتوبر کی سہ پہر دو بجے ان کی یونٹ سے کال آئی کہ میجر علی رضا دہشت گردوں کے خلاف ایک معرکے میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔پھر کچھ دیر بعد ہی میڈیا پر بھی خبریں چلنا شروع ہوگئیں۔میجر علی رضا شہید کاجسدخاکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ژوب سے پی اے ایف ایئر بیس سرگودھا اور پھروہاں سے گائوں لایا گیا۔ان کی نماز جناز ہ میں پاک فوج کے افسروں ،جوانوں ،معروف سیاسی و سماجی شخصیات اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اورانہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا۔دعا ہے کہ اللہ کریم میجر شہید کی والدہ،بہن بھائیوں اور بیوہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔آمین ۔
بلاشبہ غیر ملکی ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے میجر علی رضا جیسے افراد ہمارے قومی ہیرواورا صل سرمایہ ہیں ۔ ہمارے یہ محافظ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کے آگے حقیقی معنوں میں ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ان کی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کی بدولت دہشت گردی کی لعنت ختم ہو جائے گی اور پاک دھرتی کے چپے چپے پر ایک بار پھر امن کا جھنڈابلند ہوگا۔دشمن کے مذموم ارادے خاک میں مل جائیں گے اور سبزہلالی پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ قیامت کی صبح تک لہراتا رہے گا۔ان شاء اللہ! ||
مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں ا ور اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے